قرآن و سنت کی دعوت کے ذریعہ غلبہ ممکن

اتحاد کے لیے فرقہ پرستی اور مسلک پرستی سے خالص اسلام کی طرف رجوع ہونے کی ضرورت

(حسنین خالد مالاکنڈ )

عہد حاضر میں مسلمانوں کے مابین فرقہ واریت نے ایک وبا کی حیثیت اختیار کی ہے ۔ فرقہ واریت کے جراثیم تقریباً ہر مسلمان گھر میں سرایت کر چکے ہے۔ ہم فرقہ واریت کی زہر آلود فضا میں سانسیں لے رہے ہیں جس سے ہمیں یہ بیماری لاحق ہو گئی ہے کہ اب ہم اختلاف رائے رکھنے کے بجائے مجادلانہ مناظروں میں مبتلا ہیں ۔ جس کا مقصد ایک دوسرے کو تکفیر تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ نتیجتاً ہماری فضا افتراق اور فساد کا گہوارہ بن گئی ۔ اب تو اس معاملے کی سنگینی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک فرقہ کے افراد دوسرے فرقہ کے افراد کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
اس فرقہ واریت کا فائدہ طاغوتی طاقتوں کو مل رہا ہے۔ مغرب کا دنیا پر حکمرانی کا اصول ہے کہ اس محکوم باشندوں کو تقسیم کرو، انہیں تعلیم سے محروم کرو، ان کی معیشت کو تباہ کرو ، اور انھیں اپنے مابین لڑا دو ۔
یہ معروف و مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ اسکندر (Alexander ) ایک علاقے میں پھنسا۔ اس نے اپنے استاد کو خط لکھا کہ یہ علاقہ فتح نہیں ہو رہا ہے ۔ استاد نے اس کو جوابی خط میں لکھا کہ تم ان کو تقسیم کر کے ہر ایک خطے میں اپنے مطیع شخص کو لوگوں کے سامنے تاج پہنا کے بھیج دو اور وہاں کا بادشاہ بنا دو ۔ اس نے اسی طرح کیا۔ پھر جب کوئی بغاوت کرتا تو اس کا سر کچلنا آسان ہوتا ۔ وہ جس پر چاہتا حملہ کر سکتا تھا ۔جس پر حملہ آور ہوتا تو دوسرے سمجھتے تھے کہ یہ حملہ ہم پر نہیں بلکہ دوسرے پر ہو رہا ہے ۔یہی صورت حال ہماری ایک ارب مسلم آبادی کی ہے۔ انہیں 58 ممالک میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ اوراسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ دشمن ہمیں رنگ و نسل، فرقہ واریت، قومیت، پنجابی، سندھی، عرب و کرد شیعہ سنی دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث وغیرہ کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردینے کے درپے ہے۔
اس کے علاوہ ہر ملک میں بیس فیصد ہوس پرست لوگ 80فیصد کے لیے لیڈر بنائے گئے ہیں ۔ جن کا مقصد کرپشن کر کے ملک سے پیسوں کے ساتھ باہر نکل کر اپنے اثاثوں کو ان کے بینکوں میں جمع کرنا ہے ۔ یہ کبھی آپ کو ایک ہونے نہیں دیں گے ۔ اس لیے کہ پھر ان کو آپ سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ یہ منصوبہ ان کے مطابق 80/20اصول ہے جس سے وہ آج کل دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔
علامہ یوسف القرضاوی صاحب نے ہمیں ’’کرنے کا کام‘‘کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے :
’’ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’جو لوگ کافر ہیں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم نے بھی ایسا نہ کیا تو زمین میں بڑا فتنہ اور فساد برپا ہوگا‘۔ (انفال 83) یہ کافر جماعتیں مسلمانوں کی سرکوبی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں ۔ اگر تم مسلمانوں نے مسلم دشمن طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ویسے ہی اتحاد واتفاق اور باہمی تعاون کا مظاہرہ نہیں کیا جیسا کہ اہل کفر کرتے ہیں تو اس روئے زمین پر بڑا فساد برپا ہو گا اور ہر سو فتنہ پھیل جائے گا یعنی ہرسو کفر و الحاد کا غلبہ ہوگا۔ چنانچہ صورتحال یہی ہے کہ ہم مسلمان آپسی اختلافات کا شکار ہو کر ایک دوسرے کیخلاف برسر پیکار ہیں اور ساری زمین پر ان لوگوں کا غلبہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ مسلم امت کی مختلف جماعتوں کے درمیان جوفکری یامسلکی یا کسی قسم کے اختلافات ہیں انہیں فراموش اور نظر انداز کر کے آپسی اتحاد و اتفاق کی فضا ہموار کی جائے اور امت مسلمہ کے اہم ترین مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے ۔‘‘ (فتاویٰ یوسف القرضاوی جلد دوم ص 63 البدر پبلیکیشنز، اشاعت فروری 2017 ء)
ہماری مسلم امہ کے حالات افتراق کے سبب اس حد تک آپہنچے ہیں کہ وہ اب بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ہر چھوٹے بڑے کو ان کی محکومی و غلامی کا ادراک ہے ۔ ہندوستان میں مسلمان ماؤں بہنوں کی حالت زار کشمیر میں ماؤں بہنوں کی آہ و فریاد، افغانستان، شام، فلسطین، عراق، برما کے سسکتے حالات ہمیں ایک ہونے اور متحد ہونے کی صدا دیتے ہیں لیکن رنگ و نسل قوم و قبیلے مسلکی و سیاسی فرقہ واریت سے جب ہم نکل جائیں گے تو ہم کسی کو یہ کہنے کے قابل بن جائے گے کہ یہ اسلام ہے اور ہم مسلمان ہیں اور اسلام کا ہم سے یہ مطالبہ ہے ۔
