لوگ موٹاپے سے پریشان، طرزِ زندگی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت

جسمانی طور پر متحرک رہیں۔ شکم سیری اور مرغن غذاؤں سے پرہیز بھی لازمی

از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد

ہمارے ملک میں لوگ موٹاپے سے بہت پریشان ہیں۔ یہ نہ صرف ہمارا بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں موٹاپے کو علاقائی وباء (اپیڈیمک) کہا جانے لگا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں موٹاپا خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے اور لوگ اس سے بہت پریشان ہیں۔ لوگ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے سو سو جتن کر رہے ہیں لیکن اس سے چھٹکارا نہیں مل پا رہا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ صبح چہل قدمی کرتے ہیں، ورزش کرتے ہیں، موٹاپا کم کرنے کی تربیت دینے والے ماہرین سے مشورے لیے جا رہے ہیں کہ کیسے موٹاپا کم کیا جائے، کیا غذائیں استعمال کی جائیں جس سے موٹاپا کم ہو سکے لیکن جتنے ماہرین تیار ہو رہے ہیں اور جتنے ورزش گاہیں کھل رہی ہیں موٹے لوگوں میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
موٹاپے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ موٹاپا کیوں ہوتا ہے یہ جاننے سے قبل ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ مسئلہ کس سطح تک بڑھ گیا ہے اور کس قدر شدت اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے ملک میں وقفہ وقفہ سے صحت عامہ سے متعلق سروے کیا جاتا ہے، جسے "نیشنل فیملی ہیلتھ سروے” کہتے ہیں، اس سروے میں عوام کی صحت کا مکمل جائزہ لیا جاتا ہے کہ کس قسم کے امراض میں وہ مبتلا ہیں اور کن کن بیماریوں سے دو چار ہیں تاکہ ان امراض کا بھی علاج کیا جاسکے اور دوسروں کو بھی اس سے بچایا جاسکے۔ چوتھا نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2015 اور 2016 میں کیا گیا تھا اور اب پانچواں سروے 2019 اور 2021 کے دوران کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ میں ہی وزیر صحت نے اس سروے کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق خواتین موٹاپے کا شکار زیادہ ہو رہی ہیں، یعنی ان کی عمر اور ان کے قد کے اعتبار سے ان کا وزن زیادہ ہے۔ ان کا جتنا وزن ہونا چاہیے اس کہیں زیادہ ہے جسے "باڈی ماس انڈیکس” کہا جاتا ہے، خواتین میں موٹاپے کی رفتار 24 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ ملک کا ہر چوتھا آدمی موٹاپے کا شکار ہے۔ یہ صرف خواتین کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ مرد حضرات کا بھی کم وبیش یہی حال ہے۔ خواتین کے موٹاپے میں جہاں 24 فیصد کا اضافہ ہوا ہے وہیں مرد حضرات کے موٹے ہونے کی رفتار 23 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے جو چند سال قبل 19 فیصد تھی۔ مرد و خواتین کسی تفریق کے بغیر موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں، ملک کا ہر چوتھا فرد موٹاپے کا شکار ہے۔
ایک طرف ہمارا ملک غذا کی کمی Malnutrition کا شکار ہے تو دوسری طرف معاشی ترقی کی طرف بھی گامزن ہے۔ اس کی معیشت کا حجم پانچ کھرب ڈالر کے نشان کو چھو رہا ہے۔ اس کی جی ڈی پی میں 50 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے ایک تہائی سے زیادہ غذائی کمی کا شکار بچے ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ان میں سے نصف تو ایسے ہیں جن کی عمریں تین سال سے کم ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ ایک طرف غذائی کمی کا شکار ہیں اور دوسری طرف موٹاپے جیسے مسائل سے دوچار ہیں؟ موٹاپا بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تو وہیں اس سے پیدا ہونے والی بیماریاں دوسری طرف مسائل انبار لگاتی جا رہی ہیں، یہ موٹاپا کئی غیر متعدی امراض کا سبب بنتا ہے جیسے دل کے امراض، قلب ہر حملہ، ذیابیطس، بلند فشار خون، کینسر اور تنفس کی دائمی بیماریاں وغیرہ۔
