نوپور: کیا سے کیا ہوگیا، ہندوتوا ۔۔!

گستاخوں کے خلاف کارروائی سے بھگوا خیمے میں کھلبلی

ڈاکٹر سلیم خان

احتجاج کی بدولت اقتدار تک پہنچنے والوں کو اپنے خلاف احتجاج گوارا نہیں۔ بنیادی جمہوری حقوق کی پامالی
ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب لال کرشن اڈوانی مارگ درشک منڈل میں بیٹھ کر حسرت بھری نگاہوں سے راہ نہیں تکتے تھے بلکہ رام رتھ یاترا میں بیٹھ کر ملک بھر میں آگ لگاتے پھرتے تھے۔ اس وقت یہ نعرہ لگتا تھا ’ جس ہندو کا خون نہ کھولے، خون نہیں وہ پانی ہے۔ جنم بھومی کے جو کام نہ آئے وہ بے کار جوانی ہے‘۔ اس ملک گیر پر تشدد احتجاج کا اختتام 6؍ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ہوا جب عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کے باوجود بابری مسجد شہید کر دی گئی۔ اس جرم کی سنگینی کو ہر عدالت نے تسلیم کیا اور سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کو اس کے ارتکاب میں ناکامی کے سبب سزا بھی سنائی گئی۔ بابری مسجد کی شہادت کو نہ صرف ملک کے انصاف پسند لوگوں نے بلکہ عدلیہ اور اس وقت کے میڈیا نے بھی ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا لیکن سنگھ پریوار نے اس ظلم عظیم کو عوامی غصہ کے اظہار کا نام دے کر جائز ٹھیرا یا اور اپنا دامن چھڑا لیا۔ یہ تفصیل اس لیے بیان کی گئی کہ ایک ناجائز کام کے لیے اگر رام بھکتوں کو غصہ آ سکتا ہے تو اہانت رسول پر بھی مسلمانوں کا خون کھول سکتا ہے۔
اڈوانی کی رام رتھ یاترا کو لالو پرشاد یادو نے روکا ضرور مگر کچلا نہیں اس لیے کہ احتجاج کرنا عوام کا حق ہے۔ اس وقت کے حکمرانوں نے اسے اس لیے بزور قوت نہیں کچلا بلکہ برداشت کر لیا کیونکہ انہیں اپنے اقتدار سے زیادہ عوام کے حقوق کی پروا تھی۔ آج زمانہ بدل گیا ہے، کل کے احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں میں اب حکومت کی باگ ڈور آگئی ہے۔ ان کا مقصدِ حیات ہر حال میں اقتدار سے چپکے رہنا ہے اس لیے وہ احتجاج سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر مظاہرے ہونے لگیں تو انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا اس لیے جب جے این یو کے طلبا صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو انہیں ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کہہ کر بد نام کیا جاتا ہے۔ کنہیا کمار کو ساتھیوں سمیت عدالت کے احاطہ میں سنگھ کے غنڈوں سے زدو کوب کروایا جاتا ہے۔ اس سے بھی بات نہیں بنتی تو ہاسٹل میں گھس کر مارپیٹ کی جاتی ہے۔ یہ سب سرکاری تحفظ میں ہوتا ہے تاکہ مخالفین کی آواز کو کچلا جاسکے۔ مہاراشٹر میں بھیما کورے گاوں کے بہانے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ملک کی نامور شخصیات کو پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جامعہ سے تحریک اٹھتی ہے تو طلبا کے خلاف حیوانیت کا ننگا ناچ کیا جاتا ہے اور اس ظلم کا ارتکاب کرنے والی پولیس کے خلاف اقدام کرنے کے بجائے الٹا طلبا پر سنگین مقدمات درج کر لیے جاتے ہیں۔ دہلی میں کپل مشرا جیسے لوگوں کی مدد سے فساد برپا کیا جاتا ہے۔ آگے چل فسادیوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے بجائے انہیں بچا لیا جاتا ہے مگر اس کے بہانے سے سی اے اے تحریک کے اہم رہنماوں کو فسادی قرار دے کر جیل بھیج دیا جاتا ہے تاکہ کوئی حکومت کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہ کر سکے۔ نوپور شرما کو توقع تھی کہ جو سلوک کپل مشرا کے ساتھ کیا گیا وہی نوازش اس کے ساتھ بھی ہو گی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا پھینکا ہوا بم ایسے پھٹے گا کہ نہ پارٹی کسی کام آسکے گی اور نہ حکومت اس کو بچا سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔
مودی حکومت اگر اپنے ہی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے اعتراض کی جانب توجہ دیتی اور بر وقت پارٹی سے معطل کرنے کی کارروائی کروادیتی تو غم و غصہ میں کسی حد تک کمی آ سکتی تھی۔ فی الحال دہلی پولیس نے جو ایف آئی آر ابھی درج کی ہے اگر یہی کام مذکورہ بحث کے اگلے دن ہو جاتا تو بات اتنی نہیں بگڑتی۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ نوپور کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کر دیا جاتا تو کم ازکم دنیا کے سامنے کہنے کے لیے یہ ہوتا کہ قانون اپنا کام کر رہا ہے اور اس کو قرار واقعی سزا ہوگی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سرکار کا کمبھ کرن کی نیند سونا ایک مجرمانہ غفلت تھی اور اس غلطی کی بھاری قیمت اس کو چکانی پڑ رہی ہے۔ اسی لیے قطری سرکار کا حکومت ہند سے عوامی طور پر معافی مانگنے کا مطالبہ درست معلوم ہوتا ہے۔ نوپور چونکہ سرکارکی ترجمان نہیں تھی اس لیے اس کا بیان بھی سرکاری نہیں تھا لیکن وہ برسرِ اقتدار جماعت کے ترجمان کا تبصرہ تھا اور فی الحال حکومت اور پارٹی کے درمیان کا فرق مٹ چکا ہے۔اس قضیہ میں سرکار کا بنیادی قصور یہ ہے کہ اس نے بروقت کارروائی نہیں کی۔ قیادت کی ذمہ داری صرف محلات کے اندر عیش عشرت کرنا نہیں بلکہ مختلف واقعات کے دور رس اثرات کا اندازہ لگا کر ان پر مناسب ترین اقدام کرنا ہوتا ہے۔ کوئی حکومت اگر اپنے اس فرض منصبی میں ناکام ہو جائے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جو عالمی سطح پر فی الحال مودی سرکار کی ہوئی ہے۔ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ نوپور شرما کے ساتھ کیا سلوک کرے؟ مودی سرکار کے لیے عالمی اور داخلی دباو کے درمیان توازن قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے ترازو کے پلڑے کبھی ایک جانب جھک جاتے ہیں اور کبھی دوسری طرف جھکنے لگتے ہے۔ اس تنازع نے بی جے پی کے اندر زبردست خلفشار برپا کر دیا ہے۔ پارٹی کے اندر کے بعض سرپھرے نوپور اور نوین کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ یہ حرکت دراصل اعلیٰ کمان کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے جو نوپور اور نوین پر شکنجہ کسنے پر مجبور ہے۔
مہاراشٹر میں نوپور کے خلاف سمن سے مودی بھگتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ان پر ممتا بنرجی یا اکھلیش یادو کی جانب سے گرفتاری کا مطالبہ اثر انداز ہوتا ہے لیکن جب مرکزی سرکار کے تحت کام کرنے والے اقلیتی کمیشن کی طرف سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ دہلی پولیس کیا کارروائی کر رہی ہے اور اسے گرفتار کرکے کیفرِ کردار کیوں نہیں پہنچایا جاتا؟ تب ان لوگوں کو تشویش لا حق ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے بعد نوپور کو تحفظ دینے والی دہلی پولیس کو ایف آئی آر درج کرنا پڑتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسے کمزور کرنے کی خاطر نوپور کے ساتھ مزید تیس لوگوں کو لپیٹ لیا جاتا ہے۔ مودی بھگت اس وقت بھی اپنی تضحیک محسوس کرتے ہیں جب نوین جندل کو اپنا خاندان دہلی سے باہر کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دینا پڑتا ہے۔ یہ امیت شاہ کی کس قدر بڑی توہین ہے کہ دہلی میں وزیر داخلہ کے رہتے بی جے پی کا ایک سابق رکن خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے اور اپنے خاندان کو لے کر روپوش کرنے پر مجبور ہوجائے۔ حقیقت تو نوین کی اس حرکت نے پورے سنگھ پریوار کی ہیکڑی نکال دی ہے۔
