بھارت کی متعدد ریاستوں میں اردو انحطاط

مسلم اشرافیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے محض 30فیصد اردو داں آبادی کا بطور مادری زبان اردو سے استفادہ

نور اللہ جاوید، کولکاتا

اترپردیش میں اردو اسکولوں کی تعداد صفر۔ بہار اور بنگال میں بیشتراردو اسکول بحران سے دوچار
اردو کی ترویج و اشاعت میں وانمباڑی، عمرآباد، ویلور اور حیدرآباد دکن کے علاقوں کا قابل قدر حصہ
گوا میں دینی جماعتوں کا ارد و کے احیا میں کلیدی رول
کیادنیا کی کوئی بھی زبان حکومت کی سرپرستی کے بغیر فروغ پاسکتی ہے؟ اگر اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی جوڑ دیا جائے کہ روزگار سے رشتہ جوڑے بغیر کیا کسی زبان نے ترقی حاصل کی ہے؟ بھارت جیسے ملک میں جہاں ایک درجن سے زائد زبانیں بولی اور پڑھی جاتی ہیں اور ان زبانوں کے اپنے اپنے اسکرپٹ ہیں وہاں اگر حکومت کسی ایک زبان کی سرپرستی کرتی ہے اور اس کے فروغ پر توجہ دیتی ہے تو دیگر زبانوں کا کیا ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب ہمارے اسکولوں میں سہ لسانی فارمولا نافذ ہے تو پھر روزگار کا سوال کہاں تک درست ہے؟ اگر پہلے دو سوالوں کے جواب کا تجزیہ کیا جائے تو تمام حقائق ، سروے اپنی جگہ مگر یہ بات اردو کے حوالے سے کہی جاسکتی ہے کہ ’’اردو‘‘ بھارت کی ایک ایسی زبان ہے جس سے حکومتوں نے ہمیشہ بے اعتنائی برتی ہے، اسے غیر ملکی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اردو کا رشتہ روزگار سے کاٹ دیا گیا، لیکن اس کے باوجود اردو زبان کا جادو اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔جنوری کے آخری ہفتے میں سیمینار میں شرکت کی غرض سے بنگلورو میں قیام کے دوران سماجی ، علمی اور دینی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ’’ جنوبی ہند میں اردو کے امکانات اور اردو اسکولوں کی صورت حال‘‘ پر گفتگو کے دوران جو معلومات حاصل ہوئیں وہ چونکا دینے والی تھیں اور ساتھ ہی اردو کے حوالے سے شمالی ہند بالخصوص اتر پردیش، بہار، بنگال اور ہندی ریاستوں میں جو مایوسی کی کیفیت ہے اس سے نکلنے اور حکومت کی سرپرستی کے بغیر اردو کو فروغ دینے کے امکانات کو اجاگر کرتی ہیں۔
اردو اسکولوں کے حوالے سے شمالی ہند کی طرح جنوبی ہند میں بھی تشویش پائی جاتی ہیں تاہم شمالی ہند کے مقابلے میں جنوبی ہند کی ریاستوں بالخصوص کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، تمل ناڈو اور مہاراشٹر میں اردو اسکولوں کا معیار کہیں زیادہ بہتر ہے۔اسکولوں کے معیار کو بہتر کرنے اور سہ لسانی فارمولے کے تحت اسکولوں میں انگریزی پر توجہ دینے کی کوشش بھی جاری ہے ۔تین سال قبل سنٹر فار لرننگ ریسرچ‘(سی ایل آر)کے ڈائریکٹر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر جان کیورین نے اپنے تحقیقاتی مقالے ’’21 ویں صدی میں ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کے لیے ایک نیا ایجنڈا‘‘میں اردو اسکولوں کے معیار اور طلبا کی تعداد سے متعلق جو حقائق بیان کیے ہیں وہ کسی بھی پہلو سے امید افزا نہیں ہیں۔انہوں نے کرناٹک اور مہاراشٹر کے اردو میڈیم اسکولوں کے معیار پر انگلی اٹھائی ہے۔