دوسری طرف ہمارے برائے نام مسلم امراء و حکماء ان سے اتنے مرعوب ہو گئے ہیں کہ جب چند درد دل رکھنے والے افراد اپنے دین کی خاطر اپنے گھر، جان و مال اور اہل وعیال اپنے مسلم ماؤں بہنوں کے دفاع میں ان کو ان کے اوقات دکھانے نکلتے ہیں تو اول فرصت میں ان کے ٹکڑوں پر پلے ہمارے سیاست دان ہمارے کئی سکالرز اور خود کو مدبرین سمجھتے ہوئے ہمارے جامے میں ان کے غلام ہمیں غلامی کو قبول کرنے کی تلقین کے ساتھ ہمارے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیتے ہیں ۔ پھر ہمارے مقابل اُن کا کیا رویہ ہوتا ہے اس کے بارے مولانا مودودی نے کیا خوب لکھا ہے :
’’یورپ کے مدبرین سیاست کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ اندر ہی اندر فتنہ انگیزیاں کرتے رہتے ہیں ، اور دوسری طرف جب ان کی شرارتوں کا میگزین پھٹنے پر آتا ہے تو ان میں سے ہر ایک اصلاح اور امن پسندی کا مدعی، حق و انصاف کا حامی اور ظلم و زیادتی کا دشمن بن کر اٹھتا ہے اور دنیا کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ میں تو صرف خیر و صلاح چاہتا ہوں مگر میرا مد مقابل ظلم و بے انصافی پر تلا ہوا ہے، لہذا آو اور میری مدد کرو۔‘‘(ترجمان القرآن لاہور فروری ١٩٥٨ ص ١٠)
جن لوگوں کا کوئی کام نہ ہو تو وہ ضرور اپنے مابین لڑ پڑیں گے ۔ ہم سے ہمارا مقصد ہمارے کرنے کا کام جسے ہم’’امر بالمعروف ونهى عن المنكر” کہتے ہیں جس میں (دعوت، اسلامی نظام کا قیام، جہاد کی کوشش سب شامل ہے) لے لیا، ان کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ریاست کا کام ہے اور ریاست ہمارے جامے میں ان کے بندوں کے پاس ہے اب ہم اپنے مابین لڑیں گے نہیں تو کیا کریں گے ۔ ہمیں مکالموں، مناظروں اور مجادلوں میں مبتلا کر کے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تمہارا دین اور تمہارا کام یہ ہے ۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے بد قسمتی سے اسے ہمارے مابین انسٹال کیا گیا ہے ۔ ہمارا کام بقول مولانا مودودی : ” قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھنا اور پوری دنیا پر چھا جانا ہے ۔‘‘
قرآن نے ہمیں اپنے مابین لڑنے کے لیے نہیں کہا ہے بلکہ اس حوالے سے قرآن کا ارشاد ہے کہ : ’’ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم‘‘(أنفال 46)قرآن نے ہمیں پارہ پارہ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ ان سے ایک ہو کر لڑیں جس طرح وہ آپ سے ایک ہو کر لڑتے ہیں : ’’وقاتلوا المشركين كافة كما يقاتلونكم كافة‘‘ (توبہ 36) اور سورہ صف میں ہے : ’’ان الله يحب الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص‘‘ (الصف :4)
صاحب تفسیر المنار ’’سید رشید رضا‘‘ نے یہ اصول مسلم امہ کو دوبارہ متحد ہونے کے لیے وضع کیا کہ : فرقہ واریت سے نجات کے لیے ہم کو ’’دین کے مشترکہ اصول‘‘ پر متفق ہونا چاہیے اور "فروعات” پر اختلاف رائے کو برداشت کر کے ان سے تفرقہ اور پھوٹ ڈالنے کا آغاز نہیں کر دینا چاہیے ۔ قرآن مجید کے مطابق اتحاد بین المسلمین وقت کے تقاضوں سے بالا تر الله تعالیٰ کا امر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قبر میں فرقے، مسلک، لیڈر، امام، اور تقلید کا نہیں پوچھا جائے گا بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ آپ کا رب کون تھا ؟آپ کا دین کیا تھا ؟ آپ کا نبی کون تھا ؟ اس لئے تمام مسلمانوں کو صرف اور صرف خالص اسلام یعنی قرآن و سنت پر متفق ہونا چاہیے ۔اتحاد کے قیام کے لیے فرقہ پرستی اور مسلک پرستی کی آمیزش سے خالص اسلام کی طرف رجوع کرنا ہو گا، جس کی آج کل اشد ضرورت ہے ۔
خالص اسلام کی طرف رجوع کرنے کے بعد ہمیں دین کی اقامت اور اس کے غلبے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی اس وقت تک کہ : ويكون الدین كله لله ‘‘ (أنفال 39) ہوجائے ۔
سورہ حج کے ( آیت 41) کے مطابق : جب ان کو تمکین فی الأرض مل جائے گی تو یہی ریاست مسلمانوں کے لیے تقوی اور طاقت سے معمور اور پوری دنیا کے لیے امن کا گہوارہ ہوگی، جس کا نمونہ ہمارے اسلاف تھے : ’’رهبانهم باليل وفرسان بالنهار‘‘ رات کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہوتے اور دن کے وقت شہسوار ہوتے۔ ہمارے ان اسلاف کی قربانیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہم تک اسلام کا پیغام پہنچا دیا لیکن ہم نے اس کو میراث میں وصول کر کے اس کی ناقدری کی جس کی قیمت آج ہم غلامی میں ادا کر رہے ہیں ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022