غیرمسلموں سے تعلقات ۔مسئلہ کا حل

آتش نمرود کو گلزارِ ابراہیم سے بدلنے کے لیے صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

بھائی چارے کے اسلامی پیغام کے ساتھ دلوں پر دستک دیں۔ ’مسجد پریچے ‘ جیسی اختراعی سرگرمیاں وقت کی ضرورت
دہلی میں عید کے بعد مسلمانوں کی کئی بڑی کانفرنسیں منعقد ہوئیں اور ان کا مقصد حالات حاضرہ کی روشنی میں مسئلہ کا حل دریافت کرنا تھا،مایوسی کیسے دور ہو ظلم وستم کا کیسے مداوا ہو، بلی کے گلے میں گھنٹی کیسے باندھی جائے اس کے دانت کیسے توڑے جائیں اس کے ناخن کیسے کاٹے جائیں وہ آریائی برہمن جو بودھ بکریوں کو نکال چکا اور کھا چکا تھا جو ہندوستان کی اصل متمدن آبادیوں کو ہڑپا اور موہنجوڈارو تک رگید رگید کر پہنچاچکا تھا، خون اس کے منہ کو لگ گیا تھا اس درندہ کو شاکھاہاری بنانا ممکن نہیں وہ آج بھی اعلیٰ ذات کے سوا سب سے نفرت کرتا ہے ان کانفرنسوں میں جو حال میں مسلمانوں نے منعقد کیں مسلمانوں پر ظلم کی روایت بیان کی گئی،مسلمانوں کے ساتھ حق تلفیوں کے قصے سنائے گئے مسئلہ کا حل نہیں دریافت کیا گیا۔ مسئلہ کا حل ملک گیر سطح پر غیرمسلموں سے تعلقات قائم کرنا ہے اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے، نہ مسلمان باہر سے آئے ہیں اور نہ انہوں نے مندر منہدم کیے ہیں، وہ ملک کے ہمیشہ سے وفادار ہیں۔پہلے بھی تھے اب بھی ہیں ۔مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت نے ہندوستان میں عدم مساوات سے اکتاکر اسلام قبول کیا ہے۔
ہندوستان کے قالین کے شیرکمتر ذاتوں پر ظلم ڈھاتے رہے ، وہ دوسرے شیروں کو دیکھتے تو بکری بن جاتے ، مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں تھوڑاان کو ڈرایا توسارے شیر بکری بن گئے اور دم ہلانے لگے اور جب ان کو سیاسی طاقت ہاتھ آئی تو پھر جانور پن دکھانے لگے دوسرے مذہب کے لوگون کو برا بھلا کہنے لگے پیغمبروں کے ساتھ بد زبانی کرنے لگے ،دھرم سنسد منعقد کرنے لگے اور جب مسلمان ملکوں میں احتجاج شروع ہواتو سیدھے ہوگئے ۔ ایک زمانہ تھا جب مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی، ذاکر حسین، اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ جیسے شریف لیڈر کانگرس کی قطار میں تھے اور جمہوریت اور سیکولرازم کا چراغ روشن تھا فضاوں میں شرافت، انسانیت، بین الاقوامیت، سائنس، صنعت اور تعلیم کے افکار ترو تازہ تھے۔ اب یہ چراغ گل ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کی باتیں بر سرعام کی جارہی ہیں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے ۔اور اقتدار کی شمع مودی اور یوگی اور امت شاہ کے ہاتھ میں ہے۔
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
اب ہر شخص کی زبان پر سوال ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے؟ اب اس ملک میں ناتھو رام گوڈسے کی بھی پوجا شروع ہوگئی ہے اور گاندھی جی کا قتل ہورہا ہے۔ گاندھی کی تصویر پر گولیاں چلائی جار ہی ہیں۔ اس طرح سے گاندھی جی کی فکر سے نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ صحیح اور سیکولر سوچ رکھنے والوں کی ہر اسٹیٹ میں کانفرنس بلانے کی ضرورت ہے،انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے غیر مسلموں کے ساتھ مل کربڑی بڑی کانفرنسیں کی ہیں جو ایسی کانفرنس پہلے کیا کرتے تھے، وہ نہ جانے کہاں روپوش اور خاموش ہیں۔ اگر نفرت ایک تحریک بن جائے تو پھر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی اعتماد واتحاد اور شریفانہ خیالات کی نمائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ غنیمت ہے کہ دہلی میں دو بڑے جلسے ہوئے ان میں غم وغصہ کا اظہار کیا گیا ۔فرقہ پرستوں پر تنقید کی گئی حکومت کی خاموشی کو نشانہ بنایا گیا ۔