موٹاپا کم کرنا بھی آج صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے، نئی نئی ورزش گاہیں کھل رہی ہیں، یوگا کے مراکز کھل رہے ہیں، ٹینس بھی آج کل وزن کم کرنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے، تیراکی، گھڑ سواری، دوڑ، چہل قدمی، ادویات، مطحونات وغیرہ۔ لوگ موٹاپے کو کم کرنے پر ہزاروں روپے خرچ کر رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ مفت ہو رہا ہے بلکہ یہ ایک مہنگا ترین عمل بن چکا ہے۔ لوگ اسی سوچ میں ہیں کہ وزن کیسے کم کیا جائے وہ اپنا وقت اپنا پیسہ لگا رہے ہیں تاکہ ان کا موٹاپا کم ہو۔ لوگ موٹاپے سے کس قدر پریشان ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اگر آپ صبح کے وقت پارک، جم یا کسی یوگا سنٹر سے گزریں تو وہاں موٹے لوگوں کی آمد و رفت کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں کو مخصوص امراض لاحق ہوتے ہیں وہ چاہ کر بھی کچھ کر نہیں سکتے اور کچھ لوگ جینیاتی طور پر بھی موٹے ہوتے ہیں جن کے گھر میں سارے افراد موٹے ہوتے، ایسے لوگوں کا مسئلہ مختلف ہے، لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ موٹاپے کا تعلق ہماری طرز زندگی پر موقوف ہے۔ ہماری طرز زندگی یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت آرام میں گزار دیتے ہیں، بیٹھ کر کام کرنے کا رواج زیادہ ہو گیا ہے، چھوٹے سے چھوٹے کام پر بھی سواری کا استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل میں پیدل چلنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے، کمپیوٹر، اسمارٹ فون اور ان جیسی ساری چیزیں انسان کو جسمانی طور پر کام کرنے سے دور رکھتی ہیں۔ پھر دوسری طرف ہمارے کھانے کے طور طریقے بھی بہت حد تک بدل گئے ہیں، گھر کے کھانوں سے زیادہ ہوٹل کے کھانے ہمیں زیادہ پسند آنے لگے ہیں، جنہیں عام زبان میں”جنک فوڈ” کہا جاتا ہے۔ مرغن غذاؤں کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہماری دعوتیں دیکھ لیجیے، ان میں ہمہ اقسام کے پکوان کیے جاتے ہیں اور دعوتی بھی شکم سیری بھی اتنی کرتے ہیں کہ کبھی کبھی ان کو سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ اور ان جیسی دیگر وجوہات ہیں جو انسان کو موٹاپے میں مبتلا کرتی ہیں۔ ہمیں اپنی طرزِ زندگی پر خاص توجہ دینی چاہیے، شکم سیری سے پرہیز کرنا چاہیے اور ساتھ ہی مرغن غذاؤں کے استعمال سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ پیکڈ فوڈ یعنی ڈبہ بند اشیاء خوردونوش جیسے آلو کے چپس، برگر، پیزا اور دیگر تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز ضروری ہے۔ جو سنت کا طریقہ ہے اسی اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کھانا کھائیں اور پیٹ کا ایک حصہ ہمیشہ خالی رکھیں، اتنا نہ کھائیں جس سے آپ کا جسم سستی کا شکار ہو جائے۔ پھر دوسری طرف ہمیں جسمانی طور پر متحرک ہونا بھی ضروری ہے ورنہ ہمارا جسم سستی کا شکار ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ موٹاپے کا شکار ہو جائے گا۔ ہر ممکن کوشش کریں کہ چھوٹے چھوٹے کام پیدل چل کر کریں۔ نمازوں کے لیے مسجد کو پیدل ہی جایا کریں۔ سبزیوں کی خریداری کے لیے پیدل جایا کریں۔ یہ کچھ چیزیں ہیں جس پر عمل کر کے اپنے آپ کو تندرست اور توانا رکھا جا سکتا ہے۔

 

***

 مرغن غذاؤں کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہماری دعوتیں دیکھ لیجیے، ان میں ہمہ اقسام کے پکوان کیے جاتے ہیں اور دعوتی بھی شکم سیری بھی اتنی کرتے ہیں کہ کبھی کبھی ان کو سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ اور ان جیسی دیگر وجوہات ہیں جو انسان کو موٹاپے میں مبتلا کرتی ہیں۔ ہمیں اپنی طرزِ زندگی پر خاص توجہ دینی چاہیے، شکم سیری سے پرہیز کرنا چاہیے اور ساتھ ہی مرغن غذاؤں کے استعمال سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ پیکڈ فوڈ یعنی ڈبہ بند اشیاء خوردونوش جیسے آلو کے چپس، برگر، پیزا اور دیگر تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز ضروری ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022