خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے رواداری ہی واحد راستہ : دی ہندو

عالمی اقتصادی ماحول بدستور چیلنج، پالیسی ساز اداروں کو احتیاط برتنے کی ضرورت: انڈین ایکسپریس

احتشام الحق آفاقی

ہندی زبان میں میڈیکل کی تعلیم کا فیصلہ خوش آئند قدم: دینک جاگرن
ہندوستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے پرتشدد واقعات میں روز بروز اضافہ باعث تشویش ہیں۔ اگرچہ حکومت اور خواتین کے تحفظات سے متعلق سرگرم افراد خواتین کے خلاف ایسے واقعات سے انکار کرتے ہیں یا کمی کی باتیں کرتے ہیں لیکن آئے دن پیش آنے والے واقعات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کے خلاف رونما ہونے والے واقعات کم نہیں ہوئے بلکہ پہلے کے مقابلہ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اخبار دی ہندو نے 18 اکتوبر کے شمارے میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات کو اداریہ کا موضوع بناتے ہوئے لکھا کہ ’’خواتین کے خلاف تشدد کے جتنے مقدمات درج ہوئے ہیں وہ محاوروں کی زبان میں برفانی تودے کا ایک سرا ہیں۔ ان معاملات میں اتنا ہی پوشیدہ ہے جتنا کہ ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ بعض اوقات قوم کے اجتماعی شعور کو متزلزل کرنے کے لیے کافی ہے خاص طور پر دن کی روشنی میں لڑکیوں کے خلاف گھناؤنے جرائم جیسے واقعات۔ گزشتہ ہفتے چنئی میں پیش آنے والے پرتشدد واقعے نے لوگوں کے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا جہاں ایک کالج کی طالبہ ستیہ پریہ کا پیچھا کرتے ہوئے ایک شو مین نے اسے ٹرین کے آگے دھکیل دیا جس کی ٹرین سے کٹنے کے بعد موت واقع ہو گئی۔ جبکہ اس ماہ کے شروع میں دلی میں ایک آٹھ سالہ بچی کو اغوا کیا گیا، اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور پھر اسے قتل کر دیا گیا۔ ستمبر کے مہینے میں اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں دو نوعمر لڑکیوں کی مشتبہ لاشیں ملی تھیں۔ پولیس نے بتایا کہ انہیں عصمت دری کے بعد دوپٹہ سے گلا گھونٹ کر مارا گیا اور پھر درخت سے لٹکا دیا گیا۔ ان لرزہ خیز واقعات میں سے صرف چند ہی اخبارات کی سرخیاں بنتے ہیں یا سوشل میڈیا پر زیر بحث آتے ہیں۔ زیادہ تر غیر رپورٹ شدہ ہیں اور پانی کی سطح کے نیچے چھپے ہوئے آئس برگ کی طرح پڑے ہیں۔‘‘
اخبار نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کی ہندوستان کی تاریخ اچھی نہیں ہے۔ ان میں 2012 کا نربھیا کیس یقینی طور پر ایک سنگ میل ہے، جس نے ملک کے ضمیر کو اس قدر جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا کہ حکومت قانون کو مضبوط کرنے اور مستقبل میں ایسے خوفناک واقعات کو روکنے کے لیے ضروری نظام اور بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے پر مجبور ہوئی ۔ تاہم نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں خواتین کے خلاف 4,28,278 جرائم کے واقعات درج کیے گئے۔ ان میں عصمت دری، عصمت دری اور قتل، جہیز ہراسانی، اغوا، جبری شادی، اسمگلنگ اور تشدد شامل ہیں۔ نربھیا کیس کے ایک دہائی بعد حکومت سے پوچھا جانا چاہیے کہ نربھیا معاملہ کے تناظر میں جن حکمت عملیوں کی بات کی گئی تھی حکومت نے اس پر کیا کیا؟ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے بوجھ سے ملزمین کی سزا کے لیے ٹرائل اور ریزولیوشن کا تیز رفتار عمل ختم ہو رہا ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف صنفی طور پر محفوظ، لچکدار اور جامع شہروں کی تعمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے میں حکام کی جانب سے کسی قسم کی کوتاہی قابل قبول نہیں ہے۔ ان معاملات میں رواداری ہی واحد راستہ ہے۔‘‘
دنیا بھر کے اقتصادیات پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر افراط زر میں اضافہ پریشان کن ہے۔ دی انڈین ایکسپریس نے 21 اکتوبر کو اپنے اداریہ میں عالمی اقتصادیات پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ ’’تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں افراط زر برقرار رہنے کا امکان ہے۔ ستمبر میں مہنگائی امریکہ میں 8.2 فیصد، یورو زون میں 9.9 فیصد اور برطانیہ میں 10.1 فیصد رہی۔ جب کہ غیر مستحکم توانائی کی قیمتیں اس کے لیے ذمہ دار ہیں اور بنیادی افراط زر بلند رہی ہے۔ فی الحال افراط زر کے دباؤ میں تیزی سے کمی کا امکان نہیں ہے۔ اس طرح ان ممالک کے مرکزی بینکوں کے جارحانہ انداز میں سختی جاری رکھنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے ابھرتی ہوئی منڈیوں سے سرمائے کے مزید اخراج کا امکان ہے۔ غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاروں کی فروخت ہندوستانی بازاروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ہندوستان کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ کا بگڑتا ہوا توازن نہ صرف معاملات کو پیچیدہ بنا دے گا بلکہ کرنسی پر مزید دباؤ ڈالے گا۔ اب تک ریزرو بینک آف انڈیا بعض دیگر ترقی پذیر معیشتوں کے مرکزی بینکوں کی طرح کرنسی کی حمایت کے لیے کرنسی مارکیٹوں میں فعال طور پر مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کا ایک حصہ ہے جو سال کے آغاز میں 633 بلین ڈالر سے کم ہو کر 7 اکتوبر کے آخر میں 532 بلین ڈالر پر آ گئے ہیں جس کو اس کی مداخلتوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ذخائر میں کمی کی رفتار
تشویشناک ہے، وہ عالمی درجہ بندی ایجنسی فِچ کے مطابق مستحکم رہتے ہیں، جو ستمبر میں 8.9 ماہ کی درآمدات کا احاطہ کرتے ہیں جو کہ ٹیپر ٹینٹرم کے دوران زیادہ ہے۔ تاہم اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ مستقبل قریب میں عالمی اقتصادی ماحول چیلنجنگ رہے گا، پالیسی سازوں کو محتاط رہ کر معیشت کو لاحق خطرات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔‘‘
مدھیہ پردیش کی حکومت نے گزشتہ ہفتہ ایم بی بی ایس کی تعلیم انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ ہندی زبان میں بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تک میڈیکل کی تعلیم کے لیے انگریزی زبان ہی لازم تھی۔ حکومت کے اس فیصلہ کے بعد اگر کوئی طالب عالم میڈیکل کی تعلیم ہندی میڈیم سے پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے جب کہ میڈیکل کی پڑھائی کو ہندی زبان میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا کے کئی ممالک میں میڈیکل سمیت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا نظام مادری زبان میں رائج ہے لیکن ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی زبان لازم و ملزوم ہے چاہے وہ ایم بی بی ایس ہو یا پھر انجینئرنگ یا دیگر پیشہ وارانہ علوم۔ ہندی زبان میں میڈیکل تعلیم کے آغاز سے ہندوستان میں اس کا دائرہ وسیع تر تو ہو گا ہی ساتھ ہی مقابلہ سخت ہونے کا امکان بھی ہے۔ غور طلب ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت مادری زبان اور علاقائی زبان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ پر زور دیا گیا ہے۔ جس کے تحت مدھیہ پردیش کے 97 ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے چار ماہ میں میڈیکل کے سال اول کی تین کتابوں اناٹومی، فزیولوجی اور بایو کیمسٹری کی کتابوں کا ہندی میں ترجمہ کیا ہے، جن کا 16 اکتوبر کو وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک تقریب کے دوران اجرا کیا تھا۔ دینک جاگرن نے شیو راج حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے 17 اکتوبر کے اداریہ میں لکھا کہ ’’مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت سے کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کئی ممالک نے یہ ثابت کیا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم دے کر ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مادری زبان میں تعلیم اس لیے ضروری ہے کیونکہ ایک تو طالب علم کو انگریزی میں مہارت پیدا کرنے لیے مزید محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی دوسرا طالب علم میں نصابی مواد کو حاصل کرنے میں دوسری زبانوں کے مقابلہ میں زیادہ صلاحیت ہوتی ہے اور وہ آسانی سے اپنی مادری زبان میں چیزوں کو بغیر کسی دشواری کے سمجھ سکتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ جو پہل مدھیہ پردیش حکومت نے کی ہے اس کی تقلید دوسری ریاستیں بھی کریں۔ مزید بہتر ہو گا اگر مادری زبان میں اعلی تعلیم کے معیار کو بلند رکھنے کے لیے کوششیں کی جائیں‘‘