مسلمانوں کو صاف ذہن کے غیر مسلموں کو ملاکراور ان کو اعتماد میں لے کر کاموں کی صحیح منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کے لیے یہاں مستقبل کی منصوبہ بندی سے پیشتر اپنی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔ مسلمان جب باہر سے ہندوستان کی سرزمین پر پہنچے تو ان کی رگوں میں ایک تازہ دم قوم کا خون دوڑ رہا تھا۔ انہوں نے اس وسیع اور شاداب ملک میں صرف اسلامی علوم وفنون کی بے مثال خدمت انجام نہیں دی بلکہ علم وسائنس، صنعت وحرفت، تہذیب وتمدن، عمارت سازی اور زبان وادب ہر میدان میں انہوں نے اپنی ذہانت کا نقش چھوڑا۔ یہاں انہوں نے شجرکاری کی اور میٹھے پھلوں کی باغبانی کی۔ ہر جگہ چمن کو خوشنما پھولوں سے آراستہ کیا اور اس ملک کے باشندوں کو ایک نئے طرز حیات سے آشنا کیا۔
جنوبی ہندوستان میں جب مسلمان آئے تو اسلام اور مسلمانوں سے کسی کو ایسی پرخاش نہیں تھی جیسی اس وقت نریندر مودی کے عہد میں ہے۔ تاریخ میں ہے کہ اس وقت کے ہندوستان کے راجاؤں نے تبلیغی مراکز قائم کرنے کے لیے اور بستیاں بسانے کے لیے مسلمانوں کو زمینیں دیں۔ جنوبی ہندوستان میں تاجروں کے قافلے کے ساتھ اسلام آیا تھا، لیکن شمال میں لشکر کشی ہوئی تھی اور اس لشکر کشی کے اسباب تھے جن سے اس کا جواز نکلتا تھا۔ مثال کے طور پر سندھ میں فوج کشی کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے اس بحری جہاز کو جس میں خواتین سفر کررہی تھیں، لوٹا دیا گیا تھا اور بار بار کے مطالبے کے باوجود سندھ کے راجا نے مسلمان عورتوں کو واپس کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ چناںچہ لشکر کشی ہوئی اور جب سندھ فتح ہوگیا تو وہاں کے باشندے محمد بن قاسم کے اخلاق وکردار کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ اپنی عادت کے مطابق اس کے جانے کے بعد اس کا بت بنا ڈالا اور پرستش شروع کردی۔اسی طرح غیر مسلموں کو اسلامی اخلا ق کا گرویدہ بنانے کی ضرورت ہے۔
محمد بن قاسم کی طرح محمود غزنوی کے حملہ کے بھی اسباب تھے، جن کا تذکرہ غیرمسلم مؤرخین کی لکھی ہوئی کتابوں میں موجود ہے، جس کو ضرورت ہو وہ تاریخ کے صفحات الٹ کر دیکھ لے۔ اسلام اس ملک میں جنوب سے بھی داخل ہوا اور شمال سے بھی پہنچا، اسلام اس ملک کے لیے نیا دین، نیا نظریہ اور بالکل نیا عقیدہ تھا، ہندوستان کے مذہب میں دین اور دنیا کے درمیان موافقت اور آشتی نہیں تھی اسلام نے ہندو مذہب اور عیسائیت کی طرح دین کو دنیا کا دشمن نہیں ٹھہرایا، بلکہ اسے دنیوی زندگی کا رہنما بنایا اور دنیا کو دین کے لیے کارگاہِ عمل کی حیثیت دی۔نیا دین توحید اور دین مساوات ہندوستان میں بہت پرکشش تھا اس نئے دین میں نہ تو رہبانیت تھی اور نہ مادہ پرستی تھی، روح اور مادہ دونوں بہم ہوگئے تھے۔ دین کی وجہ سے دنیوی زندگی بھی خوشگوار اور روشن تھی۔ توحید اور مساوات کے عقیدہ نے بھی لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ اسلام لوگوں کے لیے ایک دلکش اور پرکشش عقیدہ بن گیا تھا۔
