’بہت دیر کی مہرباں آتے آتےکسانوں کے کامیاب تاریخی احتجاج میں سوشل میڈیا کا بھی اہم کردار

متنازعہ زرعی قوانین کے بعد اب سی اے اے، این آرسی کے خاتمے کا مطالبہ

مرکزی حکومت کی نااہلی اور راہل گاندھی کی دور اندیشی پر دلچسپ بحث ومباحثہ
ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے سب سے بڑے کسان آندولن نے مغرور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن یہاں پر ’دیر آید درست آید‘ والا محاورہ چسپاں کرنا انتہائی ناانصافی ہوگی کیونکہ تقریباً گزشتہ ایک سال سے جاری کسانوں کے احتجاج نے بہت کچھ اتار چڑھاو دیکھے جس میں سیکڑوں کسانوں کی جانیں چلی گئیں، لکھیم پور کھیری قتل عام آج بھی تازہ ہے لیکن اس کے باوجود متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف دلی کی سرحدوں پر کسان ڈٹے رہے۔ اس ایک سال میں ان پر نہ جانے کتنے الزامات لگے، نہ جانے کتنے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خالص کسانوں کے احتجاج کو کبھی خالصتانی‌ تو کبھی چینی اور پاکستانی قرار دیا گیا بلکہ اسے ہندو مسلم رنگ بھی دینے کی کوشش کی گئی یہاں تک کہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے داخلے کی بھی بات کی گئی۔ بڑ بولی اداکارہ کنگنا رنوت نے ایک ضعیف خاتون کی تصویر ٹویٹر پر شیئر کر کے پیسوں کے عوض احتجاج کرنے کا الزام لگا دیا تھا۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے کسانوں کو گمراہ بھی کہا گیا تھا۔ لیکن اب خالصتانی، ’دیش دروہی‘، پاکستان اور ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کسانوں کی بہادری، ثابت قدمی اور جذبہ وحوصلہ کے سامنے اقتدار کا نشہ وغرور کافور ہوتا نظر آیا۔ بقول نوح ناروی
ادا آئی جفا آئی غرور آیا حجاب آیا
ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا
ایک رپورٹ کے مطابق سات سو کسانوں کی موت کے بعد انیس نومبر 2021 کو وزیراعظم نے صبح نو بجے تینوں متنازعہ زرعی قوانین کو کالعدم قرار دیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’آج میں پورے ملک کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مہینے کے اواخر میں شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں ہم ان تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کا آئینی عمل مکمل کریں گے‘‘۔ مودی نے ان متنازع زرعی قوانین کی منسوخی کا اعلان کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’ہماری حکومت کسانوں بالخصوص چھوٹے کسانوں کی فلاح اور شعبہ زراعت کے مفاد میں دیہی علاقوں اور غریبوں کے بہتر مستقبل کے لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ قوانین لے کر آئی تھی۔‘ اس اعلان کے بعد سیاسی، سماجی اور قانونی رد عمل کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی گویا ہیش ٹیگس کی آندھی آ گئی ہے۔ حیرت تو تب ہوئی جب بی جے پی کے آئی ٹی سیل اور ’بھگوا دھاریوں‘ نے اس فیصلے کو بھی ’ماسٹر اسٹروک‘ (MasterStroke#) سے تعبیر کرنا شروع کر دیا اور جب ان متنازعہ زرعی قوانین کو لایا گیا تھا تو اس وقت بھی اس اقدام کو تاریخی بتایا جا رہا تھا۔
