خاندانی نظام کی تعمیر میں قرآن کا کردار

گھروں میں قرآن کا ماحول بنائیں، روزانہ تلاوت، ترجمہ و تفسیر پڑھنے کا معمول بنائیں

خان مبشرہ فردوس

اللہ انسان کا خالق ہے اس لیے انسان کی فطرت کو اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔اللہ رب العالمین نے انسانی فطرت کے پیش نظر نے دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے جو ہدایت نامہ انسانوں کے لیے بھیجا ہے وہ قرآن مجید ہے۔ قران مجید کا مخاطب انسان ہے۔ انسان کو قرآن کی عظمت سمجھانے کے لیے اللہ رب العالمین نے حضرت محمد ﷺ کو عملاً رہنمائی کا نمونہ بنانا کر بھیجا ہے۔ اللہ نے قرآن کو اپنے نبی پر انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا۔
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (الروم : 30)
(پس اے نبیؐاور نبیؐ کے پیرؤو! تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں)
اس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کر رہا ہے۔ عبادت اور اطاعت کا مستحق اللہ وحدہ لا شریک کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ اس کی الوہیت اور اس کی صفات و اختیارات اور اس کے حقوق میں قطعاً کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جس میں انسان اپنی رضا ورغبت سے اس بات کی پابندی کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اور اس کے قانون کی پیروی میں بسر کرے گا۔ جہاں قرآن نے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی تربیت اپنے ذریعہ کی ہے، وہیں عائلی نظام سے متعلق اسلامی احکام بھی پیش کیے ہیں۔
اللہ چاہتا ہے کہ انسان خود کو سب سے زیادہ محفوظ اپنے خاندان اور افراد خاندان کے درمیان محسوس کرے۔ اس لیے خاندان کے ہر فرد میں احساس ذمہ داری ہونا چاہیے۔ عائلی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے قرآن نے نکاح، طلاق، حیض و نفاس، پاکی و صفائی، احکام حضن و قانونِ متبنیٰ، احکام نسب، نان و نفقہ نیز قانونِ وراثت، قانون حرمت، رضاعت، قانون تعدد ازدواج، حقوق الزوجین ،پردہ، والدین و اولاد کے حقوق اور عائلی زندگی میں دیگر ضوابط اصلاح جیسے قوانین وضع کیے ہیں۔
خاندان کو مستحکم کرنے کے لیے قرآن کے ان احکام سے بہتر دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ قرآن صرف مسلمانوں سے مخاطب نہیں ہے بلکہ جگہ جگہ ’’یاایھاالناس‘‘ کہہ کر انسان کو مخاطب کیا گیا ہے۔
قانون نکاح
قانون نکاح کی حکمتیں جوں جوں انسان پر کھلتی ہیں، اللہ رب العالمین سے محبت سوا ہونے لگتی ہے اور ان کی حقانیت پر انسان دل سے قائل ہوتا جاتا ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 3 میں اللہ نے ارشاد فرمایا :
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
(اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین ِصواب ہے)
شرع میں نکاح ایسے عقد کو کہتے ہیں جو قصداً ملکِ متعہ یعنی نفع اٹھانے پر وارد ہوتا ہے۔
امام ابو منصور الازہری نے بھی نکاح کے شرعی معنی بتائے ہیں کہ’’ کلام عرب میں نکاح کا مطلب ’وطی‘ یعنی عملِ اِزدواج ہے۔ تزویج یعنی شادی کرنے کو بھی نکاح اِسی لیے کہتے ہیں کہ وہ عملِ ازدواج کا سبب ہے۔‘‘
گویا اسلام میں نکاح عورت اور مرد میں ایک پختہ شریفانہ عمرانی معاہدہ ہے جس کے ذریعہ مرد و عورت کے درمیان جنسی تعلق جائز اور اولاد کا نسب صحیح ہو جاتا ہے۔ اللہ نے عورت کو مہر کا حق دیا، بیویوں کے ساتھ نرمی برتنے کا حکم دیا، مرد پر عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری عائد کی، مرد کو قوام کی حیثیت سے زیادہ ذمہ دار بنایا اور عورت پر بچوں کی پیدائش ان کی دیکھ بھال اور مال و متاع اور عزت کی حفاظت کی ذمہ داری عائد کی ہے۔