اردو اسکولوں کے معیار خراب کیوں ہیں؟ اگر اس کا ملک میں جاری ’’تعلیمی نظام‘‘ بالخصوص اسکولنگ کے پرائیوٹائزیشن کے تناظر میں تجزیہ کریں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ملک میں صرف اردو اسکول ہی نہیں بلکہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے ہندی میڈیم اسکول اور دیگر میڈیم کے اسکولوں کی حالت بھی بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔مغربی بنگال میں اردو میڈیم سے کہیں زیادہ بنگلہ میڈیم اسکولوں کو طلبا کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بند کیا جارہا ہے ۔گزشتہ سال اگست میں مغربی بنگال حکومت نے اسکولوں میں طلبا کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے 8,207 پرائمری، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کا بند کرنے کا فیصلہ کیا۔حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں کی یہ تعداد دس فیصد ہے۔حکومت کی دلیل یہ ہے کہ ان اسکولوں میں 30سے بھی کم طلبا ہیں ۔بنگال میں ایک لاکھ سے زائد اساتذہ کی سیٹیں خالی ہیں ۔بند ہونے والے اسکولوں میں 90فیصد اسکول بنگلہ میڈیم ہیں۔ ’’اسکولنگ نظام ‘‘ کے پرائیوٹائزیشن کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ملک کی بیشتر ریاستوں نے اسکولنگ نظام کو لاوارٹ چھوڑ دیا ہے۔ہفت روزہ دعوت کے انہی کالموں میں ہم نے ’’مودی حکومت کے ذریعہ تعلیم کے فنڈ‘‘ پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اقتدار میں آنے سے قبل مودی حکومت نے تعلیم میں سرمایہ کاری کو بہترین سرمایہ کاری قرار دیتے ہوئے کل جی ڈی پی کا دس فیصد تعلیم کے شعبہ پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر گزشتہ دس سالوں میں مودی حکومت نے ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم یعنی 0.44 فیصد جی ڈی پی کا خرچ کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زبانیں حکومتوں کی سرپرستی کی وجہ سے ہی پھلتی اور پھولتی ہیں ۔آج اگر انگریزی بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے تو اس میں عالمگیریت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا فروغ اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کا اہم کردار ہے۔اگر عبرانی زبان فنا ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئی ہے تو اس میں بھی حکومت کی سرپرستی کا اہم کردار ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ حکومت
کی سرپرستی اور خواہش کے باوجود دنیا کی قدیم ترین زبان سنسکرت زندہ کیوں نہیں ہوسکی ہے؟ کیا اس سوال کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی زبان صرف حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ اس کے لیے اس زبان کے بولنے والوں کا حوصلہ اور اپنی مادری زبان کے تئیں مخلصانہ ہمدردی اور اسے زندہ رکھنے کی تڑپ کا موجود رہنا ضروری ہے۔گوا ملک کی کم آبادی والی ایک ریاست ہے جو آزادی سے قبل پرتگالی نوآبادیات کا حصہ تھی ۔آزادی کے بعد گوا کو ضم کرنے کی تحریک چلائی گئی اور 1961میں گوا کا انضمام ہوا۔پرتگالی دور میں بھی اور اس لبریشن کے بعد بھی گوا میں آباد 5 فیصد مسلمانوں کی زبان دکنی اردو ہے۔اس دور میں گوا میں 27 پرائمری اسکول تھے جو کم ہوتے ہوتے 10 پرائمری اسکول تک رہ گئے ہیں جب کہ چار ہائر سیکنڈری اسکول ہیں جن میں تین پرائیوٹ اسکول ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ اعداد و شمار مایوس کن ہیں مگر اس کے باوجود آج گوا میں اردو کی نشاۃ ثانیہ ہو رہی ہے۔