اس ملک میں یہاں کے باشندوں کو اسلام نے مساوات اور انسانیت کی عزت اور عظمت کا تحفہ دیا تھا، اس ملک میں آریائی نسل کے لوگ مقامی باشندوں کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے اور ان کو ملیچھ اور ناپاک سمجھتے تھے۔ اس ملک میں انسانیت کی پامالی کے خلاف دو مرتبہ بغاوت اٹھی۔ بودھ مذہب اور جین مذہب کی تحریک دراصل برہمن واد کی نسل پرستی کے خلاف عام بغاوت تھی، لیکن برہمنوں نے اس بغاوت کو بڑی زیرکی اور ذہانت کے ساتھ کچل دیا، جیسے اس وقت بھارت میں وہ مسلمانوں کو کچلنا چاہتے ہیں۔
جب مسلمان آئے تھے اس وقت ملک کا نقشہ یہ تھا کہ ہزاروں دیوی اور دیوتا تھے، شرک وبت پرستی نے پورے سماج کو جکڑ رکھا تھا، ذات پات کے بندھن میں پوری قوم گرفتار تھی، راجوں اور رجواڑوں کی اس سرزمین پر اور ذات پات کی زنجیر میں جکڑے ہوئے سماج میں جب اسلام نے قدم رکھا تو اس سرزمین کو دین اسلام کے لیے مسخر کرنے اور نسل پرستی اور ذات پات کو ختم کرنے کی مختلف انداز سے کوششیں کی گئیں۔ مسلمان سلاطین اور کشور کشاؤں نے راجوں اور مہاراجوں کو ختم کرکے ہندوستان کو ایک ملک اور ایک ریاست کی شکل دی۔ اس کے لیے انہوں نے خون بھی بہایا اور پسینہ بھی، دوستی بھی کی اور دشمنی بھی مول لی۔ انہوں نے ہندوستان کو دل وجان سے اپنا وطن بنایا اور ملک گیری کے ہوس کے بجائے ملک کی خدمت کے جذبے سے انہوں نے سب کام کیے۔ انہوں نے یہ طے کیا کہ جب وہ اس ملک میں داخل ہوگئے ہیں، تو اس ملک کی خدمت کریں گے اور یہاں سے اگر جائیں گے تو صرف اللہ کے پاس جائیں گے۔ اس حب الوطنی کے جذبے نے جنگل کٹوائے اور سڑکیں بنوائیں، جو ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاتی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف انہوں نے سایہ دار درخت لگوائے، مسافر خانے قائم کیے، انہوں اس ملک میں حکومت کا وہ ڈھانچہ تیار کیا جس میں ملوکیت اور جمہوریت کے سوا کوئی بڑا تغیر آج تک نہیں ہوا ہے۔
مسلمانوں نے اپنی حکومت میں ہندوؤں کو اونچے عہدے دیے اور ان کے ساتھ مکمل رواداری کا معاملہ کیا، اس روداری کی مفصل داستان صباح الدین عبد الرحمن صاحب نے اپنی بیش قیمت کتاب ’’اسلام اور رواداری‘‘ میں سنائی ہے۔ یہ کتا ب دو جلدوں میں دار المصنّفین اعظم گڑھ سے شائع ہوئی ہے۔ ہندوستان کی مختلف زبانوں میں اس کتاب کی اشاعت وقت کی بہت اہم ضرورت ہے، تاکہ برادرانِ وطن کو معلوم ہو کہ مسلمانوں نے ان کے ساتھ اپنی حکومت کے زمانے میں کیسا منصفانہ اور رحم دلانہ اور کرم گسترانہ سلوک کیا۔ یہاں کے سماج میں جہاں نیچی ذات کے لوگوں پر بہت ظلم ہوتا تھا شرافت اور انصاف کا عنصر داخل کیا۔
کشور کشائی کی داستان اور اس سرزمین کو فتح کرنے کے واقعات تاریخ میں موجود ہیں اور اس کے اسباب بھی مؤرخین نے لکھے ہیں، محمد بن قاسم کا حملہ ہو یا محمود غزنوی کا، ایسا نہیں تھا کہ بے سبب ملک گیری کی ہوس میں تلوار لہراتے ہوئے لوگ اس ملک میں داخل ہوگئے ہوں جیسا کہ موہن بھاگوت کہتے ہیں ،موہن بھاگوت کو تاریخ پڑھنی چاہیے مسلمان جارحیت اور حملہ کے ذمہ دار نہیں ہیں۔