’’قانون مر چکا ہے لیکن ہم ’ڈیتھ سرٹیفیکٹ‘ لے کر جائیں گے۔۔‘‘

مشہور کسان لیڈر راجندر سنگھ دیپ سنگھ والا سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت

افروز عالم ساحل

’پی ایم مودی نے صرف زرعی قوانین کو ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ جو ’مودی دور‘ تھا، اس کے بھی ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ مودی دور کا ’ریورس گیئر‘ اس اعلان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کی جو نفرت کی سیاست ہے، اس کو اس کسان آندولن نے ایک بہت بڑا جھٹکا دیا ہے۔ یہ جو اب تک کسی بھی آندولن کو پینٹ کر دیتے تھے کہ یہ فلاں مذہب کے لوگوں کا آندولن ہے، یہ اب مشکل ہو گا۔ انہوں نے کسان آندولن کو ختم کرنے کے سب کچھ کر کے دیکھا، کبھی خالصتانی کہا تو کبھی ماؤوادی کہا، لیکن یہ ناکام ہوئے۔ ملک کے عام لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ میں آئی کہ ان کا جعلی پروپیگنڈا کیا ہے۔ اس آندولن نے لوگوں کے دماغ میں یہ بات ڈال دی ہے کہ اس فاشسٹ حکومت کو بھی ہرایا جا سکتا ہے۔ مودی کو بھی ہرایا جا سکتا ہے۔ یہ اس آندولن کی سب سے بڑی جیت ہے۔ اس سے حوصلہ پا کر سماج کے ان سبھی طبقوں کو جن کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر اترنا چاہیے۔‘‘

ان خیالات کا اظہار پنجاب کے مشہور کسان لیڈر راجندر سنگھ دیپ سنگھ والا نے کیا۔ وہ کیرتی کسان یونین کے نائب صدر اور سنیوکت کسان مورچہ کے لیڈر ہیں۔ حکومت ہند کے ساتھ کسانوں کی تمام بات چیت میں یہ بھی شامل رہے۔ واضح رہے کہ راجندر سنگھ اس کسان کے اس عظیم احتجاج میں نہ صرف شروع سے شامل رہے، بلکہ زرعی قانون کے نفاذ کی بات سامنے آتے ہی اس کا مطالعہ کرکے اس کی مخالفت شروع کردی تھی۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں راجندر سنگھ دیپ سنگھ والا بتاتے ہیں کہ ’چھبیس نومبر کو تینوں زرعی قوانین کے خلاف اس کسان آندولن کو شروع ہوئے ایک سال پورا ہو جائے گا۔ ایسے میں اس موقع پر پچیس نومبر کو بڑی تعداد میں کسان ٹریکٹروں اور ٹرالیوں کے ساتھ دلی کی سمت مارچ کریں گے اور چھبیس نومبر کو اس آندولن کی سالگرہ منائیں گے۔‘‘

تیس نومبر کو پارلیمنٹ مارچ کا کیا ہوا؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ اس پر اگلے دو تین دنوں میں ہمارا فیصلہ ہو گا۔

اب جبکہ حکومت ہند نے قانون واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے تو مارچ کیوں؟ اس سوال پر راجندر سنگھ دیپ سنگھ والا کہتے ہیں کہ ’مودی سرکار نے تو کبھی یہ بھی کہا تھا کہ آپ کے بینک کھاتوں میں فی کس پندرہ لاکھ روپے آئیں گے۔ لیکن کہاں آئے؟ مودی کے زیادہ تر اعلانات صرف ٹی وی کے لیے ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر اعلان کر دینے سے کہ ہم زرعی قوانین واپس لیتے ہیں، بات نہیں بنے گی۔ اس قانون کو ختم کرنے کا جو قانونی پروسیس ہے وہ پورا ہو گا تبھی ہم اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ یقیناً قانون مر چکا ہے لیکن ہم ’ڈیتھ سرٹیفیکٹ‘ لے کر جائیں گے۔

کسان آندولن کے اپنے تجربے کی روشنی میں راجندر سنگھ دیپ سنگھ والا کہتے ہیں ’’حکومت نے اس ملک کے عوام کو جس جمہوری فضا سے محروم کیا تھا کسان تحریک نے اسے دوبارہ حاصل کیا ہے۔ دوسرا پنجاب و ہریانہ کے کسانوں کی میراث بحال ہوئی ہے۔ تیسرا، ملک کے تمام سیاسی جماعتوں کو یہ آندولن جوابدہ بنانے کی راہ میں ایک قدم آگے بڑھا ہے، ان کو یہ پیغام دیا ہے کہ انہیں لوگوں کے تئیں جوابدہ ہونا ہی پڑے گا۔ چوتھا، ایک فاسسٹ حکومت تھی جو یہ کہتی تھی کہ ’ہندی، ہندو، ہندو استھان۔۔۔‘ اس کو اس آندولن نے روک لگا دی ہے۔ ان کے ’ہندوتوا‘ کے ایجنڈے پر اس کسان آندولن نے بریک لگا دیا ہے۔ ساتھ ہی آنے والے بہت ساری تحریکوں کا بھی اس نے بیج بو دیا ہے۔ یہ اس آندولن کی سب سے خاص بات ہے۔۔۔‘‘

