نعمت نواز نوالے کہیں عذاب پرور صحت کا سبب نہ بن جائیں

بدن کوغذائی بے ضابطگی سے بچانا حکمت بھی اور شریعت میں مطلوب بھی

نعیم جاوید،سعودی عرب

ایک قول جوانمول ہے کہ ’’اگر تم امن چاہتے ہو تو پہلے جنگ سمجھ لو‘‘ ۔ اسی بنیاد پر اگر تندرستی کی تمنا رکھتے ہو تو گھات میں لگی بیماریوں کے حملے سمجھ لو۔ تندرستی تو جیسے نمبر والا تالا ہے جو بیماریوں کے منہ پر جڑا رہتا ہے۔ اس میں غذا، کسرت اور بہتر عادات شامل ہیں۔ صحت اسی ترتیب کی بنیاد پر اول نمبر پر رہتی ہے جس کے بغیر انسان حیوان بن جاتا ہے۔ اسی لیے کم خوراک کوغذا اور زیادہ کو چارہ کہتے ہیں۔ اسی اختیارپر انسان کی عظمت اور حیوان کی وحشت کا پہلا فرق طئے ہوتا ہے۔انسان کی وحشتوں کی ایک پہچان زیادہ کھانا ہے۔ یہیں پریہ اصول بن جاتا ہے ’’جیسی غذا ویسا دماغ ،جیسا دماغ ویسا خیال ،جیسا خیال ویسا عمل ،جیسا عمل ویسی زندگی‘‘۔
کھانا آوے تو اس طرح ٹوٹے
جیسے کوئی کسی کا گھر لوٹے
انسان گونگی کائنات کو زبان دیتا ہے۔ فطرت کی وحشی قوتوں کے منہ میں لگام دے کر اپنی غلامی کرواتا ہے ۔ لیکن تعجب ہوتا ہے جب وہ اپنی وحشی آرزوں کی چاکری کرتے ہوئے اپنی زبان کے چٹخاروں پر اپنی اچھی بھلی صحت کو نچھاور کرکے اپنی زندگی بھی واردیتا ہے ۔ چٹخاروں کے عوض یہی انسان جب زبان سے جڑا توازن ہارتا ہے تب وہ اپنی جان گروی رکھ دیتا ہے ۔ تب یہ چٹورا پن ایک ساہوکار کی طرح اس کے بدن سے خراج لیتا رہتا ہے۔ کبھی بینائی گھٹا دی، کبھی گردوں میں پتھری کے پہاڑ کھڑے کردیے،کبھی جگر اور لبلبہ میں ہلچل مچا کر شکر کی بیماری دے کر اس سے اس کی طاقت چھین لیتا ہے۔ کبھی سانسیں بہکا کر ، کبھی دھڑکنیں بھٹکا کر بلڈ پریشر دے جاتا ہے اور کبھی کینسر دے کرپورے بدن کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔
انسان کو اپنے کھانے کی طرف غور کرنا چاہیے۔طوفانی ناشتہ، زلزلوں سا دوپہر اور آندھیوں سا عشائیہ ۔ جس کے ہر نوالے کی ہر رہ گزرچربی سے چڑھے ردّوں سے پٹ جاتی ہو۔بندہ ایسے لگتا ہے ’’چیرو تو چار بگھارو تو پانچ ‘‘۔اسی فیصد لوگ خوش خوری، پرخوری بلکہ تادیر خوری کے سبب زندگی بھر خوار ہوتے ہیں۔ اسی لیے لوگ کہتے ہیں۔ اس کا ’’پیٹ ہے یا بے ایمان کی قبر‘‘۔ایک بار ایک ذہین نوکر نے اپنے سیٹھ کے بڑے پیٹ پر مالش کی مستی میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔سیٹھ اس پیٹ میں کیا ہے ؟کہا، غلاظت ہے ۔ پوچھا،صرف آپ کی یا محلہ بھر کی؟
چٹورے لوگ تو جیسے غذا کی پرستش کرتے ہیں۔جیسے خوف کے بندے سانپ کو پوجتے ہیں اسی طرح لوگ بھیڑ بکری اورمرغ کو محبت بلکہ عقیدت کی حد تک اپنے پیٹ میں جگہ دیتے ہیں۔ان کا منہ دیکھو تویوں لگتا ہے جیسے کسی نادیدہ نوالوں کو ترسا ہوا منہ ۔غذائی انبار ہڑپ کرنے والے میری نظر میں روحانی مریضوں کا ایک ریوڑ ہے۔ جنہیں کھاتے ہوئے اس بات کا یقین ہی نہیں ہوتا کہ ان کا پالنے والا رب کل ان کو یہ نعمت پھر ایک بار دے گا۔ اس لیے وہ وحشیوں کی طرح کھائے جاتے ہیں۔