نہ محمد قاسم نے بے سبب حملہ کیا تھا نہ محمود غزنوی نے صرف ہندوستان پر حملہ کی خاطر تیغ بازی کے جوہر دکھائے تھے جو تحقیق کرنا چاہتا ہو وہ لائبریری میں جاکر تاریخ کی کتابیں نکال کر پڑھ لے ۔ ہم تو یہاں اس وقت تصوف کے رول کا ذکر کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس لیے کہ اس کا تعلق مستقبل کی منصوبہ بندی سے ہے۔ اس ملک میں سپہ کی تیغ بازی کی داستان، نگہ کی تیغ بازی کی داستان سے کچھ کم دل کش اور حسین نہیں ہے۔ محمود غزنوی کے زمانے میں خواجہ معین الدین چشتیؒ ہندوستان آئے اور اجمیر میں انہوں نے آخری پڑاؤ ڈالا۔ انہوں نے یہاں کے باشندوں کو پیغام حق سنایا اور جن کو یہاں کے نسل پرستوں نے اچھوت بنا ڈالا تھا، ان کو اسلامی مساوات کا درس دیا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بھائی چارے کے اسلامی پیغام نے اس ملک میں لاکھوں دلوں کو متاثر کیا، اسی کے ساتھ ساتھ ’’جتنے کنکر اتنے شنکر‘‘ کا عقیدہ رکھنے والے ملک میں چشتی سلسلہ کے صوفیائے کرام نے توحید کا دلکش عقیدہ پیش کیا۔
اس طرح سے اسلامی تعلیمات کی روشنی اس ملک کے اندھیروں کو کاٹتی رہی، ملک بھر میں خانقاہیں قائم ہوئیں، یہ خانقاہیں انسانیت کی پناہ گاہیں تھیں، جہاں انسانوں کی چارہ سازی اور دلوں کی صفائی کا اور انسانوں کو مخلوقات کی بندگی سے نجات دلانے کا کام انجام دیا جاتا تھا۔ مسلمان مبلغین اور صوفیائے کرام کو ہندوستانی سماج کے بند دلوں اور بند دروازوں کو کھولنے کا جتنا موقع ملا اتنا موقع سلاطین اور مسلم حکمرانوں کو بھی نہیں مل سکا۔
اس حقیقت کی گواہی ایک غیر مسلم مؤرخ پروفیسر آرنلڈ نے اپنی کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ میں دی ہے۔ ان خانقاہوں میں غیر مسلم بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ آتے تھے، جہاں ان کی روحانی اور ایمانی تربیت کا کام ہوتا تھا، ان صوفیائے کرام نے کایا پلٹ دی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔ افسوس اور غم کی بات یہ ہے کہ روحانی اور ایمانی تربیت کی خانقاہیں اب اس زمانے میں درگاہیں بن گئی ہیں، جہاں غیر مسلموں کے دلوں کے بند دروازوں کو کھولنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ آج بھی برادرانِ وطن جس قدر بزرگوں کے آستانوں پر عقیدت کے ساتھ جاتے ہیں، اس قدر وہ مدرسوں اور مسلم تنظیموں کے دفاتر میں نہیں جاتے۔
یہ بات مسلم قیادت کے سمجھنے کی ہے کہ برادرانِ وطن کے دلوں پر دستک دینے کا کام اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کو درخشندہ بنانے کے لیے اشد ضروری ہے اور یہی حقیقی پیغمبرانہ مشن ہے۔ اس کے لیے دوستانہ ماحول چاہیے، حریفانہ اور مخالفانہ ماحول نہیں۔ غیرمسلموں سے خوشگوار روابط اور تعلقات کی شدید ضرورت ہے۔ سینۂ صحراء میں آب اور حباب پیدا کرنے کے لیے اور آتش نمرود کو گلزارِ ابراہیم سے بدلنے کے لیے صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان خیرسگالی بورڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس منصوبہ بندی کی ضرورت کا احساس ملی قیادت کو نہیں ہے، یہ تنہا راستہ ہے، ہوائے تند وتیز میں اس بحر متلاطم پر حکومت کی کشتی چلانے کا۔ تصوف بمعنی احسان، روحانیت اور اخلاق فاضلانہ اور خدمت خلق، اسلام کی روح بھی ہے اور اس ملک میں ہماری ضرورت بھی ہے اور بحر ہند میں سفینۂ نجات بھی ہے۔ آج جو لوگ درگاہوں کے متولی ہیں، اگر اپنے اسلاف کی روش پر چلنا پھر سے طے کرلیں، اپنے تزکیۂ نفس کی تکمیل کریں اور عوام کے دلوں کی صفائی کا کام سلیقہ اور حکمت کے ساتھ انجام دیں، غیر مسلم عوام وخواص کے لیے روحانیت کی پناہ گاہیں تعمیر کریں اور زرگری اور زرکشی سے دست کشی اختیار کریں، حرص وآز سے توبہ کریں اور خدمت خلق اور رفاہِ عام کے جذبے سے کم زور طبقات کو اور ہر مظلوم اور محتاج کو خود سے قریب کریں، انہیں توحید اور مساوات کے عقیدے سے آشنا کریں توآج بھی وہ معجزہ نمودار ہوسکتا ہے جو ہندوستان میں اسلام کی تاریخ میں نمودار ہوا تھا۔ غیر مسلموں سے روابط اور تعلقات کی تحریک کو اپنے گھر سے اور اپنے محلہ سے شروع کیجیے، پڑوسیوں سے تعلقات پیدا کیجیے:
چاہیے خانۂ دل کا کوئی گوشہ خالی
شاید آجائے کہیں سے کوئی مہمان عزیز
سلاطین اور صوفیا کے ساتھ ایک اور طبقہ تھا، جس نے یہاں کے باشندوں کے دلوں کو موہ لیا تھا، یہ وہ مسلمان تھے جو اعلیٰ درجے کی صنعت وحرفت کو لے کر اس ملک میں داخل ہو گئے تھے اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کی تہذیبی برتری واضح طور پر اس ملک میں نظر آتی تھی، اس ملک میں گھروں میں قالین، چلمن، پردہ، حوض اور فوارے، لہکتے ہوئے باغ اور مہکتے ہوئے پھول، خوشنما پھولوں کے چمن جیسے مغل گارڈن، دسترخوان اور صراحیاں، خوبصورت پوشاک اور ٹوپیاں، سلے ہوئے کپڑے، معانقہ کی رسمیں، عمارت سازی میں محراب اور چبوترے، روشن اور ہوادار مکانات، وسیع مکانات میں مردانہ اور زنانہ حصوں کا الگ الگ ہونا، فن تعمیر کا جمالیاتی ذوق اور اس میں تکلف ونزاکت مسلمانوں کی دین ہیں۔ ایسی سر زمین میں جہاں بہت کثرت سے لوگ ننگے پاؤں، یا کھڑائوں پہنے یا لنگوٹی لگائے پھرتے ہوں، جہاں نہ عمارتوں میں صفائی ہو نہ موزونی، نہ انگور ہو، نہ خربوزہ، نہ دوسرے لذیذ میوے، نہ آب سرد نہ حمام، ایسے ملک میں مقامی عام باشندے باہر سے آئی ہوئی مسلم قوم کے مقابلے میں لازمی طور پر احساس کمتری کا شکار ہوگئے ہوں گے اور ان کی نقل اتارنا ان کافیشن ہوگیا ہوگا اور انہوں نے بھی اپنے گھروں میں پاندان، اگال دان، دسترخوان، باورچی خان اور نہ جانے کتنے خان داخل کیے ہوں گے۔یعنی مسلمانوں کو تعلیمی اور تہذیبی طور بلند کرنا اپنی منصوبہ بندی میں شامل کرنا ہوگا۔
یہ بات طے ہے کہ اس ملک میں دین اسلام کو نہ زبردستی پھیلایا گیا اور نہ زبردستی سے وہ پھیل سکتا ہے، یہ ایک خاموش اور مسلسل جہد وعمل کا نتیجہ تھا۔ اس میں سلاطین کے انداز قاہرانہ اور اہل دل کے انداز دلبرانہ اور اہل علم کے رنگ دانشورانہ اور اہل ہنر کی صنعت فن کارانہ سب کا اشتراک عمل تھا۔ آئندہ کی کسی بھی منصوبہ بندی کے لیے گذشتہ تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ منصوبہ بندی ایسی ہونی چاہیے کہ کسی نہ کسی اعتبار سے مسلمان دوسروں سے فائق نظر آئیں اور غیر مسلم اس فوقیت کا اعتراف کرنے پر اپنے کو مجبور پائیں۔