ٹویٹر اکاؤنٹ ’دی دیش بھکت‘ نے لکھا کہ’’ #?MasterStroke#(ماسٹر اسٹروک؟) نوٹ بندی (Demonetization#) بھولا ہوا ڈراؤنا خواب ہے۔حکومت اب بھی جی ایس ٹی کی شرحوں اور ادائیگیوں کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے۔دفعہ 370 کی وجہ سے کشمیر پہلے سے زیادہ دلی سے الگ ہو گیا ہے۔ کسانوں کی جانب سے کرونی کیپٹلزم (crony capitalism) کی نالش کرنے کے بعد واپس لے لیا گیا۔
سی اے اے اور این آرسی کے حوالے سے اب بھی سالوں میں کوئی اصول نہیں بنائے گئے۔ سب سے مضحکہ خیز Thankyoumodiji #ٹرینڈ کا عام ہونا تھا۔ آخر شکریہ کس بات کا ادا کیا جارہا تھا۔ کسانوں کی موت کا؟ سخت سردی میں احتجاج کرنے کا؟ ان پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جانے کا؟ دلی کی سرحدوں کو سیل کرنے کا؟ کسانوں کو گاڑیوں کے تلے روندے جانے پر خاموشی اختیار کرنے کا؟ یا اس کے اہم ملزم آشیش مشرا کے والد مملکتی وزیر برائے داخلہ اجے مشرا کو اب بھی عہدے پر برقرار رکھنے کا؟ بہر حال مجموعی طور پر حمایت ومخالفت میں مندرجہ ذیل ٹرینڈس عام ہوئے:
FarmLaws#
IStandWithModiJi#
#मोदी_का_घमंड_हारा
FarmLawsRepealed#
ModiLovesKisan#
MasterStroke#
KisanMazdoorEktaZindabaad#
جن پر مختلف مثبت اور منفی رد عمل سامنے آئے۔ معروف خاتون صحافی رعنا ایوب ٹویٹر پر لکھتی ہیں کہ ’’اگر کچھ ہے تو آج ہمیں انتھک احتجاج کی طاقت، اتحاد کی قوت کو تسلیم کرنا چاہیے، جہاں اس ملک کے شہریوں نے ناقابل تسخیر کہے جانے والے حکم رانوں کے فسوں کو چکنا چور کر دیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کے لیے، مسلمانوں کے لیے، دلتوں کے لیے بولا جائے جنہیں ہر روز نشانہ بنایا جا رہا ہے‘‘۔
ایم آئی ایم صدر اسدالدین اویسی نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر اشعار نقل کیے۔
دہن پر ہیں انکے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
مشہور صحافی رویش کمار نے یکے بعد دیگر کئی ٹویٹ کیے۔ وہ ایک ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ’’
کسانوں کو مبارک ہو اور وہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے کسانوں کو دہشت گرد اور ’آندولنجیوی‘ کہا تھا۔ کسانوں نے ملک کو عوام بننا سکھایا ہے جسے پامال کیا گیا۔ آواز دی گئی ہے. گودی میڈیا اب بھی کسانوں کے لیے نہیں بلکہ ’ان‘ کے لیے کسانوں کی بات کرے گا۔ کسانوں نے سمجھا دیا کہ کسانوں کو کیسے سمجھا جاتا ہے‘‘۔
بی جے پی کے بے باک موقف رکھنے والے سبرامنیم سوامی نے مودی حکومت سے سوال کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کیا مودی اب یہ بھی تسلیم کریں گے کہ چین نے ہماری سرزمین پر قبضہ کر لیا ہے اور مودی اور ان کی حکومت چین کے قبضے میں سے ایک ایک انچ واپس لینے کی کوشش کریں گے؟‘‘۔
مشہور کامیڈین کنال کامرا لکھتے ہیں کہ:
’’گجرات جلا کے برباد کرنے والے کی اس بات کے لیے تعریف ہو رہی ہے کہ اس نے مان لیا کہ اس نے گھر جلا کے برباد کیے تھے‘‘۔
مندرجہ بالا کسانوں کے حوالے سے یہ مثبت رد عمل تھے۔ وہیں سنگھی ٹولہ اور آر ایس ایس نظریہ کے حامل صارفین نے ’ماسٹر اسٹروک‘ (MasterStroke#)، اور ’مودی لَوس کسان‘ (ModiLovesKisan#) کے تحت وزیراعظم نریندر مودی کی تعریفیں کیں۔