ایک چھوٹا سا چارٹ ہمیں آئینہ دکھا سکتا ہے۔ ایک خاکہ کھینچ کر دیکھیں کہ ہم کس بات کے زیادہ نمبر دیتے ہیں، اگر صفر تا دس نمبروں میں سے دینا ہو ۔بہترین صحت کو اگر ہم دس نمبر دے رہے ہیں تو پھر لذت کو کم کرنا ہوگا یا صحت دینے والی غذاوں میں لذت تلاش کرنی ہوگی۔ اس طرح تندرستی سے جڑے تمام کاموں کو نمبر دیتے جائیں اور اپنی زندگی کے بارے میں ایک سچی رائے قائم کریں تاکہ خود پر قابو پاسکیں۔ شخصی وقار مل ہی نہیں سکتا اگر ہم نے لذت، پرخوری اور اپنی رائے پر غصہ کرلینے کو زیادہ نمبر عطا کردیے
ہم دراصل غذا نہیں کھاتے بلکہ چھری کانٹوں سے اپنی قبریں کھودتے ہیں۔ جب کہ بہتر صحت ہمار ا حق نہیں ہماری ذمہ داری ہوتی ہے ۔کیوں کہ بدن وصحت ایک امانت ہے۔امانت کا سادہ سا تصور یہ ہے کہ اس کی نگرانی کرنا اور ہر دم تیار رکھناکہ مالک جب کہے مہمات کےلیےمطلو ب بہتر صحت لے کر چل پڑنا اور آخر میں بہتر انداز میں اسے لوٹا دینا ۔ جب بدن امانت ہے تو ہم اس کی حفاظت کس طرح کرتے ہیں اسی سوال پر ہم پوری زندگی کا رخ متعین کرسکتے ہیں۔اس کے مالک نے ہمیں یہ اجازت بھی دی ہے ہم اس امانت کو ایک خوبصورت سواری کی طرح برتیں۔اورہم نے کیا کیا؟اس رولز رائس کار میں مٹی کا تیل ڈالا،صنعتی فضلا ڈالا۔ Processed food, frozen food, refined food۔ اور بدن واپس کرتے ہوئے مالک سے شکایت کی کہ کیا بکواس مینو فیکچرینگ ہے۔ اچانک ہی دل پر حملہ ہوگیا اور دماغ پھٹ گیا ، بیماریوں نے گھیر لیا وغیرہ وغیرہ۔ ہر طرح سے کھانا آج کل کھیل و تفریح میں شامل ہوگیا ہے۔یہ Indoor بھی ہے اور out door کھیل بھی ہے۔ جس طرح قومی کھیل، ملکی کھیل ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی ہے۔ ہر کھیل میں جان کا جوکھم بھی مستی اور لذت بھی ساتھ ہوتی ہے۔ ہر جفاکش کھلاڑی اپنی عمر کی آخری منزل میں جوانی کی اذیت ناک مشقت کے سبب جو بوجھ اٹھاتا ہے عمر کے آخری حصہ میں وہ اپنے بدن کے ایک ایک حصہ پر اس کی سزا کا بوجھ ڈھوتا ہے۔
اس مسئلہ کے حل کی تمنا میں ایک انہونی بات سجھائی دیتی ہے جوبظاہر ہے تو مشکل لیکن کاش زندگی کا یہ اصو ل بنے کہ ممالک ایسے ہوں جو صحت کی اساس پر حکومت کریں۔ بہتر صحت پر شہریت دیں اور صحت کے مجرم سے شہریت چھین لیں۔ لاپروا کو شہر بدر کردیں۔ انہیں غذائی دہشت گرد قرار دے کر مشقت وپرہیز کی سزا دیں۔اگر ملک نہ بن سکے تو کم از کم جماعتیں ایسی بنیں کہ پارٹی کی رکنیت چھین لیں۔ دینی ادارے کم از کم سنت رسول پر نہ چلنے والوں کو اونچی کرسیوں سے اتار دیں۔ایسے اسکول اور کالج سے نکال دیں۔کیونکہ نشہ بازوں کی طرح بہکا ہوا ذہن اور بھٹکا ہوا دل ہی بے طرح اور لگاتار کھاتا ہے۔ شدت پسند چٹورے جب لذت کے پیچھے دوڑتے ہیں تو ان کا بدن ان کی بیماریوں کی میزبانی کرتا ہے۔ بدن امراض کا آرزو مندہوجاتا ہے۔ چٹخارے کے جال میں گھرے بندے کے بدن کو موت کی دیمک اس کے خورد بینی خلیوں کو تک چاٹ جاتی ہے۔
