پیگاسس کیس: سپریم کورٹ نے ماہرین کی کمیٹی کو غیر قانونی جاسوسی کے الزامات پر حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید وقت دیا

نئی دہلی، مئی 20: بار اینڈ بنچ نے رپورٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے جمعہ کو پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرتے غیر قانونی جاسوسی کے الزامات کی جانچ کرنے والی ایک ماہر کمیٹی کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید وقت دیا۔

چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے کمیٹی سے کہا کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعہ مبینہ طور پر نشانہ بنائے گئے 29 موبائل فونز کی جانچ ترجیحاً چار ہفتوں کے اندر مکمل کرے اور اس معاملے کی نگرانی کرنے والے جج کو رپورٹ بھیجے۔ عدالت نے پینل سے کہا کہ موبائل فون کی جانچ کے عمل کو تیز کیا جائے۔

کیس کی اگلی سماعت جولائی میں ہوگی۔

فروری میں عدالت کے مقرر کردہ پینل نے ایک عبوری رپورٹ پیش کی تھی۔ جمعہ کی سماعت میں کچھ عرضی گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے مطالبہ کیا کہ کمیٹی کی رپورٹ کو عام کیا جائے۔ تاہم سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے اس مطالبے کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ رپورٹ عبوری ہے۔

یہ کمیٹی ستمبر میں ان الزامات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی تھی کہ پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال صحافیوں، سیاست دانوں، کاروباری شخصیات اور کئی دیگر افراد کی جاسوسی کے لیے کیا گیا تھا۔

نگرانی کے الزامات ایک لیک ہونے والی فہرست سے متعلق ہیں، جس میں 50,000 سے زیادہ فون نمبر شامل ہیں، جن تک پیرس میں مقیم میڈیا غیر منافع بخش فاربیڈن اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رسائی حاصل کی تھی۔ پیگاسس پروجیکٹ کے حصے کے طور پر تنظیموں نے اس فہرست کو 17 نیوز آؤٹ لیٹس کے ساتھ شیئر کیا تھا۔

گذشتہ ماہ عدالت کی جانب سے مقرر کردہ کمیٹی نے تمام ریاستوں کے پولیس ڈائریکٹر جنرلز کو ہدایت کی تھی کہ وہ یہ بتائیں کہ آیا انھوں نے اسرائیل کے اس اسپائی ویئر تک رسائی حاصل کی ہے۔

اسرائیل کی سائبر انٹیلی جنس کمپنی این ایس او گروپ کی طرف سے دنیا بھر کی حکومتوں کو اسپائی ویئر کا لائسنس دیا گیا ہے۔ کمپنی کا اصرار ہے کہ وہ اپنے سافٹ ویئر کو صرف انسانی حقوق کے اچھے ریکارڈ کے ساتھ ’’تحقیق شدہ حکومتوں‘‘ کو لائسنس دیتی ہے اور پیگاسس کا مقصد مجرموں کو نشانہ بنانا ہے۔

دی وائر کے مطابق اس اسپائی ویئر کے ذریعے نشانہ بنائے گئے ممکنہ لوگوں کی فہرست میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی، ہندوستان کے سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا، مرکزی وزرا اشونی ویشنو اور پرہلاد سنگھ پٹیل، صنعت کار انل امبانی اور سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما شامل ہیں۔

ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے مرکزی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر نے 19 جولائی کو پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ہندوستان میں غیر قانونی جاسوسی ممکن نہیں ہے۔

بعد میں اگست میں وزارت دفاع نے راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ اس کا ’’این ایس او گروپ ٹیکنالوجیز کے ساتھ کوئی لین دین نہیں ہے۔‘‘

سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا، صحافی این رام، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، ایشین کالج آف جرنلزم کے چیئرپرسن سشی کمار، راجیہ سبھا کے رکن جان برٹاس اور وکیل ایم ایل شرما نے سپریم کورٹ میں عرضیاں دائر کی ہیں، جن میں پیگاسس تنازعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

5 اگست کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ جاسوسی کے الزامات اگر درست ہیں، تو نوعیت کے لحاظ سے سنگین ہیں۔