بیہودہ ریمارکس کے ذریعہ ذہنی اذیت، ٹوئٹر بھی شریک جرم

جرنلسٹ ثانیہ احمد سے بات چیت

سوشل میڈیا پر ایک خاص نظریے اور ذہنیت سے تعلق رکھنے والے لوگ صرف پاکستانی لڑکیوں کو ہی نشانہ نہیں بنا رہے ہیں بلکہ ان کے نشانے پر ہندوستان کی مسلم لڑکیاں بھی ہیں۔ ان کے ’سائبر جنسی تشدد‘ کی شکار دہلی میں مقیم جرنلسٹ ثانیہ احمد سے ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ افروز عالم ساحل نے خاص بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا اور ان کی شکایت پر پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی ہے۔

انڈیا ٹوڈے گروپ میں کام کرنے والی ثانیہ احمد بتاتی ہیں کہ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں ٹویٹر پر میں نے اچانک دیکھا کہ ایک اکاؤنٹ پاکستانی لڑکیوں کی بولی لگا رہا ہے اور مسلم لڑکیوں کے بارے میں کافی گندی باتیں لکھی جا رہی ہیں۔ میں نے اس اکاؤنٹ کو رپورٹ کرتے ہوئے اس بارے میں ٹویٹر پر لکھا تاکہ لوگ اس اکاؤنٹ کو رپورٹ کر سکیں۔ لیکن اس اکاؤنٹ کا تو کچھ ہوا نہیں، بلکہ الٹا وہ میرے پیچھے پڑ گئے۔ ان کا ایک پورا نیٹ ورک ہے اور ان کا کام سوشل میڈیا پر مسلم لڑکیوں کو ٹارگیٹ کرنا ہے۔ یہ ان کی بولی لگاتے ہیں۔ اس نیٹ ورک نے میرے خلاف بھی وہی سب کچھ کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مجھے اور میری دوست ثانیہ سید کو لے کر ایک پول چلایا۔ ہمارے بار بار رپورٹ کرنے کے بعد بھی ٹویٹر پر یہ پول پورے 24 گھنٹے چلا۔ اس پول میں ان کا سوال تھا کہ ان میں کس کو حرم میں رکھنا چاہو گے؟ اس کے نیچے بہت ہی زیادہ بیہودہ کمنٹ تھے۔ عصمت دری سے لے کر سر کاٹنے تک کی بات کی گئی تھی۔۔۔

اس کے بعد آپ نے کیا کیا اور کیا ہوا؟ اس پر ثانیہ نے بتایا کہ آن لائن سائبر سیل پر میں نے اس کی شکایت درج کرائی۔ پھر سائبر سیل کے نمبر پر کال کر کے اس کی شکایت کی۔ میں نے دیکھا کہ اس طرح کے معاملوں میں سائبر سیل کے لوگ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔ الٹا انہوں نے مجھ سے ہی سوال کرنا شروع کر دیا کہ آپ نے سوشل میڈیا پر تصویر کیوں ڈالی؟ پبلک میں تو کوئی بھی آپ کی تصویر اٹھا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اس کے بعد انہوں نے کچھ نہیں کیا؟ جی نہیں! اس کے بعد انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ آج تک انہوں نے کوئی انکوائری نہیں کی۔ آج تک مجھ سے بھی کچھ نہیں پوچھا گیا ہے۔ اور وہ اکاؤنٹ چلتا رہا، جو اب تک موجود تھا۔ اور اب بھی وہی کام کر رہا تھا۔ بس انہوں نے مجھے بلاک کر دیا تھا۔