زندگی کی رہ گزر پر آسمانی کتابوں اور رب کی آیتوں کے چیک پوائنٹ پر ان لذیذ کھانوں کو پیدا کرنے والا رب جب ہماری عادات وصفات کی تفتیش کرنے کے لیے ٹھہرتا ہے تو ہماری نیتوں کی بھی جھڑتی لے لیتا ہے ۔ وہیں ارادوں کی شناخت پر جیت کا اعزاز عمل سے پہلے ہی دیا جاتا ہے۔
غذا کے انتخاب کے بارے میں ہمیں موجودہ زمانے میں یہ بتایا گیا کہ من وسلویٰ وہی ہے جو خدا کے دسترخوان سے کھائے فیکٹری سے نہیں۔ صنعتی فضلہ نہیں۔ خدا اور بندے کے درمیان کارخانہ حائل نہ ہو۔اگر ایسا ہوجائے تو نہ آگے دل کا دھڑکا ہوگا نہ بی پی کا ہنگامہ ہوگا اور نہ شوگر کی شوخی و شرارت ہوگی ۔کیونکہ آپ دواؤں کے زہر سے آزاد ہو کر رب کی رحمتوں اور قدرت کے رنگ میں رنگنے والے ہوجائیں گے ۔جہاں اصلی غذا ہے وہاں شفا ہے اور بقا ہے ورنہ زہر کھا کر شفا کی تمنا ایسی ہے جیسے بیماریوں کو دعوت دے کر بلانے والے اس سے صحت و شفا کی امید باندھ رکھے ہوں۔ ایسے لوگ تو چلتا پھرتا بیماریوں کا میوزیم یا نگار خانہ بن جاتے ہیں۔خوش خوریوں کا مزہ ہَوا ہوجاتا ہے اور لذتوں کا عذاب رہ جاتا ہے۔
کیا خدا نے اپنی تخلیق میں کوئی کمی رکھی تھی جس کو صنعتیں یا کارخانے اب پوری کررہے ہیں ۔ آپ کے بدن پر آپ کا اختیار ہے اورآپ کے خدا کا اختیار ہے۔ دواوں کی کمپنی اور غلط غذاوں اور لالچ اور بری عادتوں کا نہیں۔پہلے کبھی غذا رب کی عطا ٹھہرتی تھی لیکن آج کا Food Court یا Slaughter house کی اوجھڑی سے بھی زیادہ پراگندہ ہے۔ خدا نے جانوروں کے گلے میں ،درختوں کی شاخوں پر، جھولتے ہوئے پھلوں پر اور ہماری پاکٹوں میں Owner’s Manuals نہیں لٹکائے۔ بلکہ یہ مہم سائنسی شعورکے حوالے کردیا تاکہ سائنسی انکشافات کا خیر مقدم کریں اور الہام رہنمائی سے اپنا دامن بھر لیں ۔ پھل، پودے، دل، دماغ اور ارادے مل جائیں تو آڑی تیڑھی بیماریاں کہاں ٹھہر سکتی ہیں۔ نباتات فطرت کا شہکار ہے۔ کئی آیاتِ قرآنی سائنس کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اگر ہم سر سبز وشاداب رہنا چاہتے ہیں تو اپنے دستر پر تازہ سبزیاں بڑھادیں اور زندگی گھٹاتی
ہوئی دوائیں کم کردیں۔ خونخوار جانور شیر ببر اور چیتے بھی دن میں تین وقت گوشت نہیں کھاتے لیکن ہم کھاتے ہیں۔ یہ دستر ہے یا دہشت گرد غذائی ڈکیت کا پھیلایا ہوا جال ۔خوش خوری، پر خوری اور تادیر خوری کے بعد پیٹ میں اتنی جگہ بھی نہیں رہتی کہ رب کا شکر ادا کرتا ہوا ایک خیال بدن میں اتار سکیں۔ویسے سگریٹ وشراب کی طرح فراوانی کے اس دور میں اب ؐ’’گوشت‘‘ نشہ آور لت بن کر داخل ہو چکا ہے۔ دیکھیں نبی رحمت ﷺ کی ایک بات کیسے ایک عالمی حکمت کے باب میں اضافہ کرتی ہے۔ کہا ’’ہر وہ بات اور چیز جو عقل پر پردہ ڈال دے وہ نشہ ہے‘‘ یعنی ہماری لذت کی تعبیر والی دلیل نشہ اور ہماری غفلت بھی نشہ ہے۔ اسی مقام پر اسی نبی ﷺ سے چند اور جینے کے راز سن لیں فرمایا ’’مومن ایک آنت سے کھاتا ہے، منافق اور کافر سات آنت سے‘‘۔ ’’پیٹ صحت وبیماری کا تالاب ہے‘‘۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ اصول ہمیں Health Certificate دیتی ہیں۔ جہاں ان اصولوں پر سجا نبیؐ کا دستر خوان کوئی مفلس کا کشکول نہیں بلکہ ایک طاقتور شخصیت کی غذا ہے جو بدن کو چربی سے، ذہن کو گمراہی سے بچا کر ہمارے وجود کو صحت کی سوغات بانٹ دے۔
ان طبی تحائف کو شایانِ شان طریقے سے قبول کرنا ہوگا۔ دنیا توانائیاں اور سکون چھین کر عذاب بانٹ رہی ہے اور نبوت شفا تقسیم کرتی ہے۔ اُدھر عذاب ہی عذاب اور اِدھر کردار بھی ہے، افکار بھی ہے اور جنتوں کے افطار بھی۔
غذا تہذیب و کلچر کا جلد ہی حصہ بن جاتی ہے۔کبھی عربوں نے کھانے کی بہتات پر قوموں کی انسانی صحت پر پڑنے والے برے اثرات کو اللہ کا عذاب ٹھہرایا تھا۔اس لیے اس کلچر نے اپنی زبان میں جوع الکلب (کتے کی بھوک) اور جوع البقر (بیل کی بھوک) جیسے الفاظ سے ڈرایا تھا۔ افسوس کہ آج سب کے ساتھ وہ قوم بھی اس عذاب میں گھر چکی ہے۔
کھانے سے پہلے اک لمحہ کے لیے رک جائیں، منہ میں نوالہ رکھنے سے پہلے دیکھیں کہ آپ پستول بھری نالی منہ کی طرف کر چکے ہیں اور بس دانتوں کا tiger دبانے والے ہیں۔ یہ خود کشی، یہ میٹھا زہر آپ سے آپ کے عزائم، جاگتی آنکھوں کے خواب اور خداکی آپ سے جڑی تمنائیں چھین رہا ہے۔
چٹورپن کی اس کارگزاری میں میووں اور سبزیوں کو مجرم مت قرار دیں۔ مجرم موز ،آم ، ٹماٹر اور ہری سبزیاں نہیں ہے بلکہ کئی اور مجرم ہیں جس کی شناختی پریڈ کی ضرورت ہے۔ چند سادہ سے اصول یہ ہیں۔ کھانے سے پہلے بسم اللہ کا زمزمہ ایک استقبالِ عبادت ہے۔ بلکہ ہر دعا استقبالیہ نغمہ ہے بیماریاں اپنے پڑاو اٹھالیں گے۔ جس طرح گورکن وبا میں ہلاک شدہ مردے قبر میں انڈیلتا ہے اسی طرح ہم بھی منہ کے ذریعہ پیٹ کے قبرستان میں اپنی خوراک انڈیلتے ہیں۔ہمارے دانتوں کی تعداد اور سپاٹ سطح یہ بتاتی ہے کہ ہمیں چبانا، پیسنا ہے۔ بدن کا پورا نظام اس بتیس دانتوں کے Grinding پر ٹکا ہوا ہے۔ ویسے ہاضمہ کا عمل نوالے لینے سے پہلے دماغ سے شروع ہوتا ہے۔یہ نوالہ آئے گا میں اس کو چباوں گا کہ نہیں۔ وہیں بدن کی شاہ راہیں ایک نوالے کو نعمت بنانے والا معاون دستہ بھیج دیتی ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ PAVLOV ایک سائنس دان گزرا جس نے ایک دلچسپ تجربہ اپنے کتوں پر کیا تھا۔ کھانے سے پہلے ایک خوش کن گھنٹی کی آواز پر کتے جمع ہوتے پھر انہیں کھانا پروسا جاتا۔ پھر کیا تھا۔ گھنٹی کی آواز پر کتوں کے بدن میں وہ ساری تبدیلیاں شروع ہوتیں جو منہ میں غذا پہنچنے کے بعد ہونی چاہیے تھیں۔ ایسے کامیاب تجربات جانتے ہوئے بھی ہم جانے کیوں چباتے نہیں۔ کیوں جانوروں کی طرح نگلنا ہماری تہذیب کا سفاک طرزِ عمل ہو گیا ہے۔
