آبائی قبرستان کے دستاویزات میں سے مرہٹہ مسلم سپہ سالاروں کی تاریخ دریافت

بھائی کی تدفین سے لے کر شیواجی مہاراج کے دستِ راست رستم زماں تک کی کہانی

افروز عالم ساحل

یہ کہانی ایک ایسے شخص کی جد وجہد کی ہے جس نے چاہا تھا کہ موت کے بعد اسے تدفین کے لیے کوئے یار میں دو گز زمین عزت کے ساتھ حاصل ہو سکے۔ یہ جد وجہد اس لیے بھی ضروری تھی کیونکہ جب اس کے بھائی کی موت ہوئی تو اس کو خود اس کے آبائی قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

بات سال 2007 کی ہے۔ اس شخص کے بھائی کی موت کینسر کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔ جب یہ شخص اپنے بھائی کی تدفین کے لیے انہیں اپنے آبائی قبرستان میں لے گیا تب وہاں کچھ لوگوں کے ذریعہ انہیں روک دیا جاتا ہے۔ بہت کہا سنی کے بعد معاملہ قریب کے پولیس اسٹیشن میں پہنچتا ہے۔ پولیس اسٹیشن پہنچنے کے بعد اسے ایک اور نئی کہانی کا پتا چلتا ہے کہ وہ زمین اب پولیس اسٹیشن کی ہے۔ مجبور ہو کر وہ شخص دوسرے قبرستان میں جاتا ہے، وہاں بھی اسے یہ کہتے ہوئے روک دیا جاتا ہے کہ یہ قبرستان آپ کے فرقے کا نہیں ہے اس لیے یہاں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ نامراد اور مایوس ہو کر بوجھل قدموں کے ساتھ اب یہ شخص تیسرے عوامی قبرستان کا رخ کرتا ہے جہاں کافی تگ ودو کے بعد بالآخر کسی طرح بھائی کی تدفین کے لیے جگہ مل جاتی ہے۔ اس واقعے سے اس کے دل کو بہت گہری ٹھیس پہنچتی ہے۔ وہ بار بار یہی بات سوچتا رہا کہ آخر جو قبرستان ہمارا آبائی ہے اور جو زمین ہمارے خاندان کی ہے جس پر ہمارا حق ہے جہاں میرے باپ دادا اور خاندان کے تمام افراد دفن ہیں وہاں میرے بھائی کو کیوں دفن کرنے نہیں دیا گیا؟ اس ’کیوں‘ کا جواب تلاش کرنے کے لیے اس شخص نے اپنے خاندان میں موجود تمام پرانے دستاویزات کو کھنگالنا شروع کیا جس میں اسے نہ صرف اس قبرستان کے کاغذات ملے بلکہ ایک پوری تاریخ بھی ملی جس سے ہمارے وطن کے لوگ شاید ہی واقف ہوں۔ یہ تاریخ سلطنت بیجاپور کے سپہ سالار وزیر رندولہ خان کی ہے، جو شیوا جی مہاراج کے والد شاہ جی راجے کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو دنیا کو بتائے گی کہ شیواجی مہاراج اور ان کے والد کی اصل طاقت مسلمان ہی تھے۔

یہ کہانی مہاراشٹر کے ضلع ستارہ، موضع رحمت پور کے تعلقہ کورے گاؤں کے شیخ عباس مجاور کی ہے۔ شیخ عباس ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتاتے ہیں کہ اس حادثے نے مجھے بہت پریشان کیا۔ لیکن میں نے اس پریشانی کو ایک مثبت انداز میں لیا اور اپنے خاندان کی دستاویزات کی تلاش شروع کی۔ برٹش زمانے کے دستاویزات دیکھا تو پایا کہ قبرستان کی جگہ وقف کی ہے۔ جس پر اب کچھ لوگوں نے انتظامیہ کی مدد سے نہ صرف قبضہ کر رکھا ہے بلکہ سرکاری ریکارڈ (7/12 کے دستاویزات) میں اس زمین کا اسٹیٹس ہی بدل دیا گیا ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس دوران مجھے کئی سارے حیران کر دینے والے دستاویزات ملے اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ 1936 میں بھی کچھ لوگوں نے اس زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی، تب میرے دادا عدالت گئے تھے۔ عدالت میں پیش کردہ دستاویزات کے ساتھ ساتھ 1936 کے وقت کے چیریٹی کمشنر کے دستاویزات بھی حاصل ہوئے۔ (واضح رہے کہ اس وقت مہاراشٹر کے مرٹھواڑہ علاقے کو چھوڑ کر باقی تمام علاقوں کے وقف کی دیکھ بھال کی ذمہ داری چیریٹی کمشنر کی ہوا کرتی تھی) میں قبرستان سے متعلق دستاویزات لے کر پولیس اسٹیشن پہنچا تو انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ سے آرڈر لے آؤ۔ لیکن وقف بورڈ سے آرڈر لانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ان کے اس آبائی قبرستان کی پیمائش محض 3 گنٹہ ہے۔ یہ یہاں کی اپنی پیمائش کے مطابق ہے۔ حالانکہ حیدرآباد میں بھی اسی پیمائش کا استعمال کرتے ہیں لیکن دونوں میں تھوڑا سا فرق ہے، حیدرآباد میں 30 گنٹے کا ایک بیگہ ہوتا ہے جبکہ مہاراشٹر میں 20 گنٹے کا ایک بیگہ ہوتا ہے۔