قرآن کا قانونِ طلاق و خلع
میاں بیوی کے درمیان اگر تفرقہ ہو جائے اور حل کی صورت نہ نکلے تو اللہ نے قانون طلاق مرد کے لیے اور قانون خلع عورت کے لیے رکھا ہے۔ طلاق و خلع کا قانون بھی ناگزیر حالات میں ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔ اللہ انسان کی فطرت سے خوب واقف ہے۔
نا پسندیدہ شخص کے ساتھ زندگی گزارنا انتہائی تکلیف دہ ہے اس لیے اللہ نے انسان کی فطرت کا خیال رکھتے ہوئے دونوں کو علحیدگی اختیار کرنے کا حق دیا ہے۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کی اصل روح کو سمجھے بغیر اسے ایک ڈومینشین ٹول اور بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کرکے اس قانون کی شکل ہی بدل دی ہے۔ جو انسانی تکریم اور امان کا قانون تھا، غلط استعمال نے اسے معیوب بنا دیا۔ قرآن سے رجوع کرنے پر انسان اس قانون کے احکام کو سمجھنے کے قابل بنتا ہے ۔
یہاں تفصیل مقصود نہیں، مثال پیش کرنا مقصود ہے۔
قرآن نے خاندنی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے مہر کو رکھا، محرم رشتوں کی فہرست بتائی ہے، اس کے باوجود قرآن پر عمل نہ کرنے کے سبب نامحرم رشتوں کے حدود کی پامالی ہم معاشرے میں ہر جگہ پاتے ہیں۔
پردہ بھی اگر قران کا حکم جان کر کیا جائے تو عملاً اس کی حکمت کو سمجھنے میں آسانی رہتی ہے۔ قرآن دراصل بصیرت ہے، بصارت ہے، انسان کے لیے اس کے احکام عمل کرنے اور عملی زندگی میں بروئے کار لانے ہی کے لیے قرآن ہے۔ موجودہ معاشرے میں ہم اپنی عائلی زندگی قرآن کے مطابق گزاریں تو زندگی نہ صرف یہ کہ آسان بنے گی بلکہ دیگر مذاہب کے پیرؤوں کے لیے پر کشش بھی بنے گی۔
عملاً نفاذ کی کوشش: انفرادی سطح پر گھروں میں قرآن کا ماحول بنایا جائے۔روزانہ تلاوت کے ساتھ ترجمہ و تفسیر کو پڑھنے کا معمول بنائیں۔ بچوں سے گفتگو قرآن کی زبان میں کی جائے۔ مثلا وہ تجسس کریں تو والدین کے زبان سے نکلے ’’ولاتجسسوا‘‘ جب وہ لڑنے لگیں تو زبان کہے، قرآن کا حکم ہے ’’انصاف سے کام لو‘‘ کسی کی غیبت کرتے دیکھیں تو زبان سے برملا نکلے ’’ولایغتب بعضکم بعضاً‘‘ اس طرح نسلوں کو احساس ہو گا کہ یہ صرف برکت کے لیے تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ عملی زندگی کے احکام سے متعلق ہے۔
آپ کبھی غور کریں! دیگر اقوام نے اپنی پالیسی یا اپنی فکر کو پھیلانے کے لیے اسی طرح الفاظ کو زبانِ زدعام و خاص کیا ہے ۔مثلاً آپ نے دفاتر یا تعلیمی اداروں میں، بورڈ لگا دیکھا ہو گا:
"Honesty is the best policy.”
جبکہ پالیسی تو وقت کے ساتھ انسان بدل لیتا ہے، ہمارے نزدیک یہ پالیسی نہیں۔ ایمان داری، ایمان کا اٹوٹ حصہ اور پارٹ ہے ۔
اسی طرح ہمیں بھی قرآنی افکار و نظریات زمانے کو دینے کے لیے ترویج کے مختلف طریقوں پر کام کرنا چاہیے تاکہ ہم قرآن کے آفاقی نظام کو پوری دنیا کے سامنے ایک مفید اور قابل عمل نظام کے طور پر پیش کر سکیں۔
***

 

***

 گھروں میں قرآن کا ماحول بنایا جائے۔روزانہ تلاوت کے ساتھ ترجمہ و تفسیر کو پڑھنے کا معمول بنائیں۔ بچوں سے گفتگو قرآن کی زبان میں کی جائے۔ مثلا وہ تجسس کریں تو والدین کے زبان سے نکلے ’’ولاتجسسوا‘‘ جب وہ لڑنے لگیں تو زبان کہے، قرآن کا حکم ہے ’’انصاف سے کام لو‘‘ کسی کی غیبت کرتے دیکھیں تو زبان سے برملا نکلے ’’ولایغتب بعضکم بعضاً‘‘ اس طرح نسلوں کو احساس ہو گا کہ یہ صرف برکت کے لیے تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ عملی زندگی کے احکام سے متعلق ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022