’سفید پھول زمیں پر برس پڑیں جیسے‘

رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کی شاعری کا حسن و تنوع

ڈاکٹر محمد حسین فطرت بھٹکلی

فراق کی شاعری ذوق لطیف کی بازگشت اور وجدانی کیفیات کا پر تو ہے
فراق کی شاعری کے بارے میں مختلف افکار وآراء سنتے آئے ہیں ،کسی نے ان کی شاعری میں ارضیت اور ہندوستانیت کی نقد گری دیکھی کسی نے ان کی غزلوں میں اردو شاعری کی کلاسیکی روایات کا جمال دیکھا، کسی نے خود ان کی اپنی انفرادیت کی نشان دہی کی ،کسی نے ان کی شاعری میں نسوانی پیکر کی جمال افروزی کا مشاہدہ کیا، اسی طرح ڈاکٹر اسلوب احمد انصاری نے فراق کی رباعیات کو شکنتلا ناٹک کی مصوری کا نام دیا۔ لیکن مجھے فراق کی شاعری کے بارے میں گوپی چند نارنگ کی خیال آرائی سب سے زیادہ موزوں اور معتبر نظر آئی جیسا کہ ان کے حسب ذیل الفاظ سے ظاہر ہے’’ فراق حسن و جمال کی بولتی ہوئی روح کے شاعر ہیں۔ ان کے ہاں حسن اپنی جسمانیت کے باوصف ایک روحانی پہلو بھی رکھتا ہے۔ فراق کے جمالیاتی احساس میں کثافت سے لطافت اور مادیت سے روحانیت کی حد میں جدا جدا ہوتی ہیں‘‘۔ اس میں شک وشبہ کی کچھ گنجائش نہیں کہ فراق کی رباعیات کا مرکزی موضوع عورت ہے۔ بعض ناقدین کے خیال میں حسن کی تصویر کشی میں فراق نے میرا بائی اور تلسی داس کے اسلوب کی پیروی کی ہے مگر سچ پوچھیے تو فراق کا لب ولہجہ ان کی اپنی افتاد طبع کی پیداوار ہے۔ رباعیات کی دلکش ورعنائی اور اعلی قسم کی مصوری خود ان کی طبع رواں کی گلکاری ہے، اور یہ کہیں سے مستعار نہیں ہے۔ ان کی پرواز تخیل نے شعری روایت میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور تغزل کو جدت وندرت کے سانچے میں ڈھالا ہے، حسب ذیل اشعار سے جس کی توثیق ہوتی ہے ۔
باغ جنت سے گھٹا جیسے برس کر کھل جائے
سوندھی سوندھی تری خوشبوئے بدن کیا کہنا
سفید پھول زمیں پر برس پڑیں جیسے
فضا میں کیف سحر ہے، جدھر کو دیکھتے ہیں
وہ ترا شعلہ آواز ہے کہ دیپک راگ
قریب و دور چراغ آج ہو گئے روشن
وہ تیری نرم دوشیزہ نگاہی، دل نہیں بھولا
اٹھی جب جب نظر تیری نگاہِ اولیں نکلی
حسن کی عکاسی اشاروں اور کنایوں میں کی جائے تو اس کا لطف ہی اور ہوتا ہے، صاف اور واشگاف انداز بیان میں یہ کیف وسرور کہاں؟ خود فراق بھی رمز و کنایات کے ذریعے حسن کی عکاسی کو نہایت دلکش اور پر لطف سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے حسب ذیل الفاظ گنجینہ معنی ہیں’’۔۔۔۔۔ ہر کیفیت یا خیال کے محدود منطقی پہلو کے علاوہ ایک وجدانی پہلو بھی ہوتا ہے جس کے لیے صراحت کے ساتھ اشاریت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس اشاریت کو اپنے اشعار میں سمونا میرے خاص مقاصد شعری میں رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘
فراق کی شاعری دراصل ان کے ذوق لطیف کی بازگشت اور ان کی وجدانی کیفیات کا پر تو ہے۔ سچی شاعری کی یہی خصوصیات ہیں جو براہ راست دلوں میں فراست و آگہی کے فانوس روشن کرتی ہیں اور روح کو سیاحت و گلگشت جناں کا مزہ چکھاتی ہیں۔ فراق کی شاعری میں ایک طرح کی افسوں طرازی یا سحر کاری ہے جس کے اثر سے کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’خواب آگیں نشہ سا طاری ہے‘‘ تو کبھی ایسا لگتا ہے کہ وجدان ابھی ابھی جاگ اٹھا ہے، دراصل یہ ایک ایسا وجدانی سرور اور روحانی انبساط ہے جسے ’’آدمی محسوس کر سکتا ہے کہہ سکتا نہیں‘‘