اردو ہائر سیکنڈری اسکولوں کا نتیجہ صد فیصد ہے اور انگلش میڈیم اسکولوں میں زیر تعلیم طلبا میں اردو سیکھنے اور سکھانے کے جذبے میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ دراصل چند سال قبل جماعت اسلامی ہند، گوا کے ذمہ داروں نے اردو کے فروغ کے لیے ایک نئی شروعات کی تھی۔انہوں نے اپنے زیر انتظام چلنے والے مکاتب میں زیر تعلیم طلبا کو ہفتے میں ایک دن اردو پڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے والدین کی ذہن سازی کی گئی کہ آباد واجداد کا تہذیبی و ثقافتی ورثہ اردو زبان میں محفوظ ہے اگر بچوں کو اردو نہیں پڑھائی گئی تو وہ اس سے محروم رہیں گے ۔ چنانچہ جماعت اسلامی گوا کے زیر اہتمام چلنے والے50سے زائد مکاتب میں زیر تعلیم بچے اردو پڑھ رہے ہیں ۔اس کے بعد دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے مکتبوں میں بھی یہ نظام شروع ہوا اور آج گوا میں بڑی تعداد میں ایسے نوجوان ملیں گے جنہوں نے اسکول میں اردو نہیں پڑھی ہے مگر وہ اردو زبان کے اخبارات اور معیاری کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔گوامیں یہ تبدیلی خوشگوار ہواکا جھونکا ہے اور یہ پیغام بھی ہے کہ اگرجذبہ و جنون ہوتو حکومت کی سرپرستی کے بغیر مادری زبان کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔
2011کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق اپنی مادری زبان کے طور پر اردو کو اندارج کرانے والوں کی تعداد میں کمی آئی تھی۔ اس رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہندی بولنے والی ریاستیں جہاں کی مسلم معاشرہ کی زبان اردو ہے، وہاں اندراج کرانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔مگر جنوبی ہند میں یہ گراوٹ نظر نہیں آئی تھی ۔اترپردیش کو اردو کی آبائی ریاست کہا جاتا ہے ۔ یہاں تقریباً 3.75کروڑ مسلمان رہتے ہیں مگرصرف ایک کروڑ 8لاکھ افراد نے اپنی مادری زبان کے طور پر اردو کو درج کرایا ہے۔جب کہ بیشترافراد اردو بولتے ہیں اور ان کےذریعہ بولی جانی والی زبان میں اردو کے الفاظ ہندی سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔100 میں سے صرف 28 مسلمان اردو کو مادری زبان کے طور درج کروا رہے ہیں۔اس کی وجہ سے اترپردیش میں اردو اسکولوں کو بتدریج ختم کردیا گیا ہے۔مسلم آبادی میں مکاتب کا نظام بھی مخدوش ہیں ۔وہ نسل بھی ختم ہوگئی ہے جسے اردو سے جذباتی تعلق تھا ۔حالیہ برسوں میں اردو کے احیائے نو کے لیے کوئی تحریک بھی نہیں چلائی گئی ہے۔ یہی حال راجستھان، مدھیہ پردیش اورشمال کے دوسرے صوبوں کا ہے ۔یہ وہ صوبے ہیں جہاں مسلمان عام طور پر اردو کو اپنی زبان سمجھتے ہیں۔ اگرچہ بہار کی صورت حال اتر پردیش سے بہتر ہے ۔بہار میں بھی اترپردیش کے تجربات دہرائے جا رہے ہیں اور نتیش کمار کے 15سالہ دور حکومت میں اردو اسکول مررہے ہیں ۔بہار میں مسلمانوں کی آبادی 1.75کروڑ ہے مگر صرف 87لاکھ افراد نے اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کرایا ہے۔بہار میں کل 2,600 اردو اسکول ہیں اور اور تقریباً تمام 72,663 سرکاری اسکولوں بشمول پرائمری، مڈل، سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری اسکولوں میں اردو بطور مضمون پڑھایاجاتا ہے۔2023میں ہونے والی بحالی کو اگر چھوڑ دیا جائے تو حکومت بہار نے 2005 سے 2023تک محض32,000اردو اساتذہ کی تقرری کی ہے۔ ان 32ہزاراساتذہ میں سے بہت سے لوگ ریٹائر ہو چکے ہیں اور کچھ دوسرے اپنی سروس کے اختتام کو پہنچنے والے ہیں۔