جس طرح کوئی سفاک مالک بے زبان اور گونگے مزدوروں سے مزدوری کرواتا ہے اسی طر ح ہم اپنے جسم کے بے زبان اعضا سے کام لیتے ہیں۔ ہوس کو ہنٹر، لالچ کو چھڑی اور طبعیت کو وحشت کو حکم دے کر بدن کے نرم ونازک حصوں پر ظلم کرنے کے لیے ہم خود کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ حیرت تو تب ہوتی ہے جب ہم پاوں کے لیے نرم راستے چنتے ہیں پھر نہ جانے کیوں پیٹ کو سنگلاخ راہ گزر سے گزارتے ہیں۔ لذتوں میں لت پت لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بہتر کھانا بہتر کام کی طرح اہم ہوتا ہے۔اس لیے ہر ملک میں پانچ دس کروڑ لوگ ایک ایک مرض کے ساتھ جیتے ہیں۔جیسے وہ ’’مرض شریک‘‘ بھائی بہن ہیں۔
مجید لاہوری کا ایک مزاحیہ گرہ کا شعر دیکھیں ؎
مرغیاں، کوفتے ، مچھلی ، بھنے تیتر ، انڈے
’’کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد‘‘
جس طرح بد زبانی جگ ہارنے اور خوش گفتاری جگ جیتنے کے دو اہم پڑاو ہیں اسی طرح زبان کا بے قابو چٹوراپن بھی ایک اہم امتحان ہے۔ ہم زبان کے Remote Control سے پورے بدن کا جہاز اڑاتے ہیں۔ بلکہ پوری غذائی فیکٹریاں، خوشی اور غم کے کاروبار اس زبان کے زور پر چل رہی ہیں۔ اس زبان میں اتنی زبردست طاقت ہے کہ جب چاہے دورانِ خون کی رفتار کو دھیما کردے تو وہ Low blood pressure بن جائے۔ اگر خون کی شیریانوں میں ادھم مچادے تو High blood pressure بن جائے۔ اس کے بس میں دل کی دھڑکن کے نغمے کو تیز یا کم کرنے کے گُر ہیں۔ یہ جب چاہے بدن کے شہر میں Drainage System میں روڑے اٹکا دے۔گردے کے Filtering center پر پتھروں یا پہاڑ کھڑے کردے۔ آنکھوں کی روشنی بجھادے۔ یہ سب زبان کے ریموٹ Remote Control System کے بس میں ہے۔
ہم کھا کر بھول جاتے ہیں لیکن بدن نہیں بھولتا۔ وہ تو گن گن کر بتاتا اور جتلاتا ہے کہ کہاں کہاں ہم نے حفظانِ صحت کے اصول توڑے ہیں۔ کتنا زہر پھانکا ہے۔ جیسے سڑک کے کنارے بورڈ چیختے نہیں بس ہلکا سا نوٹ لکھا رہتا ہے کہ آگے نہ بڑھو کہ کھائی ہے اور راستہ بند ہے۔ یہ فلسفہ اور تقریر نہیں صرف اشارہ ہوتا ہے۔جس کو ہم رب کی آیت ،سائن بورڈ کہہ سکتے ہیں۔ یہ سلامتی کی راہ زندگی سے بات کرتی ہے۔ اس لیے آگے بڑھو اور زندگی کے ان بہتر اصولوں کو گلے لگا لو۔بیماریوں کی کھوکلی دیوار کو ایک ہلکا سا دھکا دو۔ پھر کھلا راستہ ہے۔ کئی بیماریاں دیوار نہیں صرف دھواں دھواں راستہ ہے۔ اور شیشہ کی نازک دیوار ہے۔ اپنے پانچوں حواس کو اپنے ساتھ لو اور ایک عزم کرو کہ کسرت کے ساتھ جتنا ممکن ہو رب کے دسترخوان سے یعنی پھل، سبزیاں مناسب کچی پکی کھائیں اور فیکٹری کے فضلہ کو جتنا ہوسکے نہ کھائیں پھر دیکھیں کیسے آپ کے بدن میں نور کی ندیاں رواں ہوں گی۔
(مضمون نگار، شخصیت سازی کے ادارہ ’ہدف‘ کے ڈائر یکٹر ہیں
[email protected])
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021