آنے والے کچھ مہینوں میں پنجاب اور اتر پردیش کے ساتھ ساتھ ملک کی کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، کہیں مرکزی حکومت نے اس وجہ سے تو اس قانون کا واپس نہیں لیا ہے؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’یقیناً یہ بھی ایک وجہ رہی ہو گی۔ پنجاب میں تو بی جے پی ایک طرح سے ختم ہو گئی تھی۔ وہ اپنی کوئی سرگرمی انجام نہیں دے پا رہی تھی۔ ہریانہ میں وہ اقتدار میں تھے، پھر بھی کوئی کام نہیں کر پا رہے تھے۔ لوگوں نے سی ایم کھٹر کا ہیلی کاپٹر تک اترنے نہیں دیا۔ چوٹالہ اپنے گھر نہیں جا پا رہے تھے۔ مغربی اتر پردیش میں خاص طور پر لکھیم پور کھیری کے بعد یہ آندولن کافی پھیل گیا تھا۔ ملک میں کئی ریاستوں میں جو ضمنی انتخابات ہوئے ان میں ان کے کئی لیڈر ہار گئے۔ یہ سب کچھ کسان آندولن کی وجہ سے ہوا۔ یہ کسان آندولن کی جیت تھی۔‘

تو کیا اب سمجھ لیا جائے کہ آنے والے انتخابات میں اس قانون کو واپس لینے کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ ہو گا؟ خاص طور سے اتر پردیش اور پنجاب کے کسان دوبارہ ان کی طرف پلٹیں گے؟ اس پر راجندر سنگھ دیپ سنگھ والا کا کہنا ہے کہ ’بی جے پی کی تو یہی کوشش ہے۔ وہ نقصانات کی پابجائی کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی کے تحت پہلے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں کچھ کمی کی گئی، اب زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ مستقبل میں اور کیا ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ سات برسوں میں بی جے پی نے جو اندھیر مچائی ہے، اسے عوام بھولے نہیں ہیں۔ آگے کا ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ یہ تو بس آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس آندولن میں جو سات سو لوگ شہید ہوئے ہیں اور ان پر جو ظلم ہوا ہے، اس کو ہم کبھی بھول نہیں پائیں گے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ احتجاج کے دوران شہید ہونے والے سات سو کسان بھائیوں کو معاوضہ اور گھر کے ایک فرد کو سرکاری نوکری دے۔ اور جو باقی ہمارے مطالبات ہیں جیسے ایم ایس پی پر قانون، الیکٹریسٹی امینڈمنٹ بل وغیرہ، حکومت اس پر بھی ہم سے بات کرے۔ جو مقدمے اس آندولن کے دوران ہمارے لوگوں پر دائر کیے گئے ہیں حکومت جلد از جلد انہیں واپس لے۔ حکومت کو بات چیت کی میز پر آنا ہو گا۔ صرف ٹی وی پر اعلان کرنے سے بات نہیں بنے گی۔

کسانوں کے اس احتجاج سے پہلے اس ملک میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف بھی ایک احتجاج ہوا تھا۔ اس تعلق سے آپ کیا سوچتے ہیں؟ اس پر راجندر سنگھ دیپ سنگھ والا کہتے ہیں، ’اگر حکومت اس ملک میں این آر سی کرانے کی کوشش کرے گی تو ہم اس کے خلاف بھی لڑیں گے۔ حکومت نے تو اس آندولن کو ایک فرقہ وارانہ رنگ دے دیا کہ سی اے اے اور این آر سی صرف مسلمانوں کے خلاف ہے، لیکن ہمارا ماننا ہے کہ یہ ملک کے تمام شہریوں کے خلاف ہے۔

آپ کو این آر سی اور سی اے اے کی کیوں فکر ہے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک کی تقسیم کے وقت ہمارے بزرگ پاکستان سے آئے ہیں۔ اگر میری والدہ کو یہ ثابت کرنا پڑے کہ وہ انڈیا میں پیدا ہوئی ہیں تو انہیں اپنے والدین کے سرٹیفیکٹ کی ضرورت پڑے گی تو وہ لاہور سے کیسے لے کر آئیں گی؟ یعنی وہ یہ ثابت نہیں کر پائیں گی کہ وہ ہندوستان میں پیدا ہوئی ہیں۔ میرا خود کا ’برتھ سرٹیفیکٹ‘ نہیں ہے، ہم لوگ بھی اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے۔ ہم تب بھی سی اے اے قانون کے خلاف تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021