2011سے قبل اگر گزشتہ کی 6 مردم شماریوں کو دیکھائے جائے تو اردو بولنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔1971کی مردم شماری کی رپورٹ میں اردو بولنے والوں کی تعداد 2کروڑ 86لاکھ بتائی گئی تھی۔دس سال بعد 1981 کی مردم شماری میں اردو بولنے والوں کی تعداد ساڑھے 3 کروڑ ہو گئی۔ اس کے بعد1991 میں یہ 4 کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس صدی کی پہلی مردم شماری یعنی 2001 میں اردو بولنے والوں کی تعداد 5 کروڑ 15 لاکھ سے تجاوز کر گئی ۔مگر 2011 کی مردم شماری، جس کی رپورٹ کافی بعد میں آئی اور کئی سالوں بعد زبان کے اعداد و شمار کا تجزیہ شائع کیا گیا، اس میں اردو کو مادری زبان کے طور پر اندراج کرانے والوں کی تعداد میں کمی دکھاتے ہوئے بتایا گیا کہ اردو ہندوستان میں سرکاری اعداد و شمار کی حیثیت سے ساڑھے چار فیصد سے بھی کم لوگوں کی زبان ہے۔
اتر پردیش، بہار، دہلی، راجستھان اور مدھیہ پردیش جہاں کے مسلم معاشرہ کی زبان ہمیشہ سے اردو رہی ہے، اس کے برخلاف اگر جنوبی ہند اور مہاراشٹر کا تجزیہ کیا جائے تو صورت حال بالکل مختلف نظرآتی ہے۔ یہاں مسلم آبادی اور اردو بولنے والوں کی آبادی میں بہت کم فرق ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں 81 لاکھ مسلمان ہیں اور اردو بولنے والے 75لاکھ یعنی 90 فیصد مسلمانوں نے اردو کواپنی مادری زبان درج کرایا ہے جب کہ شمالی ہند کی ریاستوں میں مسلم آبادی کا 30سے 20فیصد نے ہی اردو کو بطور مادری زبان درج کرایا ہے۔کرناٹک میں بیشتر مسلم آبادی اردو بولتی ہے اور اردو کا مطالعہ کرتی ہے۔حد تویہ ہے کہ تمل ناڈو میں بھی اردو بولنے والوں کی تعداد راجستھان اور مدھیہ پردیش کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔
متحدہ آندھرا پردیش (بشمول تلنگانہ) کے علاوہ، کرناٹک اور یہاں تک کہ تمل ناڈو میں ایسے کئی وسیع علاقے ہیں، جہاں بڑی تعداد میں اردو بولنے والے رہتے ہیں۔ تمل ناڈو میں ویلور کے آس پاس کے علاقے نے اردو ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ویلور میں ایسے کئی قصبے ہیں جہاں اردو رسالے اب بھی شمالی ہند کے کئی شہروں سے زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔کرناٹک کا شہر گلبرگہ ہے موجودہ بھارت میں اردو کے سب سے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔مہاراشٹر کے اورنگ آبادمیں بھی اردو بولنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے اور یہاں اردو کے کئی اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ کرناٹک میں اردو میڈیم کے ہزاروں اسکول ہیں، جبکہ یوپی میں صفر ہیں۔