مستقبل میں کام کے منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لیے تعلیم اور روحانیت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے خانقاہوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہونا ہوگا اور اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے نئی نسل کو دینی، اخلاقی اور تعلیمی اعتبار سے امتیازی مقام دلانا ضروری ہے اس اندرونی تیاری کے ساتھ برادران وطن سے تعقات استوار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ ہر محلہ اور ہر بستی کی سطح پر پوری مسلم امت کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے ہمیں دین کے تعارف کے کام پربھی توجہ دینی ہے۔ اس مقصد کے لیے پورے ملک میں غیرمسلموں سے رابطہ کی مہم اور خدمت خلق کے کام کی بڑی اہمیت ہے ۔ آج کل مسجد پریچے کے جوپروگرام چل رہے ہیں وہ خوش آئند ہیں۔اسی طرح نئے انداز کے سیرۃ النبی کے جلسے منعقد کرنے کی ضرورت ہے جس میں سیکڑوں غیر مسلموں کو باصرار مدعو کیا جائے اورجلسہ کے لیے مناسب مقرر کا انتظام کیا جائے ہندوستان میں سیرۃ النبی کے جلسے منعقد ہوتے ہیں لیکن غیر مسلمانوں کو شرکت کے دعوت نامے نہیں بھیجے جاتے۔ آج حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کا واقعہ ہندو ستان میں پیش آیااور دنیاے اسلام سرتاپا احتجاج بن گئی غیر مسلموں نے بھی ناگواری کا اظہار کیا ۔ ضرورت تھی کہ اس وقت ما حول کی سازگاری کا فائدہ اٹھایا جاتا تعلیم یافتہ غیرمسلموںکو سیرت پر کتابیں مطالعہ کے لئے دی جاتیں ۔ تمام زبانوں میں سیرت کا لٹریچر موجود ہے لوگوں کو معلوم تو ہو مائیکل ایچ ہارٹ کیا کہتے ہیں جنہوں نے تاریخ عالم کی سو بڑی شخصیتوں میں پہلا مقام حضرت محمدﷺکو دیا ہے اور The Hundred کے نام سے کتاب لکھی ہے ۔دنیا کی بے شمار بڑی شخصیتوں سے لے کر مہاتما گاندھی تک سب نے حضور اکرم کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کیا ہے کچھ لوگوں نے اسلام بھی قبول کیا ہے یہ خراج تحسین کئی زبانوں میں موجود ہے۔ لیکن مسلمانوں کا غیر دعوتی ذہن ہمیشہ دعوت کے مواقع کھودیتا ہے جن لوگوں نے ہندوستان کے حالات کو درست کرنے کا عزم کیا ہے وہ مبارکباد کے لائق ہیں۔ ذہن نشین کرلیجیے کہ غیر مسلموں سے تعلقات اور حسن سلوک یہ کام کا نقطہ آغاز ہونا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ ملک کی ساکن سطح پر حال کے عرصہ میں کچھ لہریں نمودار ہوئی ہیں۔سیرت کا لٹریچر غیر مسلموں تک پہونچانے سے کام کا آغاز کریں اور نفرت کی خلیج کوکم کرنے کی کوشش کریں ہندوستان کی تاریخ میں ہندو مسلم تعلقات کے پس منظر میں فیض احمد فیض کے یہ اشعار آج کے اپنے ہم وطنوں کو سنانے کا دل چاہتا ہے:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
اب بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
***

 

***

 مستقبل میں کام کے منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لیے تعلیم اور روحانیت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے خانقاہوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہونا ہوگا اور اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے نئی نسل کو دینی، اخلاقی اور تعلیمی اعتبار سے امتیازی مقام دلانا ضروری ہے اس اندرونی تیاری کے ساتھ برادران وطن سے تعقات استوار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ ہر محلہ اور ہر بستی کی سطح پر پوری مسلم امت کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے ہمیں دین کے تعارف کے کام پربھی توجہ دینی ہے۔ اس مقصد کے لیے پورے ملک میں غیرمسلموں سے رابطہ کی مہم اور خدمت خلق کے کام کی بڑی اہمیت ہے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022