جدت و ندرت کے اعتبار سے فراق کا پیمانہ فکر ونظر سب سے جدا ہے، بالفاظ دیگر ان کا نظریہ شاعری بڑی معنویت کا حامل ہے۔ ان کے حسب ذیل الفاظ ان کی فکری وفنی شناخت کے آئینہ دار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’شاعری کو میں روح کا سانس لینا سمجھتا ہوں، سچے وجدان کا سانس لینا ہی شاعری ہے۔ جس طرح جسم کے سانس لینے سے تندرستی بنی رہتی ہے، دماغ کے سانس لینے سے علوم کی ترقی ہوتی ہے، اسی طرح وجدان کے سانس لینے سے شاعری وجود میں آتی ہے، اب دیکھیے جتنا گہرا سانس ہو گا اتنی ہی گہری شاعری ہو گی‘‘۔
اسی طرح شعر گوئی اور سخن سنجی کے دوران اپنے جذبات محسوسات کی مخصوص کیفیت وہ اس طرح بیان کرتے ہیں ’’شعر کہتے وقت میں شاعر ہونا نہیں چاہتا بلکہ آدمی رہنا چاہتا ہوں، میں اپنے شعر کو سنتا ہوں، دیکھتا ہوں، کہتا نہیں ہوں، اپنے موضوعات کی پرستش کرتا ہوں انہیں استعمال نہیں کرتا‘‘۔
جذبات ومحسوسات کے مد و جزر کا یہی عالم ہے جس سے کمال شاعری عبارت ہے اور یہی وہ جمال شاعری ہے جس سے فکر وفن کو غیر معمولی اعتبار و وقار حاصل ہوتا ہے، مرزا غالب نے کچھ بے جا نہیں کہا ہے۔
ہے رنگ لالہ وگل دنسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
الغرض فراق کی شاعری جدت و ندرت کے جن رنگوں سے مزین و آراستہ ہے وہ نہایت طرحدار، دلکش، دلربا، تابناک اور پائیدار ہے۔ انہوں نے روایت کے احترام کے ساتھ شعر کے تخلیقی منصب کی پاسداری کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے، بقول غالب حقیقی شاعری کے عناصر ترکیبی حسب ذیل ہیں۔
’’سادگی و پرکاری، بیخودی و ہشیاری‘‘
فراق کی شاعری مندرجہ بالا ضوابط کی ہو بہو تصویر ہے، اور میرا اپنا یہ خیال ہے کہ ان کا انداز سخن در اصل خوابوں کے ذریعے حقائق کی توسیع کا نام ہے، ان کے مندرجہ ذیل اشعار کی سادگی و پرکاری کا جواب نہیں ۔
لے کے دامن میں روایات خرابات گئی
جس طرف بھی نگہِ ناز خوش اوقات گئی
منتظر رہتے تھے جس کے دو لب ولہجہ نہیں
نگہِ ناز کی وہ طرز خطابات گئی
یوں تو کہنے کو وہی ہے نگہِ ناز تری
جس کے ہم دیکھنے والے تھے وہ اک بات گئی
فراق کی ایک بہترین غزل کے چند شعر دیکھیے
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں
ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی
مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں
جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے
ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں
زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے
اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں
فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں
***

 

***

 فراق کی شاعری دراصل ان کے ذوق لطیف کی بازگشت اور ان کی وجدانی کیفیات کا پر تو ہے ، سچی شاعری کی یہی خصوصیات ہیں جو براہ راست دلوں میں فراست و آگہی کے فانوس روشن کرتی ہیں اور روح کو سیاحت و گلگشت جناں کا مزہ چکھاتی ہیں ۔ فراق کی شاعری میں ایک طرح کی افسوں طرازی یا سحر کاری ہے جس کے اثر سے کبھی یوں محسوس ہوتا ہےکہ ’’خواب آگیں نشہ سا طاری ہے‘‘ تو کبھی ایسا لگتا ہے کہ وجدان ابھی ابھی جاگ اٹھا ہے، دراصل یہ ایک ایسا وجدانی سرور اور روحانی انبساط ہے جسے ’’آدمی محسوس کر سکتا ہے کہہ سکتا نہیں‘‘


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022