منیش نام کے صارف لکھتے ہیں کہ ’’یہ جمہوری حکومت تھی تو سر جھکا دیا! ظالم حکومت ہوتی تو ایک بڑا درخت گرنے سے زمین لرز جاتی‘‘۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ہیش ٹیگ کے ذریعے زیادہ تر صارفین نے مودی حکومت پر طنز ہی کیے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر متنازعہ زرعی قوانین کے واپس لیے جانے کی ایک وجہ آنے والے پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات بتائی گئی ہے۔ کہا گیا کہ اسی لیے وقت پر انتخابات ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ چناؤ کے ڈر سے ہی سہی فیصلے عوام کے حق میں لیے جائیں گے۔ بھوپیندر چودھری لکھتے ہیں کہ ”ایک مرتبہ اتر پردیش ہرا دو، یہ تو پرانے نوٹ بھی واپس چلا دے گا‘‘۔
سوشل میڈیا پر طرفدار میڈیا کو بھی خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر آج تک کی اینکر انجنا اوم کشپ خوب ٹرول کی گئیں۔
دوسری طرف شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی بھی صارفین کی بحث کا موضوع بنا۔ ’’خاتون صارف شلپا راجپوت لکھتی ہیں کہ: آج متنازعہ زرعی قوانین واپس لیے گئے کیا اگلی باری شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور دفعہ 370 کی ہے؟‘‘۔
RevokeCAA #
CAANRC#
ٹرینڈ چلنے لگے جس کے تحت اشرف حسین لکھتے ہیں کہ’’سی اے اے کے احتجاج کے دوران بہت سے مظاہرین کی موت ہو گئی اور شرجیل امام سے لے کر عمر خالد تک لوگ اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔ ملک کے مسلمان بھی سی اے اے جیسے قانون کی مخالفت کرتے ہیں، اس لیے حکومت سے اپیل ہے کہ اسے بھی واپس لیا جائے اور تمام مظاہرین کو بھی رہا کیا جائے‘‘۔
بہر حال سوشل میڈیا پر کسانوں کی آواز میں آواز ملانے والے ٹرینڈس میں کبھی بھی کمی نہیں آئی تھی۔ صارفین کسانوں کی آواز میں آوز ملاتے ہوئے ان کے حق میں احتجاج درج کرواتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھگوا ٹولے نے بھی کسانوں کو بدنام کرنے میں خوب محنت کی۔ اگر حمایت کی بات کریں تو چھبیس جون 2021 کو کئی ٹرینڈس منظر عام پر آئے جیسے:
ٹرینڈس قابل ذکر ہیں۔ وہیں آر ایس ایس نواز صارفین نے धरनानहीघटना_स्थ|#جیسے ٹرینڈ چلا کر کسانوں کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی۔ آپ کو یاد ہوگا اسی سال دو فروری کو امریکہ کی نامور گلوکارہ ریانا (Rihanna) نے کسانوں کی حمایت میں محض ایک ٹویٹ کیا تھا۔ انہوں نے کسانوں کے متعلق سی این این کی ایک خبر کو شیئر کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ’’ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں؟‘‘ اس کے ساتھ ہی ریانا نے کسانوں کے احتجاج کا ہیش ٹیگ ‘ FarmersProtest#’ بھی استعمال کیا جس کے بعد ٹویٹر پر
FarmersProtest#
Rihanna#
WorldSupportsIndianFarmers#
IndianFarmersHumanRights#
