خبرونظر

پرواز رحمانی

اسرائیل نوازی کی تیاری
اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت جلد ہی اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے والی ہے۔ اڑتی اڑتی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں خصوصاً جب ولی عہد بن سلمان نے اسرائیلی ریاست سے غیر محسوس مراسم پیدا کیے ہیں اور سعودی عرب میں لبرلزم قائم ہوا ہے، یعنی عورتوں کی غیر ضروری آزادی اور ممبئی کے مسلم اداکاروں اور دنیا کے دیگر فنکاروں سے اسٹیجوں کو سجایا گیا ہے۔ یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ اسرائیل کے قریب سعودی عرب میں اب تک کے دنیا کے مجوزہ جدید ترین شہر کے منصوبے کی پوری دنیا میں دھوم ہے ۔ اسرائیل کو سعودی عرب کے تسلیم کیے جانے کی بات اس بار امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے آئی ہے۔ 29؍ فروری کو بائیڈن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ فلسطین میں کشمکش جلد ہی ختم ہونے والی ہے اور سعودی عرب کی حکومت اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیا رہے۔ اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ ماہ رمضان کے دوران حماس پر حملے نہ کرے۔ ماہ رمضان میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ اردن اور مصر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اس کے بعد کچھ اور عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کے ساتھ حماس کی جنگ میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن نے حماس کی کوئی مدد نہیں کی۔ حماس، فلسطین کی اسلام پسند تنظیم ہے جس کی وجہ سے اسلام بے زار عرب ممالک اس سے نالاں رہتے ہیں۔ مسلم دنیا میں جن ممالک نے حماس کی سرگرم حمایت اور امداد کی ہے ان میں ترکی، ایران، قطر اور ملائشیا شامل ہیں، دیگر مسلم ملکوں نے صرف اخلاقی حمایت کی اس لیے کہ اس سے زیادہ وہ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ باقی دنیا کے عام مسلمان ہمیشہ فلسطین اور حماس کے ساتھ رہے اور دعائیں کرتے رہے۔ شرق اوسط کا قصہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے وہاں جو بھی واقعہ ہوتا ہے صرف مسلمان دور دور سے ہی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

تاریخ یہی ہے
بلکہ پورے خطہ عرب کی کہانی یہی ہے۔ حکم رانوں کی سوچ اور ان کے طرز عمل میں واضح تفاوت ہے۔ کسی بھی اہم واقعہ پر حکم رانوں کا طرز عمل وہی ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے جبکہ دنیا کے عام مسلمانوں کی سوچ اور طرز عمل ان کے برعکس ہوتی ہے۔ عرب حکم راں دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک قسم ہے بادشاہوں کی ۔ وہ صرف اپنی مملکت اور اس کی حفاظت کی فکر میں رہتے ہیں۔ انہیں صرف اپنے بچاو کی پڑی ہوتی ہے خواہ اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ دوسری قسم ہے فوجی حکم رانوں کی۔ عرب میں حکم رانوں کی یہی دو قسمیں ہیں۔ عالمی مسلم مسائل میں ان کی سوچ قدرے مختلف ہوتی ہے۔ وہ عام مسلم آبادیوں کے جذبات کی قدر بھی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے عرب حکم رانوں میں صرف قطر کے حاکم مختلف ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد میں عرب حکم رانوں میں سے بہت کم حکم رانوں نے ساتھ دیا۔ خواہ وہ یاسر عرفات کی قیادت رہی ہو یا اخوان المسلمون اور حماس کی۔ اخوان المسلمون اور حماس سے ان حاکموں کو ہمیشہ سے بیر رہا ہے۔ اخوان اور حماس کی حمایت کوئی اور حکومت نہیں کرتی الا یہ کہ قدرے قطر۔ 2012 میں مصر میں اخوان کی حکومت سے عرب حکم راں بیزار رہے اور اب فلسطین میں حماس سے بے زار ہیں۔ حماس اور حماس کے تائیدی مظلمومین سے انہیں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ فلسطین میں یاسر عرفات اور ان کی تنظیم الفتح کے ساتھ عربوں کی حمایت اس حد تک رہی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ فلسطین ہی میں مصروف رہیں۔ عرب میں توسیع کی کوشش نہ کریں۔ بہار عرب کے دوران بھی سب سے زیادہ پریشان ان حکم رانوں کا یہی طبقہ تھا۔ مصر میں تو ان لوگوں کو باقاعدہ کچلا گیا ان کے کیمپوں میں آگ لگائی گئی۔ اس انقلاب کے حامیوں پر کئی ملکوں میں مظالم ڈھائے گئے۔ ہر حکم راں یہ سوچ کر چوکنا تھا کہ اگر یہ تحریک ان کے ملک میں پھیل گئی تو ان کا کیا ہوگا۔

بدلی ہوئی مملکت میں
سعودی عرب کے ولی عہد نے، جو کہ بالفعل حاکم ہیں مملکت میں جب اپنی اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا تو اس دوران ایک بہت ہی اہم بلکہ غیر معمولی بیان جاری کیا جس سے ان کے عزائم اور ارادوں کا اندازہ ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا ہم سعودی عرب کو بدل دیں گے سابق حکم رانوں نے اسلام کو اس کے اصل رنگ میں پیش نہیں کیا ان سے بہت سی کوتاہیاں ہوئیں ہم دین اسلام کو حقیقی رنگ میں پیش کریں گے۔ بیان کے اس حصے کا مفہوم یہی تھا الفاظ خواہ کچھ اور رہے ہوں۔ اس کے بعد سے اسلام سعودی مملکت میں بدلے ہوئے رنگ میں جاری ہے۔ مملکت میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ اب اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ دو ڈھائی سال قبل سعودی عرب کے ایک عالم دین نے ایک تحقیقی مضمون لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ نورالدین زندگی کا یہ خواب دیکھنے کی بات اسے حضورؐ نے خواب میں بتایا تھا کہ مجھے موجودہ قبر میں بہت پریشانی ہے مجھے کسی اور جگہ منتقل کردے اس کے بعد وہ دویہودی پکڑے گئے جو مدینہ کے ایک مکان میں رہائش پذیر تھے اور اس مکان سے حضورؐ کے روضے تک سرنگ کھودنے کی کوشش کر رہے تھے، غلط ہے ایسا کوئی واقعہ تاریخ میں پیش نہیں آیا۔ واقعہ کے الفاظ کچھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہ بات ایک واقعہ کے طور پر دنیا میں کئی صدیوں سے مشہور ہے۔ لیکن اب سعودی عرب کا مضمون نگار کہتا ہے کہ یہ بات جھوٹ ہے۔ اس سے پہلے بھی تردید نہیں کی گئی۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ آج کے حالات میں اس روایت کی تردید کیوں جاری ہے۔ گزشتہ بادشاہوں میں سے کسی کو کیوں نہیں سوجھی؟ کیا اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا اس تردید سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ خیبر کے قلعے بالکل محفوظ رکھے گئے ہیں ان کے قریب کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ دبئی میں کوئی اسرائیلی کتنا ہی بڑا جرم کرلے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو معمولی غلطی پر پکڑ لیا جاتا ہے۔