اداریہ

بے لگام میڈیا کے رویہ پر قدغن

بھارتی میڈیا اور اس کے منفی کردار پر ملک میں پچھلے کئی برسوں سے گفتگو و تبادلہ خیال کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ اپنے اس کالم میں بھی ہم نے کئی بار جمہوریت میں میڈیا کی اصل حیثیت اور موجودہ کیفیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا صحافتی دیانت داری اور غیر جانب داری جیسے بنیادی اوصاف کو کبھی کا خیر باد کہہ چکا ہے۔ وہ اپنے آقاؤں کی غلامی میں حکومت اور اس کی فاش غلطیوں پر کوئی سوال کرنا تو دور الٹا ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا رہتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ ان افراد کے خلاف بھی محاذ کھول دیتا ہے جو حکومت کی غلط کاریوں پر تنقید کرتے ہیں یا اس پر سوال اٹھاتے ہیں۔ موجودہ میڈیا کی دوسری سب سے خطرناک روش یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور ان کے اور ہندوؤں کے درمیان دشمنی کو بڑھاوا دینے کی مسلسل کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس کے لیے وہ کبھی تبدیلی مذہب کا ہوا کھڑا کرتا ہے تو کبھی لو جہاد کے ایک گھڑے ہوئے مسئلے کو حقیقی بتا کر مسلمانوں کو ہندووں کے لیے خطرہ بنا کر پیش کرتا ہے اور جانتے بوجھتے ان کے دلوں میں مسلمانوں کے تعلق سے نفرت اور دشمنی ڈالتا رہتا ہے۔ ملک کے سنجیدہ شہریوں کا ایک بڑا طبقہ میڈیا کی اس صورت حال پر کافی فکر مند رہتا ہے اور اپنی نجی گفتگوؤں میں اس پر تشویش کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے لیکن خوف یا نتائج کے متعلق مایوسی کی وجہ سے اس کو روکنے یا اس پر قدغن لگانے کے لیے کوئی اقدام کرنے کی ہمت نہیں رکھتا جس کے نتیجے میں یہ صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ملک میں ابھی بھی بعض ایسے افراد موجود ہیں جو نتائج کی پروا کیے بغیر اس صورت حال کے خلاف لڑنے اور اس کے ذمہ داروں کو قانونی سزا دلوانے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ چنانچہ راجستھان کے اندرجیت گھوڑپڑے ایسے ہی ایک بے باک جہد کار ہیں جنہوں نے میڈیا کے اس روش کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ وہ بھی ملک کے لاکھوں سنجیدہ شہریوں کی طرح میڈیا کی اس بے سروپا بکواس اور نفرت پر مبنی پروپگنڈے سے بہت پریشان تھے اور اس کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم پر گھنٹوں چلنے والے مباحثوں کا مسلسل مشاہدہ کیا اور انہیں ریکارڈ کرکے بعض قابل اعتراض باتوں کی نشان دہی کی، انہیں جمع کیا اور تمام شواہد کے ساتھ نیوز براڈکاسٹنگ و ڈیجیٹل اسٹانڈرڈس اتھارٹی (NBDSA) سے ان چینلوں کے خلاف شکایت کی۔ کئی دنوں کی کوشش کے بعد گزشتہ دنوں سابق چیف جسٹس اے کے سیکری کی قیادت میں این بی ڈی ایس اے نے ہندی زبان کے تین قومی چینلوں سے وابستہ چار نیوز اینکروں پر اپنے چینلوں کے ذریعے فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے اور ایک خاص طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے پر تنبیہ کی، ان پر جرمانہ عائد کیا اور انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اپنے چینلوں سے ان پروگراموں کے مواد کو حذف کر دیں۔ این بی ڈی ایس اے کے مطابق یہ چینل ضابطہ اخلاق اور نشریات کے طے شدہ معیارات، بالخصوص غیر جانب داری، معروضیت اور صحتِ خبر کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔
اس پوری کارروائی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر لوگ غلط ہوتا ہوا دیکھ کر خاموش نہ بیٹھیں اور اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو برائی پر روک لگانے میں کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور ملے گی۔ یقیناً این بی ڈی ایس اے کے اس فیصلے اور بالکل معمولی جرمانے سے ان چینلوں کی رویوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ آج بھی اسی روش پر قائم ہیں۔ اس کی تازہ مثال راجستھان کے ضلع کوٹہ کے ایک اسکول میں نام نہاد لو جہاد اور تبدیلی مذہب کے متعلق پھیلائی گئی غلط خبریں ہیں، جس کے بعد وہاں تین مسلمان اساتذہ کو معطل کر دیا گیا۔ جب کہ یہ پورا قصہ جھوٹ اور دروغ گوئی پر مبنی تھا۔ لہٰذا میڈیا کے اس رویے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی ضرور ہونی چاہیے تاکہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہو کہ یہ چینل جس کام میں لگے ہوئے تھے وہ سراسر غلط تھا اور کچھ لوگ تھے جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی ان کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کام مزید منظم طریقے سے اور مسلسل ہو۔