جیسے ٹرینڈس تیزی کے ساتھ عام ہونے لگے۔ لیکن اس بار ‘ٹویٹر وار’ میں صرف بھگوا ٹولہ اور بی جے پی کی آئی ٹی سیل ہی نہیں بلکہ مرکزی حکومت کے سرکردہ لیڈر، خود وزرات خارجہ سمیت نامی گرامی ہستیوں نے بھی خوب حصہ لیا تھا اور ریانا کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا تھا۔ وہیں صرف کنگنا رناوت (جنکا ٹویٹر اکاؤنٹ بند ہو چکا ہے) ہی نہیں بلکہ کرکٹ اور فلمی دنیا سے وابستہ ایسے لوگ بھی حکومت کی حمایت میں اتر آئے تھے جو ملک کے حالات پر کبھی ایک ٹویٹ بھی کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔
وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گیے ٹویٹر پر
IndiaTogether#
IndiaAgainstPropaganda#
جیسے ٹرینڈز کی حمایت میں سچن ٹندولکر، روہت شرما، کرن جوہر، اکشے کمار، انوپم کھیر، اجے دیوگن، سنیل شیٹی، کیلاش کھیر اور ایکتا کپور جیسے ملک کی نامور شخصیتوں نے اپنا نام درج کروایا۔ حکومت کی حمایت میں کئی شخصیتوں کے ٹویٹ بالکل یکساں تھے یہاں تک کے کسی لفظ میں بھی تبدیلی نہیں دیکھی گئی تھی۔ خاص طور پر اکشے کمار اور سائنا نہوال کے ٹویٹس سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنے تھے۔ واضح ہو کہ معروف سماجی رہنما گریٹا تھنبرگ، سابق اداکارہ واسپورٹس اینکر میا خلیفہ، امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس سمیت دیگر شخصیات کے ٹویٹس کسانوں کے حق میں آنے کے بعد انہیں بہت کچھ کہا گیا۔
اسی سال چھبیس جنوری کو تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ 1952کو جو ٹریکٹر پریڈ نکالا گیا تھا وہ امن کا آئینہ دار تھا مگر اس بار ٹریکٹر پریڈ کو بدامنی کا نشان بنا دیا گیا۔ دلی پولیس کسانوں کو تشدد کا ملزم بتانے لگی جبکہ کسان دلی پولیس پر ہی سارا الزام عائد کرنے لگے۔ بہرحال یوم جمہوریہ کے موقع پر
TractorParadeOn26Jan#
HistoricTractorMarch#
TractorMarchDelhi #
TractorsVsTraitors#
FarmersProstests#
KisanTractorRally#
#26JanDelhiChalo
جیسے ٹرینڈز تیزی سے عام ہوئے۔ اس مرتبہ بہترویں یوم جمہوریہ کے موقع پر سوشل میڈیا میں شہید جوانوں کی قربانی، جنگ آزادی میں لڑنے والے جانبازوں کی بہادری اور دستور ہند کے مسودہ کو ترتیب دینے والوں کی جانفشانی کو یاد کرنے کے بجائے زرعی قوانین کے خلاف دلی میں برپا ہوئے تشدد، لال قلعہ کی فصیلوں پر قومی ترنگے کے مد مقابل سکھوں کے جھنڈوں (نشان صاحب) کا لہرایا جانا اور مختلف مقامات پر پولیس کے لاٹھی چارج اور کسانوں کا پولیس پر حملہ آور ہونا اور اس بیچ ایک کسان کی موت اور سیکڑوں پولیس اہلکاروں کا زخمی ہونا موضوع بحث بنا رہا۔ الغرض ایک طرف کسان احتجاج کے سو دن پورے ہونے پر یوم سیاہ منا رہے تھے اور سات مہینوں کی تکمیل پر ‘کرشی بچاؤ لوک تنتر بچاؤ ‘مہم چلا رہے تھے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر صارفین ان کے حق میں آوازیں بلند کر رہے تھے اور مختلف ٹرینڈس عام کر رہے تھے۔
واضح ہو کہ چھبیس نومبر 2020 سے کسان دہلی کی سرحدوں پر متازعہ زرعی قوانین کے خلاف دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ اس دوران کسانوں کا حقہ پانی بھی بند کیا گیا، وہیں مرکز اور کسانوں کے درمیان کئی مرتبہ بات چیت بھی ہوئی جو بے نتیجہ ثابت رہی۔