تو پھر آپ کو کیسے معلوم کہ وہ اکاؤنٹ اب تک موجود تھا؟ اس سوال پر ثانیہ کہتی ہیں کہ اب انہی لوگوں نے حسیبہ امین کو لے کر بولی لگائی۔ جو کچھ میرے ساتھ ہوا تھا وہی اس کے ساتھ بھی دہرایا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے عید کے دن یو ٹیوب پر پاکستانی لڑکیوں کو لے کر یہی کام کیا۔ وہاں میں نے ان کے کمنٹ دیکھے۔ میں نے اس کو لے کر پھر سے ٹویٹر پر ایک پوسٹ لکھا۔ وہ دوبارہ میری ٹویٹ پر آکر بیہودگی کرنے لگا۔ جب میں نے دہلی پولیس اور سائبر سیل کو ٹیگ کیا تو انہوں نے جلدی سے اپنا نام اور تصویر مسلمانوں والی کر لی۔ مگر ان کی ہمت دیکھیے کہ جس ٹویٹ پر دہلی پولیس اور سائبر سیل کو ٹیگ کر رکھا ہے، اس پر وہ یہ کمنٹ کر رہے ہیں کہ شکایت تو کرتی رہنا، مگر اپنا ریٹ تو بتا دو۔ یہی نہیں، انہوں نے پھر سے میری تصویر لے کر پول کرائی۔ ایسی ہمت کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کی پشت پناہی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

تو کیا آپ نے پھر سے ان کے خلاف شکایت درج کرائی؟ اس پر ان کا کہنا ہے کہ نہیں! اب ہم ٹویٹر کو نوٹس بھیجیں گے، کیونکہ یہ سب کچھ ٹویٹر پر چل رہا ہے۔ یہ ٹویٹر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے اکاؤنٹس پر لگام لگائے۔ ان کے خلاف ایکشن لے اور قانون کارروائی کرے۔

وہ سوالیہ انداز میں کہتی ہیں کہ جب امریکہ کے ٹویٹر میں ایسا نہیں ہے تو انڈیا میں ایسا کیوں؟ پھر اس کا جواب بھی وہی دیتی ہیں کہ ایک تو وہاں کے لوگ گالی گلوج کرنے والے نہیں ہوتے اور وہاں رپورٹ کرنے پر اکاؤنٹ فوراً سسپینڈ ہو جاتا ہے، وہاں کی ٹیم بھی بہت بڑی ہے جو مسلسل ان چیزوں پر نظر رکھتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں ٹیم چھوٹی ہے، اور ان میں بہت سارے لوگ اسی ذہنیت کے ہیں، جو یہ سب کر رہے ہیں۔ یہی نہیں، ٹویٹر کا الگورتھم بھی ہندی زبان میں کچھ خاص کام نہیں کرتا اور یہ لوگ بھی ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جس کو ان کا الگورتھم نہیں پکڑ پاتا۔ ان لوگوں کو عصمت ریزی کرنے کی دھمکی دینی ہوتی ہے تو لکھتے ہیں کہ ’ان کا آصفہ کرکے چھوڑ دو‘ یا مسلم لڑکیوں کے لیے یہ ’سلی‘ (sulli) لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔

ثانیہ مزید بتاتی ہیں کہ جب لوگ رپورٹ کرتے ہیں تو یہ لوگ اپنے اکاؤنٹ کو پرائیویٹ کر لیتے ہیں یا تھوڑے دنوں کے لیے ڈی ایکٹیویٹ کر لیتے ہیں اور چار پانچ دنوں بعد پھر واپس آکر اپنا وہی کام شروع کر دیتے ہیں۔ مگر ان کے خلاف کچھ نہیں ہوتا۔

پولیس کارروائی نہیں کرتی ہے، اس کو آپ کیسے دیکھتی ہیں، آخر ان کی کیا مجبوری ہے؟ اس سوال پر وہ کہتی ہیں کہ سچ پوچھیے تو پولیس کو اس پلیٹ فارم کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ ان کی ایسی ٹریننگ ہی نہیں ہوئی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی شناخت کر پائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی کارروائی کرنا ہی نہ چاہتے ہوں۔ وہ ان معاملوں کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں۔ اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان میں بھی زیادہ تر اسی نظریے کو ماننے والے ہیں۔ یہ ہمارے سسٹم و سماج کی کمی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021