کوئی بھی عدالت خود سے اعلیٰ بنچ کے فیصلے کے خلاف حکم نہیں دے سکتی: سپریم کورٹ

نئی دہلی، اگست 22: سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ کوئی بھی عدالت اعلیٰ بنچ کے فیصلے کے خلاف حکم نہیں دے سکتی اور مزید کہا کہ یہ آئینی فلسفے کے خلاف ہے۔

عدالت نے یہ مشاہدہ گجرات ہائی کورٹ کی طرف سے عصمت دری کی شکایت درج کروانے والی خاتون کے حمل کو ختم کرنے کی درخواست کے سلسلے میں دیے گئے حکم پر نوٹس لیتے ہوئے کیا۔

ہندوستانی قانون کچھ خاص زمروں کے لیے حمل کے خاتمے کے لیے 24 ہفتوں کی حد مقرر کرتا ہے۔

موجودہ معاملے میں خاتون نے 7 اگست کو گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اگلے دن اس کے کیس کی سماعت ہوئی، جس کے دوران طبی معائنے کا حکم دیا گیا۔ میڈیکل رپورٹ 10 اگست کو پیش کی گئی تھی لیکن اگلے دن عدالت نے کیس کی سماعت 23 اگست تک ملتوی کر دی۔

لیکن 17 اگست کو عدالت نے خاتون کی درخواست کو مسترد کر دیا اور اسے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اشارہ دیا، جس نے ہفتہ کو کیس کی سماعت کے لیے خصوصی بنچ کو بلایا۔

ہفتہ کی سماعت کے دوران جسٹس بی وی ناگارتھنا اور اجل بھویان کی بنچ نے کیس کو 12 دن تک ملتوی کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا۔ ججوں نے مشاہدہ کیا کہ عدالتوں کو اس طرح کے معاملات میں عجلت کا احساس ہونا چاہیے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے خاتون کو نئے سرے سے طبی معائنہ کرانے کی ہدایت دی اور کیس کی سماعت 21 اگست کو مقرر کی تھی۔

پیر کو جیسے ہی بنچ نے حمل کو ختم کرنے کی خاتون کی درخواست کی اجازت دی، وکلاء کے ذریعہ بتایا گیا کہ ہفتہ کو سپریم کورٹ کی سماعت ختم ہونے کے فوراً بعد گجرات ہائی کورٹ نے اسی کیس کی ازخود سماعت طلب کی ہے۔

جسٹس ناگارتھنا نے کہا ’’ہم ہائی کورٹ کی طرف سے ہمارے حکم کے خلاف ایک حکم جاری کرنے کی تعریف نہیں کرتے۔ گجرات ہائی کورٹ میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘

گجرات حکومت کی جانب سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دعویٰ کیا کہ یہ کلیریکل غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔

انھوں نے کہا ’’یہ ایک غلط فہمی تھی۔ ہم بطور ریاستی حکومت جج سے حکم واپس لینے کی درخواست کریں گے۔‘‘

تاہم سپریم کورٹ نے نشان دہی کی کہ یہ حکم سنیچر کو دیا گیا تھا، جو ہائی کورٹ کے لیے کام کا دن نہیں ہے۔