یہاں پر مختصراً ذکر کرنا بے حد ضروری ہے کہ بی جے پی حکومت کی طرف سے متنازعہ زرعی قوانین پارلیمان سے منظور کرانے کے بعد سے ملک میں ہنگامہ برپا ہوا تھا حالانکہ وزیر اعظم مودی ان قوانین کو کسانوں کی تاریخی کامیابی بتارہے تھے۔ کسانوں کے احتجاج کے دوران ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لکھا تھا کہ کسانوں کو منیمم سپورٹ پرائز (MSP) میں کوئی بھی مشکل پیش آئے تو وہ سیاست کو ترک کر دیں گے۔ لیکن کسانوں نے اس نئے زرعی قوانین کو کالے قانون سے تشبیہ دیا تھا۔سوشل میڈیا پر چھبیس نومبر کو یوم آئین ConstitutionDay2020 #بھی ٹرینڈ کیا۔ صارفین نے انصاف برابری اور آزادی کے حوالے سے اپنی بات رکھی۔ آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کسانوں کے حق کی بات کی گئی تھی۔
دیکھا جائے تو جب سے زرعی قوانین کے خلاف کسان احتجاج کر رہے ہیں سوشل میڈیا پر کسانوں کا ہی مسئلہ غالب رہا اور باقی تمام چیزیں ضمناً آجا رہی تھیں۔ دس دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ اس موقع پر بھی
جیسے ہیش ٹیگز خوب عام ہوئے اور صارفین نے ان ہیش ٹیگز کے ذریعے کسانوں کی حمایت میں مرکز کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کسانوں کے مظاہرے میں ہندو۔مسلم اتحاد کی جھلک تو دیکھنے کو ملی ہی وہیں کسانوں نے دس دسمبر کو ‘ٹکری’ بارڈر پر انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے جہدکاروں، دانشوروں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی غیر قانونی نظربندی اور گرفتاری کے خلاف نعرے بلند کیے۔
حکومت پر تاجروں اور مالداروں کو بے جا فائدہ پہنچانے کا الزام لگتا رہا اور کسانوں، مزدوروں اور غریبوں کے خلاف پالیسی وضع کیے جانے کی بھی بات کہی جاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دس دسمبر کو سوشل میڈیا پر ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین مکیش امبانی اور پی ایم مودی کے قریبی مانے جانے والے گوتم اڈانی کے خلاف صارفین نے ایک مہم چھیڑ دی۔ اور اس طرح کے
ٹرینڈس کا گویا سیلاب آ گیا۔
اس بار سوشل میڈیا پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی کافی سرخیوں میں رہے۔ ان کی ویڈیو کا ایک حصہ خوب وائرل ہوا۔ چودہ جنوری 2021 کا وہ ویڈیو خود راہل گاندھی نے دوبارہ شیئر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ”میرے الفاظ گرہ سے باندھ لو، زرعی قوانین واپس لینے پر حکومت مجبور ہوگی”۔ ایک خاتون صارف اہانا پاٹھک لکھتی ہیں کہ” وزیراعظم تو نریندر مودی ہیں مگر آخر کار ہوتاہے وہ جو راہل گاندھی کہتے ہیں” اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی جب سے حکومت میں آئی ہے تب سے وہ اپوزیشن کی جڑیں کاٹنے میں لگی ہوئی ہے اور اس کے لیے وہ ہرطرح کے حربے اپناتی ہے۔ راہل گاندھی کے لیے ‘پپو’ جیسے لفظ کو گھڑ کر انہیں ناکارہ ثابت کرنے میں سوشل میڈیا پر پوری ٹیم لگا دی گئی۔ بہر حال کسانوں کا احتجاج اب بھی جاری ہے۔ اب ملک کو آنے والے پارلیمنٹ کے اجلاس کا انتظار ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021