دہلی کی عدالت کا کہنا ہے کہ صرف معاشرے میں غم و غصہ آزادی اظہار کو دبانے کا جواز نہیں بن سکتا

نئی دہلی، نومبر 12: ہفتہ کو لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق دہلی کی ایک عدالت نے مشاہدہ کیا ہے کہ صرف معاشرے میں غم و غصہ آزادی اظہار کو دبانے کا جواز نہیں بن سکتا۔

عدالت نے یہ مشاہدہ کیرالہ کے ایم ایل اے کے ٹی جلیل کے سوشل میڈیا پر جموں و کشمیر کے بارے میں ان کے ریمارکس کے لیے بغاوت کا مقدمہ چلانے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کیا۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق، اگست میں ایک فیس بک پوسٹ میں جلیل نے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو ’’آزاد کشمیر‘‘ اور جموں و کشمیر کو ’’بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر‘‘ کہا تھا۔

عدالت نے کہا ’’یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اظہار رائے کی آزادی ایسے اقدامات کی بھی حفاظت کرتی ہے جو معاشرے کو بہت ناگوار لگ سکتے ہیں۔‘‘

جلیل کے خلاف شکایت ایڈوکیٹ جی ایس منی نے دائر کی تھی، جس نے الزام لگایا تھا کہ ایم ایل اے نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں ’’ملک مخالف تبصرے‘‘ کیے ہیں۔

سماعت میں عدالت نے مانی کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ جموں و کشمیر کے بارے میں جلیل کی پوسٹ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی پیدا کر سکتی ہے۔

جسٹس جسپال نے کہا ’’جمہوری ہندوستانی پس منظر میں سماجی سیٹ اپ، سیکولر دھاگے اور بھائی چارے کو اتنا کمزور نہیں سمجھا جا سکتا کہ یہ خود غرض سیاست دانوں کے بے ترتیب بیانات سے ٹوٹ جائے۔ اور میں قومی یکجہتی کے بارے میں بھی فخر سے یہی کہہ سکتا ہوں۔‘‘

جج نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ پوسٹ جلد بازی میں لکھی گئی ہے جس کا مقصد غیر مناسب سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