دہلی کے علاوہ کانپور میں بھی پہلے بی جے پی کی بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے سابق ضلع سکریٹری ہرشت سریواستو کو اور پھر گوروو راجپوت کو حضرت محمد ﷺ کے خلاف توہین آمیز بیان کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس بابت بجا طور پر کانپور کے پولیس کمشنر وجے مینا کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اسی طرح کانپور ہی میں ایک مسلم بزرگ دکاندار کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے غنڈے تشار شکلا کی ویڈیو کے نشر ہوتے ہی اسے بھی دھر دبوچا جاتا ہے۔ یہ بھی بیرونی دباو کا اثر ہے ورنہ یوگی راج میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اب تو بعد نمازِ جمعہ اتر پردیش کے کئی شہروں میں مظاہرہ کرکے ببانگِ دہل مسلمانوں نے اپنے غم غصے کا جرأتمندانہ اظہار کیا ہے۔ یہ احتجاج دہلی، کولکاتہ، چندی گڑھ، جموں اور کئی مقامات پر ہوا۔ بی جے پی حکومتوں کے ان اقدامات نے ہندوتوا کے بڑے حامیوں کو کس قدر تشویش میں مبتلا کردیا ہے اس کا اندازہ یتی نرسنگھا نند جیسے لوگوں کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔
یتی نرسنگھا نند نے دو ہفتہ قبل مسلمانوں سے معافی مانگ کر عوامی زندگی سے کنارہ کشی کا عہد کیا تھا مگر نوپور کی ہمدردی میں اس کے صبر کا پیمانہ لبریر ہو گیا۔ اس نے کہا نوپور کے ساتھ جو کیا گیا وہ اس کی غلطی نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کے بزدل رہنماوں کا اسلام سے ڈر ہے یا وہ بک گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے یہ درگت ہوئی ہے۔ مودی اور یوگی پر ایسا سنگین الزام تو کسی مسلم یا سیکولر رہنما نے بھی نہیں لگایا۔ یتی نرسنگھا نند نے قرآن اور اسلامی تاریخ کی کتابوں کے ساتھ 17؍ مئی کو بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد دہلی میں جا کر مسلمانوں سے رابطہ کرنے کا اعلان کیا تو یوگی کے غازی آباد انتظامیہ نے اس کو ایک نوٹس جاری کر کے بتایا کہ وہ وہاں جانے کی زحمت نہ کرے اور اپنا مذکورہ دورہ منسوخ کر دے کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہو گی۔ اس پر وہ اڑ گیا تو اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی۔
یتی نرسنگھا نند کے بیان کا خاص پہلو اس کا یہ اعتراف ہے کہ ’مجھے پتہ ہے وہاں جانے پر میرا قتل بھی ہو سکتا ہے لیکن ایسے جینے سے اچھا تو وہاں جا کر مر جانا ہے۔ شری پنچ دشنام جونا اکھاڑہ کے مہا منڈلیشور کامودی کے نئے بھارت میں زندہ رہنے پر جامع مسجد جا کر مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو جانے کو ترجیح دینا اس کی مایوسی کا غماز ہے۔ یتی کے الفاظ میں یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ یوں لگ رہا ہے جیسے اسلامی غلامی اس ملک میں آگئی ہے۔ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے مودی نے اعلان کیا تھا کہ ملک سے ایک ہزار سالہ غلامی کا خاتمہ ہو گیا ہے مگر یتی نرسنگھا نند کے مطابق وہ آزادی خود انہیں کی موجودگی میں رخصت ہو چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’سب اسے تسلیم کر لیں مگر میں تسلیم نہیں کروں گا، میں جامع مسجد میں جا کر لوگوں کو ان کی کتاب کے بارے میں معلومات دوں گا‘۔ نرسنگھا نند دو ہفتہ قبل ہندووں کو گیتا پڑھانا چاہتا تھا اب مسلمانوں کو اسلام سکھانا چاہتا ہے حالانکہ وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟
نوپور سے ہمدردی رکھنے والے سرپھروں میں یتی نرسنگھا نند کے علاوہ بھوپال سے رکن پارلیمنٹ اور ناتھو رام گوڈسے کی بھکت پرگیہ ٹھاکر بھی شامل ہیں۔ پرگیہ کی شخصیت ان کے متنازع بیان کے سبب ایک بار پھر زیر بحث آگئی ہے۔ پرگیہ ٹھاکر نے پیغمبر اسلام پر نازیبا تبصرہ کرنے والی بی جے پی کی معطل شدہ لیڈر نوپور شرما کی حمایت میں کہا کہ اگر سچ بولنا بغاوت ہے تو سمجھ لیں کہ ہم بھی باغی ہیں۔ سنگھ پریوار کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے اس میں بڑا سخت نظم و ضبط پاپا جاتا ہے۔ اس نظم و ضبط کا مظاہرہ یوں ہوتا ہے کہ جس ترجمان کو پارٹی قصور وار ٹھیرا کر نہ صرف معطل کرتی ہے بلکہ نکال باہر کر کے اس پر ایف آئی آر درج کرواتی ہے اسی ملزم کی ایک رکن پارلیمنٹ کھلے عام حمایت کرتی ہے اور اعلیٰ کمان میں ہمت نہیں ہے کہ اس پر کارروائی کر سکے۔ اس سے قبل پردھان سیوک نے یہ تو کہا تھا کہ پرگیہ کے گوڈسے کی تعریف اور گاندھی کے قتل کی تعریف والے بہان سے انہیں قلبی تکلیف ہوئی مگر وہ پرگیہ کا بال بیکا نہیں کر سکے۔ یہی ڈسپلن اور تربیت ہے تو اس سے محروم لوگ بہتر ہیں کہ جو جھوٹ موٹ دعویٰ تو نہیں کرتے۔
اپنے ٹویٹ میں خود پر فخر جتاتے ہوئے پرگیہ نے کہا کہ وہ سچ بولنے کے لیے بدنام ہے۔ گیان واپی کا نام لیے بغیر وہ بولیں کہ وہاں شیو مندر تھا، ہے اور رہے گا۔ اسے فوارہ کہنا غلط ہے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ فوارے کو فوارہ بولنا غلط اور ہندو دیوی-دیوتا و سناتن دھرم پر حملہ ہے۔ اس کے خلاف وہ حقیقت بیان کرنے کے نام پر جھوٹ پھیلانا چاہتی ہیں۔ پرگیہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ہماری اصلیت تم بتا دو تو ہمیں قبول ہے لیکن تمہاری اصلیت ہم بتا رہے ہیں تو تکلیف کیوں ہے؟ اس کا مطلب کہیں نہ کہیں تاریخ داغ دار ہے۔‘‘ پرگیہ کو اس دعویٰ کے بعد ان حقائق کی فہرست دینی ہو گی کہ جو انہوں نے تسلیم کی ہے۔ مالیگاوں میں بم دھماکے کے لیے اسکوٹر انہوں نے خریدی اور ان کے اپنے نام پر تھی۔ وہ اگر ایسا نہیں کر سکتیں تو ان حقائق کی تفصیل دیکھیں جن کا خود انہوں نے انکار کیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان دھماکہ کرواکر فون پر اس کی خوشی منائی۔ ہیمنت کرکرے جیسے فرض شناس افسر نے گرفتار کیا تو اس کو بد دعائیں دیں اور ان کی موت پر خوشی منائی۔ اب بھی عدالت پیشی کے وقت وہیل چیئر پر بیماری کا ڈھونگ رچاتی ہیں اور اس کے بعد کھیل کے میدان میں پہنچ جاتی ہیں۔ انسان کو بلند بانگ دعویٰ کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔
نوپور کے حوالے سے پرگیہ ٹھاکر کا کہنا ہے کہ لا مذہبی یعنی سیکولر لوگوں نے ہمیشہ کچھ کہنے والوں کو دھمکیاں دی ہیں۔ اول تو یہ الزام غلط ہے اگر درست ہو تب بھی گوڈسے کو اپنے لیے نمونہ سمجھنے والی پرگیہ کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے کیونکہ ناتھورام نے دھمکی دینے کے بجائے گاندھی جی پر گولی داغ دی تھی۔ اشتراکیوں کی تاریخ اور ذہنیت بیان کرتے ہوئے پرگیہ کہتی ہیں کہ وہ دیوی دیوتاؤں پر فلمیں بناتے ہیں۔ ہدایت کاری کرتے ہیں، پروڈیوس کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ اس کی تکمیل یہ ہے کہ عوام اس کو دیکھ کر فلموں کو کامیاب کرتے ہیں اور دیش بھکتی کے فروغ کی خاطر جب پرتھوی راج چوہان جیسی فلمیں بنائی جاتی ہیں تو شائقین اس کو سوپر فلاپ کر دیتے ہیں۔ پرگیہ کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پرگیہ ٹھاکر کا دعویٰ ہے کہ ’’یہ بھارت ہندوؤں کا ہے۔ یہاں سناتن زندہ رہے گا اور اسے زندہ رکھنا ہم لوگوں کی ذمہ داری ہے اور ہم اسے رکھیں گے بھی۔ سناتن دھرم اپنا مذہب قائم کرتا ہے جو بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے ہے۔‘‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی ہندوستان میں نوپور جیسے ترجمان جب اپنی حدوں کو پار کر دیتے ہیں تو خود ہندو ہردے سمراٹ کو اس کے پر کترنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