گزشتہ ہفتے اس دار فانی سے رخصت ہونے والے معروف ادیب علیم صبانو یدی نے اپنی تاریخی کتاب ’’تمل ناڈو میں اردو‘‘ میں تمل ناڈو میں اردو بولنے والوں اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا کہ یہاں کے مسلمان زیادہ تر تمل بولتے ہیں لیکن ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں وہ اردو بولتے ہیں، ان کے لہجے میں ہلکا سا دکنی رنگ ہے۔ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ اگر پہلا اردو اخبار جام جہاں نما 1822 میں کلکتہ سے شائع ہوا تو دوسرا اردو اخبار جامع الاخبار مدراس سے شائع ہوا۔علیم صبا نویدی اپنی کتاب میں چنئی، عمرآباد، وانمباڑی، ویلور، کرشنا گری، مدورائی، نیلور اور یہاں تک کہ بنگلور کے آس پاس کے اردو شاعروں کا بھی ذکر کیا ہے۔گزشتہ مردم شماری میں تمل ناڈو میں 10 لاکھ افراد اردو بولنے والوں کی تعداد تھی ۔جنوبی ہند کی ریاست کیرالا میں مسلمانوں کی زبان ملیالم ہے اورملیالی ادب میں مسلم ادباو شعراء کی اپنی چھاپ ہے۔کئی مسلم ملیالی شعرا ہیں جنہیں مقبولیت حاصل ہے۔ اس کےباوجود کیرالا میں اردو بولنےوالوں کی تعداد مل جاتی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں اگر ہندی بولنے والوں کی تعداد کو دیکھاجائے تو ان میں زیادہ تر وہ افراد ہیں جو روزگار کے لیے ہندی پٹی سے ہجرت کیے ہوئے ہے۔مگر اردو اسکولوں میں معاملہ اس کے برعکس ہے یہاں ملیالی طلبا میں اردو پڑھنے کا شوق پیدا ہورہا ہے۔
کیا اردو کا مستقبل روشن ہے؟
شمالی ہند اور جنوبی ہند کے درمیان موازنہ کے بعد یہ سوال اہم ہے کہ کیا ملک میں اردو کا مستقبل روشن ہے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ اردو کے روشن مستقبل کے لیے کیا اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اعداد وشمار کے اعتبار سے شمالی ہند اور ملک بھر میں اردو اسکولوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اردو کے مقابلے میں ہندی کو فرو غ دینے کے لیے حکومت نے پوری قوت صرف کی ہے۔ یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ حالیہ برسوں میں نوجوانوں میں اردو سیکھنے کے شوق میں اضافہ ہوا ہے۔ 2009میں دہلی میں علی تقی نے جنوبی ہند کی ریاستوں سے آنے والوں کو ہندی سکھانے کے لیے ’’زبان اسکو ل فار لینگویج‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور ان کے یہاں اردو سیکھنے والے طلبا نے بھی رجوع کرنا شروع کردیا۔ان کےیہاں 3ہزار کے قریب طلبانے اردو سیکھی ہے جن کی عمریں18 سے 27 سال کے درمیان تھیں۔علی تقی کہتے ہیں کہ ’’شاید موجودہ نسل کو یہ احساس ہوگیاہے کہ اردو بھی ان کے ورثے کا حصہ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ اپنے والدین اور دادا دادی کے ساتھ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، اور یہ ان کے ذہنوں میں رائج ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے یہ زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ وہ روزانہ بات چیت میں اس زبان کا استعمال کرتے ہیں ۔جہاں تک سوال سنٹر فار لرننگ ریسرچ‘ (سی ایل آر) کے ڈائریکٹر اور ماہر تعلیم اکٹر جان کیورین کے تحقیقاتی مقالہ ’’21ویں صدی میں ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کے لیے ایک نیا ایجنڈا‘‘ میں اردو اسکولوں سے متعلق ظاہر کیے گئے تشویشات کی بات ہے تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جان کیرین نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ مسلم اشرافیہ نے آزادی سے پہلے ہی اردو کو بطور زبان پڑھنا ترک کردیا تھا۔متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ مسلمانوں نے آزادی کے بعد اپنے بچوں کو روزگار کے حصول کے لیے انگلش میڈیم کی تعلیم کا انتخاب کیا ہے۔