شیخ عباس کے مطابق وہ رندولہ خان کے دودھ شریک بھائی ہیں۔ رندولہ خان نے ہی ان کے خاندان کو قبرستان کے لیے یہ زمین تحفے میں دی تھی۔سال 2010 میں اس معاملے سے متعلق مہاراشٹر وقف بورڈ میں انہوں نے شکایت درج کرائی۔ کافی کوششوں کے بعد وقف بورڈ کے افسروں نے سروے کر کے اسے وقف کا قبرستان تسلیم کر لیا ہے۔ اب انہیں پوری امید ہے کہ ان کے قبرستان پر ہوئے ناجائز قبضے ہٹا دیے جائیں گے اور یہ قبرستان پوری طرح سے ان کے خاندان کے لوگوں کو واپس مل جائے گا اور مستقبل میں ان کے بھائی کے تدفین کی کہانی کسی اور کے ساتھ دوہرائی نہیں جا سکے گی۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں شیخ عباس کہتے ہیں کہ میں اس پوری جد وجہد کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر وقف املاک کے لیے ہم ایسی ہی کوششیں کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ایک نہ ایک دن وقف کی وہ زمین یا قبرستان جس پر لوگوں نے ناجائز قبضے کر لیے ہیں، دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔

رندولہ خان کے شاہی قبرستان پر بھی ناجائز قبضہ

آگے شیخ عباس بتاتے ہیں کہ جب وہ اپنے آبائی قبرستان سے متعلق دستاویزات تلاش کر رہے تھے، تبھی اس دوران رحمت پور کے قدیم قبرستان، جسے یہاں کے لوگ ’شاہی قبرستان‘ کہتے ہیں، سے متعلق دستاویزات بھی حاصل ہوئیں۔ ان دستاویزات کے مطابق یہ شاہی قبرستان 2 ایکڑ 14 گنٹے کا ہے۔ لیکن فی الحال یہاں ایک ایکڑ ہی زمین بچی ہوئی ہے۔ اس ایک ایکڑ زمین پر بھی سرکاری اور غیر سرکاری محکموں کے ناجائز قبضے ہیں اور ابھی بھی یہاں تعمیراتی کام چل رہے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ملک میں جس پولیس کی ذمہ داری ناجائز قبضوں سے وقف کی زمینوں کی حفاظت کرنا ہے اسی پر اس نے اپنا اسٹیشن بنا لیا ہے۔ اس کے متعلق بھی شیخ عباس نے مہاراشٹر حکومت کو شکایت کی تھی تاکہ یہاں جو پولیس اسٹیشن بنا ہے اس کا افتتاح نہ ہو لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ شیخ عباس بتاتے ہیں کہ اپنی اس ملکیت کے حصول اور تحفظ کے لیے میں نے سال 2010 میں مہاراشٹر وقف بورڈ میں عرضی داخل کی تھی جس کا فائل نمبر 1375/10 ہے اور جو ابھی بھی زیرِ غور ہے۔ سال 2011 میں انہوں نے اس معاملے پر وقف ٹریبیونل میں بھی ایک سول سوٹ (نمبر104/11) داخل کیا تھا۔ ساتھ ہی ضلع ستارا میں جتنے بھی سرکاری دفاتر ہیں ان سب کو اس سے متعلق تحریری درخواست بھی دی لیکن کسی نے بھی ان کی فریاد نہیں سنی

