ون نیشن ون الیکشن راگ کی تلخ حقیقت

ملک بھر میں ایک انتخاب ،وفاقی نظام کا خاتمہ اور دستور کی اصل روح کے خلاف ہے

زعیم الدین احمد حیدرآباد

2029 تک ون الیکشن کی مانگ ملک کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کرسکتی ہے
پھر ایک بار میڈیا حلقوں میں یہ بات گردش کرنے لگی ہے کہ ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات ہونے چاہئیں، 2019 میں یہ بات بڑی زورو شور سے پیش کی جارہی تھی کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات اور ریاستوں کے انتخابات ایک ساتھ ہی ہوں گے اور یہ بات کہی جا رہی تھی کہ 2024 میں ہونے والے انتخابات اسی طرح ملے جلے ہوں گے۔ لیکن یہ ممکن ہو نہ سکا اور پھر سے یہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ ملے جلے انتخابات 2029 میں منعقد کیے جائیں گے اور اس کے لیے لا کمیشن نے ہری جھنڈی بھی دکھا دی ہے۔ لیکن کیا واقعی بات ایسی ہی ہے کہ لا کمیشن نے ملے جلے انتخابات کی سفارش کو قبول کرلیا ہے؟ اور کیا ساری ریاستوں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا ہے؟ آئیے ہم اس بات کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابھی یہ میڈیا کی پیدا کردہ قیاس آرائیاں ہی ہیں، لا کمیشن نے حکومت کو سفارش پیش کردی ہے کہ ملک میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور عام انتخابات ملے جلے ہونے چاہئیں، عام انتخابات سے یہ سفارش لیک ہو گئی، چونکہ باتوں کا افشاں ہونا انتخابی چالوں کا ایک حصہ ہوتا ہے، یہ بات کمیشن نے باقاعدہ طور پر کبھی نہیں کہی ہے، لیکن میڈیا میں اس کی قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات سے قبل ہی لا کمیشن ’جملی‘ انتخابات سفارشات حکومت کو پیش کرنے والی ہے، بہر حال یہ تو ابھی قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ لیکن بی جے پی اس طرح کے انتخابات کرنے میں بہت زیادہ دل چسپی دکھا رہی ہے، اس نے سابق صدر رام ناتھ کووند کی صدرات میں ایک کمیٹی بھی بٹھا رکھی ہے۔
اب ایک سوال کا اٹھنا لازمی ہے کہ آخر بی جے پی کیوں ’ون نیشن ون الیکشن‘ کی بات کو بار بار اٹھاتی رہتی ہے، کیوں وہ یہ راگ بار بار الاپ رہی ہے؟ اس بات پر گفتگو سے پہلے ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ’جملی‘ انتخابات دستور کے مطابق ہیں؟ یہ بڑا اہم اور بنیادی سوال ہے۔
دستور کے معماروں نے دانستہ طور پر وفاقی اور صوبائی یعنی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی الگ الگ حیثیت، الگ الگ شناخت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہی الگ الگ انتخابات کرائے جانے کا فیصلہ کیا تھا، کیوں کہ ہمارا ملک ایک وفاقی ملک ہے یعنی یونین آف اسٹیٹ ہے، اس کی کئی ریاستیں ہیں اور ان کی الگ الگ شناخت ہے، ان کی جداگانہ حیثیت کے پیش نظر ہی الگ الگ انتخابات ہوتے ہیں۔ لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات ہی اکھنڈ بھارت کے تصور کو پیش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اکھنڈ کے معنی متحدہ نہیں بلکہ صرف ایک ہی ملک کے ہیں جس میں ریاستوں کی کوئی حیثیت نہیں، جو کچھ ہے وہ مرکزی حکومت ہی ہے، سارے اختیارات مرکزی حکومت ہی کے ہوتے ہیں، صوبوں کو اختیارات نہیں ہوتے، دین دیال اپادھیائے جو بی جے پی کے نظریاتی باپ ہیں ان کی تقاریر کو دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ ریاستی حکومتوں کے قائل ہی نہیں تھے، بی جے پی اپنے نظریاتی گرو کے نقش قدم پر چلنا چاہتی ہے اور مضبوط ریاستیں نہیں چاہتی، حقیقت یہ ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نظریاتی طور پربی جے پی ریاستی حکومتیں چاہتی ہی نہیں وہ صرف مرکزی حکومت ہی کی قائل ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ "جملی” انتخابات ’ون نیشن ون الیکشن‘ کی بات کرتی ہے، وہ یہ شوشہ اسی لیے چھوڑتی ہے تاکہ ریاستی حکومتیں باقی نہ رہیں، بس ایک ہی حکومت رہے۔ اس نعرے سے بی جے پی نے دانستہ اور نادانستہ طور پر بھارت کی وفاقی روح کو پوری طرح سے مجروح کردیا ہے، بلکہ مکمل طور پر تباہ کردیا ہے، وہ چاہتی ہے کہ ساری طاقت ایک جگہ مرکوز ہو جائے، تاکہ اس کے ہندتو نظریات کی عمل آوری میں کوئی مشکل نہ پیش آئے، یعنی بھارت میں برہمنی نظام اور منو سمرتی نظام جیسے متعصبانہ نظام قائم ہوجائیں۔ یہ بی جے پی کا دیرینہ خواب ہےاور اسی کی کوششوں میں وہ لگی ہوئی ہے اور یہ ون نیشن ون الیکشن بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے معمارانِ دستور نے طاقت کے یکجا ہونے کے خوف سے ہی ریاستوں کی الگ شناخت کو برقرار رکھا، ان کا ماننا تھا کہ طاقت کا ایک جگہ مرکوز ہونا ملک کے مفادات میں نہیں ہے، اسی لیے ریاستوں کو اختیارات دیے گیے، یہی وجہ ہے کہ کچھ کام ریاستوں کے کرنے کے ہیں اور کچھ مرکزی حکومت کے ذمہ اور کچھ دونوں کو ساتھ مل کر کرنے کے ہیں، لیکن سابق میں دیکھا گیا ہے کہ مودی حکومت نے کئی فیصلے ایسے کیے ہیں جس سے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے، جی ایس ٹی کے لاگو کرنے، ٹیکس وصولی کے نظام میں چھیڑ چھاڑ، تعلیمی پالیسی میں تبدیلی، معدنیات کی نکاسی کے معاملے میں مداخلت یہ سارے ریاستی کاموں کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی، لازمی بات ہے کہ اس طرح اگر ریاستوں کے حقوق پر قدغن لگائیں گے تو
وفاقی ڈھانچے کو نقصان ہی ہوگا۔ دستور کے معماروں نے اسی خدشہ کو بھانپتے ہوئے طاقت کوایک جگہ مرکوز ہونے نہیں دیا، ان کا بنیادی اصول ہی طاقت کی تقسیم تھا، یعنی ڈسٹریبیوشن آف پاور تاکہ ملک کا وفاقی ڈھانچہ مضبوط رہے۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار یہ چاہتا ہے کہ وہ ساری قوت اپنے پاس مرکوز رکھے، بڑی چالاکی سے وہ ایک ملک ایک انتخاب کا نعرہ بلند کرتے ہیں، تاکہ وہ اس نعرے کے ذریعہ آسانی کے ساتھ ریاستوں کے انتخابات بھی جیت سکیں۔ بی جے پی کی مشکل یہ ہے کہ زیادہ تر ریاستوں میں وہ تنہا مقابلہ کرنے پر ہار رہی ہے، خاص طور پر جنوبی اور جنوب مشرقی ریاستوں میں اس کی دال نہیں گل رہی ہے، وہیں بنگال، اڑیسہ، جھارکھنڈ اور دیگر ریاستیں بھی ہیں جہاں وہ حکومت بنا نہیں پا رہی ہے لیکن پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کر رہی ہے، اسی بات کے پیش نظر وہ یہ سوچتی ہے کہ اگر دونوں انتخابات یعنی ریاست کے اور عام انتخابات ایک ساتھ ہوں جائیں تو شائد دونوں جگہوں پر اسے کامیابی مل جائے، کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ الگ موضوع ہے لیکن اس کی خواہش اور ارادہ تو یہی ہے کہ اس کے ذریعہ کامیاب ہوجائے، اسی وجہ سے وہ بار بار جملی انتخابات کا راگ الاپتی رہتی ہے۔ اس کا ارادہ یہ بھی ہے کہ ساری ریاستی پارٹیاں ختم ہو جائیں، بس یہی ایک باقی رہے، اس کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ ریاستی پارٹیاں باقی نہ رہیں، جہاں اسے موقع ملا وہاں اس نے ریاستی پارٹیوں کو نگل لیا ہے، ان سب کے باوجود بھی بعض مفاد پرست ریاستی پارٹیاں اسی کا ساتھ دے رہی ہیں۔
بی جے پی کا ارادہ 2029 میں ملک کے سارے انتخابات ایک ساتھ کرانے کا ہے۔ فرض کریں کہ اگر سارے انتخابات ایک ساتھ ہو جاتے ہیں، اس کے بعد یعنی 2030 میں اگر کسی ریاست میں ہماچل پردیش جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے یا مہاراشٹر جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے تب کیا کرو گے؟ کیا پھر سے سارے ملک میں انتخابات کرواؤگے گے یا پھر ریاست میں چار سال تک کے لیے صدر راج نافذ کرو گے؟ ان کے پاس ان سوالات کے جوابات ہی نہیں ہیں۔ یہ غیر منطقی بحث ہے کہ سارے ملک میں ایک ساتھ اسمبلی و پارلیمانی انتخابات منعقد ہوں، یہ مطالبہ ہی غیر معقول ہے۔ ایک ہی وقت میں انتخابات کے مطالبے کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ اس سے خرچ کم ہوگا۔ سارے انتخابات میں خرچ کتنا ہوتا ہے ؟ دس ہزار کروڑ روپے کا، اگر یہ خرچ تمام رائے دہندوں میں تقسیم کردیا جائے تو ہر سال 20 روپے فی کس آتا ہے، یعنی جمہوریت کی بقاء کے لیے ہم ہر سال 20 روپے خرچ کرتے ہیں، دس ہزار کروڑ تو سیاست دانوں کی جانب سے کیے جانے والے گھوٹالوں سے کہیں کم ہیں، ان کے گھوٹالے تو لاکھوں کروڑوں کے ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ریاستی و مرکزی انتخابات ایک ساتھ منعقد کرنا جمہوری نظام کو کمزور کرنا ہے، وفاقی نظام کو ختم کرنا ہے اور دستور کی اصل روح کے خلاف بھی ہے، اس طرح کی مانگ ملک کی سالمیت کے لیے بڑا خطرہ پیدا کر سکتی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024