ہندی روزنامہ امراجالا نے بھی مدھیہ پردیش حکومت کی اس کوشش کو سراہتے ہوئے اپنے 17؍ اکتوبر کے اداریہ میں لکھا کہ ’’مدھیہ پردیش میں ہندی میڈیم میں میڈیکل کی تعلیم کی پہل ایسا قدم بے جس کی سراہنا کی جانی چاہیے۔ ابھی تک ملک کے کسی بھی میڈیکل کالج میں ہندی زبان میں میڈیکل کی تعلیم کا بندو بست نہیں تھا‘‘ اخبار نے مزید لکھا کہ ’’ہندی میں میڈیکل کی تعلیم کی ابتدا قابل ذکر قدم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابی کو یقینی بنانا بھی بے حد ضروری ہے جس کے لیے مسلسل کوششوں اور توجہ کی ضرورت ہے‘‘
کئی ماہ سے جاری رسہ کشی کے بعد بالآخر کانگریس کے نئے صدر کے انتخاب کی گتھی پوری طرح سے سلجھ گئی ہے اور کانگریس کے صدارتی انتخاب میں ملکارجن کھرگے نے کامیابی حاصل کرکے پارٹی کمان سنبھال لی ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ وہ دم توڑتی کانگریس کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں اور کارکنون کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں۔ اگرچہ کانگریس نے اپنا نیا صدر انتخاب کے ذریعہ منتخب کیا ہے لیکن ان کو بھی گاندھی خاندان سے قربت کے الزام کا سامنا ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ وہ کانگریس کے مستقبل کے لیے خود فیصلہ لیتے ہیں یا گاندھی خاندان کی ایماء پر۔ اخبار دی ہندو نے اپنے 21 اکتوبر کے شمارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’گاندھی خاندان کے تین افراد کانگریس میں فیصلہ کن قوت بنے رہیں گے اور مسٹر کھرگے کا انتخاب اپنے آپ میں اس کا تازہ ترین ثبوت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو اوپر لانے کا اصل منصوبہ عملی جامہ نہ پہن سکا اور منہ کے بل گر گیا۔ کانگریس اس حقیقت پر فخر کر سکتی ہے کہ اس نے پارٹی کے اندر داخلی جمہوریت کے معیار کو بلند کیا ہے لیکن پارٹی کے مختلف کارکنوں کی طرف سے مسٹر کھرگے کے حق میں لہر کو جھکانے کی کوششیں واضح تھیں۔ جبکہ مسٹر کھرگے کی بنیادی حیثیت گاندھی خاندان سے ان کے تعلقات سے ملتی ہے۔ ششی تھرور کی عملی امیدواری نے انتخابی عمل کو عزت بخشی ہے۔ تاہم تھرور اور ان کے حامیوں نے بھی انتخابی عمل کے دوران گاندھی خاندان سے اپنی وفاداری کا اعادہ کیا۔ گاندھی خاندان، مسٹر کھرگے اور پارٹی کو وہ جان بچانے والی طاقت تلاش کرنی چاہیے جس کی انہیں 1000 سے زیادہ ووٹوں میں اشد ضرورت ہے جو مسٹر تھرور کو ملے تھے۔ کانگریس کو کئی قابل لیڈروں کی ضرورت ہے جن کی تنظیمی جڑیں مسٹر کھرگے کی طرح گہری ہیں اور تجربہ وسیع ہے اور جن کی تھرور کی طرح وسیع اپیل ہے اور جو خواہش اور تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فاتح کھرگے کی صلاحیت کا پہلا امتحان یہ ہو گا کہ وہ اپنے شکست خوردہ حریف (تھرور) کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں ۔ اختلاف اور بحث کی گنجائش ختم نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
اس موضوع پر اپنے اداریہ میں دی انڈین ایکسپریس نے 20؍ اکتوبر کے شمارہ میں لکھا کہ ’’کانگریس کے سلسلہ وار انتخابی نتائج اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اس سے کم میں کچھ نہیں ہو گا، خاص طور پر جس وقت پارٹی کو مشکل حالات کا سامنا ہو۔ ایک پارٹی کے غالب نظام کے مرکز کے طور پر کانگریس کی پوزیشن ایک ایسی پارٹی نے حاصل کی ہے جس نے پے در پے فتوحات کو اپنی مرضی سے ختم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ مرکز اور ریاستوں میں کانگریس کو دو چہروں والے چیلنجز کا سامنا ہے، کچھ میدانوں میں بی جے پی کی زیادہ منظم اور نظریاتی طور پر چلنے والی قوت نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دوسروں میں کہیں زیادہ چست علاقائی تنظیموں کے ذریعے بیک فٹ پر دھکیل دیا گیا ہے۔ اس ماحول میں اگر اسے دوبارہ جیتنے کے قابل بننا ہے تو اسے ہندوتوا کے بعد کی سیاست میں اقلیتوں کی جگہ اکیسویں صدی میں قوم پرستی کی شکل اور مواد سے لے کر کلیدی مسائل پر اپنے موقف کی نئے سرے سے وضاحت اور تعین کو اپ ڈیٹ کرنا ہو گا۔ اس کے لیے اسے نچلی سطح پر پارٹی کی ان اکائیوں کو بحال کرنے کی ضرورت ہو گی جو یکے بعد دیگرے اعلیٰ کمانوں کے ہاتھوں مرجھانے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں اور جو خود کو غیر منتخب مشیروں کی فضائی تنگی میں گھرا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ شکست کی صورت میں پارٹی کو اپوزیشن کی دوسری پارٹیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہو گی جو حکمراں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022