شہری علاقوں میں مسلم اشرافیہ غیر اردو میڈیم اسکولوں کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ شہر بنگلور میں 1982 میں تقریباً ایک درجن انگلش میڈیم اسکول تھے جنہیں مسلمان چلاتے تھے۔2016میں یہ تعداد بڑھ کر 450 تک پہنچ گئی تھی۔‘‘مقالے میں مزید کہا گیا ہے کہ متوسط طبقے اور امیر مسلمانوں کے ذریعہ اسکولوں میں اردو کی کسی بھی قسم کی سرپرستی یا حمایت کو ترک کرنے کے نتیجے میں اردو میڈیم اسکولوں میں کمی اور معیار میں گراوٹ آئی ہے۔ 2017-18 میں 75ویں این ایس ایس راؤنڈ سروے کے مطابق صرف 12.2 فیصد اردو بولنے والے گھرانوں نے اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں میں بھیجا ہے اور بڑی تعداد نے ہندی میڈیم 13.2 فیصد اور علاقائی میڈیم اسکولوں میں 20.8 فیصد بھیجا ہے اردو بولنے والے گھرانوں کی اکثریت 53.8 نے اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں بھیجا۔ ہندوستان کی 12 بڑی زبانوں میں اردو بولنے والوں کا نمبر ان لوگوں میں سب سے نچلا ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو اسکولوں میں تعلیم کے اسی وسیلے میں پڑھایا جو ان کی مادری زبان ہے۔
ایک طرف مسلم اشرافیہ کی اردو کے تئیں بیزاری ہے تو دوسری طرف ملک کے تمام اردو کے سرکاری اور خود مختار اردو اداروں پر اسی اردو اشرافیہ کا قبضہ بھی ہے جنہوں نے نصف صدی قبل ہی اردو سے ترک تعلق کردیا تھا، مگر سیاست اور اقتدار کے لیے اردو اداروں پر براجمان ہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ سرکاری ادارے بے فیض ثابت ہو رہے ہیں ۔ملک بھر کی اردو اکیڈمیوں کے فنڈس جلسے، سیمینار اور پروگراموں میں خرچ ہو جاتے ہیں مگر یہ اکیڈمیاں اردو میڈیم کی تعلیم کو معیار بنانے پر غور تک نہیں کرتی ہیں۔
ڈاکٹر جان کیرین نے اردو اسکولوں کے معیار تعلیم پر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی طرف بھی نشان دہی بھی کی ہے کہ غیر معیاری انگلش میڈیم اسکولوں میں جہاں بڑی تعداد میں نچلے متوسط طبقے کے مسلم طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ بھی ترقی میں پیچھے ہیں۔2020 کی نئی قومی تعلیمی پالیسی میں 15 سال تک معیاری تعلیم پر زور دینے کے ساتھ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ حکومت اپنی اس نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے۔غیر معیاری پرائیوٹ اسکول جو طلبا کے مستقبل کو تاریک کررہے ہیں ان کا مواخذہ کون کرے گا؟
مسلمانوں میں اسکول اور اعلیٰ تعلیم کی تمام سطحوں پر اندراج کی شرح ایس سیوں اور ایس ٹیوں سے بھی کم ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کے اقتصادی اور معاشی حالات ہیں ۔بہت سے طلبا 8ویں جماعت سے آگے نہیں بڑھ پاتےہیں۔ دسویں کے بعد ڈراپ آؤٹ کی شرح سب سے زیادہ مسلمانوں میں ہے۔ اب ایسے میں حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والے ادارے بند ہوتے ہیں یا پھر ان کے معیار میں گراوٹ آتی ہے تو اس کا خمیازہ سب سے زیادہ مسلم طلبا کو ہی بھگتنا پڑے گا۔اس لیے ہماری ترجیحات یہ ہونی چاہیے کہ حکومت کے زیر انتظام یا پھر امداد یافتہ اسکولوں پر توجہ دی جائے۔معیار کو بہتر بنانے کے لیے اسکولوں کے نظام میں اصلاحات لائی جائیں اور بہتر نصاب تعلیم تیار کیا جائے۔یہ سب اردو اشرافیہ کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024