۔ سب سے خراب تجربہ وقف بورڈ کا رہا۔ 2017 میں پھر سے انہوں نے اس سے متعلق وزیر اعظم آفس، سنٹرل وقف کونسل، وقف بورڈ اور مہاراشٹر کے وزارت اقلیتی بہبود سے رابطہ کیا اور مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی سی آئی ڈی جانچ کروائی جائے۔ ان کے اس مطالبے پر سنٹرل وقف کونسل نے مہاراشٹر وقف بورڈ کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک خط لکھا، تب جاکر اس بار وقف بورڈ حرکت میں آیا۔ وقف کے چیف آفیسر نے ڈویژنل آفیسر کو یکم جنوری 2018 کو جگہ کا معائنہ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا جس پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ اس مسئلے پر 2017 میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی امتیاز جلیل جو اب رکن پارلیمنٹ ہیں، نے بھی مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ سے اس پورے معاملے میں سی آئی ڈی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیخ عباس کو وقف بورڈ کے افسروں کی عدم دلچسپی کے باوجود اس بات کی پوری امید ہے کہ ان کی محنت ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی اور یہ کام جلد ہی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا اور اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

واضح رہے کہ اس شاہی قبرستان سے لگی ہوئی ایک شاہی مسجد بھی ہے جس کی تعمیر سلطنت بیجاپور کے ساتویں بادشاہ محمد عادل شاہ کے بہادر سپہ سالار وزیر رندولہ خان نے سال 1639 میں کی تھی۔ اسی مسجد کے پاس رندولہ خان کو دفن کیا گیا تھا۔ یہاں 1649 میں سپہ سالار افضل خان نے ایک گنبد تعمیر کروایا تھا۔
دراصل، رندولہ خان نے ہی اس رحمت پور شہر کو بسایا تھا۔ اس شہر کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگریزوں کے دور حکومت میں گورنمنٹ آف بمبئی نے اس شہر کی آمدنی کی وجہ سے اسے سال 1853 میں نگر پریشد کا درجہ عطا کیا جو آج بھی قائم ہے۔

 

کون تھے وزیر رندولہ خان؟

رندولہ خان کا اصل نام ثیبار خان تھا۔ جنگ کے میدان میں ان کے کارناموں کو دیکھتے ہوئے انہیں رندولہ خان کا لقب محمد عادل شاہ نے دیا تھا۔ وہ سلطنت بیجاپور کی عادل شاہی میں وزیر بھی تھے اور سپہ سالار بھی تھے۔ ان دنوں شیواجی مہاراج کے والد شاہ جی راجے بھی عادل شاہی سلطنت میں سپہ سالار تھے اور رندولہ خان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ دونوں آپس میں کافی گہرے دوست تھے۔ رندولہ خان اپنے آخری دور میں وائی پرگنہ کے صوبہ دار بھی رہے۔ انہوں نے بیجاپور میں ’اثر محل‘ (جسے داد محل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کے نام سے ایک عمارت تعمیر کی جو آج بھی قائم ہے۔ مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے 1686ء میں بیجاپور سلطنت کو فتح کر لیا تھا۔

رندولہ خان کی یوم پیدائش کے بارے میں جانکاری نہیں ملتی۔ ان کے والد کا نام فرہاد خان تھا۔ ان کے والد بھی احمد نگر کی نظام شاہی میں وزیر تھے۔رندولہ خان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔ یہ دونوں بھی رحمت پور کے اسی قبرستان میں مدفون ہیں، جس کے لیے شیخ عباس جد وجہد کر رہے ہیں۔ رندولہ خان کی موت سال 1643 میں ہوئی تھی۔

رندولہ خان کے بیٹے کا نام رستم زماں تھا۔ یہ بھی عادل شاہی سلطنت میں ملازم تھے۔ عادل شاہ نے شیواجی مہاراج کو جنر، پونہ اور آس پاس کے کچھ علاقے جاگیر میں دیے تھے۔ جب عادل شاہی حکومت ختم ہوئی اور مغلیہ حکومت شروع ہوئی، تب بھی رستم زماں ہمیشہ شیواجی مہاراج کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ شیواجی مہاراجکے دورِ حکومت میں رستم زماں سب سے خاص شخص تھے اور شیواجی مہاراج ان کے مشورے پر ہی جنگ کے میدان میں اترتے تھے۔ دراصل رستم زماں ہی شیواجی مہاراج کے لیے ہر جنگ کی حکمت عملی بناتے تھے۔ اسی لیے کہ ان کے جنگ لڑنے کا طریقہ ہمیشہ الگ ہوتاتھا۔ رستم زماں، شیواجی مہاراج کی مدد کرنے کے لیے کئی بار اپنی جان کی بازی تک لگا چکے تھے۔ رستم زماں کی صحیح رہنمائی کی وجہ سے ہی شیواجی مہاراج اپنی جان اور سوراج کو بچا سکے تھے۔ رستم زماں کا دشمن کے خیمے میں رہ کر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر شیواجی مہاراج کی سوراج کے تئیں شراکت تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رستم زماں نے ہی واگھنخ (شیر کا پنجہ) ایجاد کیا تھا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021