بی جے پی کے ذریعہ نوپور شرما کی معطلی پر بہت سارے نام نہاد دیش بھکت آگ بگولہ ہو کر اپنی ہی پارٹی پر طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں۔ پروفیسر آنند رنگناتھن نوپور شرما کے ہٹائے جانے کو بی جے پی کی بزدلانہ حرکت بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی نے نوپور کو بھیڑیوں کے حوالے کردیا ہے۔ اس سنگین الزام کے بعد وہ نوپور کو حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ملک کی طاقت کسی پارٹی کے نہیں اپنے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ آنند کے بقول وہ نوپور کے ساتھ ہمیشہ ہر قدم، ہر سانس تک کھڑے ہیں لیکن اس کا کیا فائدہ؟ پارٹی اور حکومت نے ساتھ چھوڑ دیا تو آنند جیسے لوگوں کا ساتھ رہنا بے معنیٰ ہے۔ انشول اگروال نامی صارف نے بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا کہ اس نے ایوانِ پارلیمنٹ میں ہندو دیوتاوں کو شراب سے جوڑنے والے نریش اگروال کو اپنی پارٹی میں شامل کیا اور ایسے وقت میں نوپور اور نوین کو نکال باہر کیا جب انہیں خاندان سمیت جان سے مارنے کی دھمکی مل رہی تھی۔ نیز جموں و کشمیر میں ہونے والے ہندووں کے قتل پر چپیّ سادھ لی۔ ماسٹر اسٹروک راجیو گپتا نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا کہ ’جب اسلام کی بے عزتی کی جاتی ہے تو بی جے پی کوئی کارروائی نہیں کرتی جبکہ اپنے کارکنان اور حامیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔ بھلے ہی وہ اسلام پسندوں کے بارے میں سچ ہی کیوں نہ بولیں۔ اس طرح کی حماقت کو کچھ لوگ بزعم خود بی جے پی کا ماسٹر اسٹروک قرار دیتے ہیں۔ یتی شرما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نوپور شرما کو برخواست کر کے اگر بی جے پی سیکولر بننے کی کوشش کرے گی تو یہ اس کے زوال کی ابتدا ہو گی۔ راجیش ورما نے اور آگے بڑھ کر لکھا کہ بی جے پی کو برداشت کرنا اب مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے سبھی ہندو تنظیموں سے گزارش کی کہ وہ اپنی علحیدہ سیاسی جماعت بنا کر بی جے پی کو اقتدار سے ہٹا دیں۔ اس کی تائید میں جتیش نے لکھا بی جے پی کشمیری پنڈتوں کو گرفتار کر سکتی ہے لیکن ہندووں کے قتل پر کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اقلیتوں کی منہ بھرائی کے لیے نوپور کو غلط طریقہ سے معطل کر سکتی ہے لیکن اس پر انعام رکھنے والے ایم آئی ایم امیدوار کو گرفتار نہیں کر سکتی۔ عرب ممالک کے احتجاج کو ٹیگ کر کے ایک فلمساز نے سوال کیا ایسے بنیں گے وشو گرو؟ ملک بھر میں رام مندر کی تحریک چلا کر اقتدار میں آنے بعد ان ہندوتوا نوازوں کی حالتِ غیر پر گائیڈ فلم کا نغمہ یہ معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے ؎
کیا سے کیا ہوگیا ہندتوا تیرے پیار میں
چاہا کیا کیا ملا ہندوتوا تیرے پیار میں
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 اس قضیہ میں سرکار کا بنیادی قصور یہ ہے کہ اس نے بروقت کارروائی نہیں کی۔ قیادت کی ذمہ داری صرف محلات کے اندر عیش عشرت کرنا نہیں بلکہ مختلف واقعات کے دور رس اثرات کا اندازہ لگا کر ان پر مناسب ترین اقدام کرنا ہوتا ہے۔ کوئی حکومت اگر اپنے اس فرض منصبی میں ناکام ہو جائے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جو عالمی سطح پر فی الحال مودی سرکار کی ہوئی ہے۔ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ نوپور شرما کے ساتھ کیا سلوک کرے؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022