مستقل مزاجی اور مداومت

استقلال کے بغیرکسی کام کو حسن انجام تک نہیں پہنچا یا جاسکتا

مولانا یوسف اصلاحی

حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ان کے پاس نبی ﷺ تشریف لائے۔ اس وقت ان کے پاس ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ حضرت عائشہؓ نے بتایا کہ یہ فلاں خاتون ہیں جن کی کثرت نماز کا بڑا چرچا ہے آپ نے فرمایا چھوڑو بھی! تم پر اتنی ذمہ داری ہے جتنی تم بآسانی کر سکو، اللہ کی قسم اللہ نہیں اکتاتا جب تک تم نہ اکتا جاو۔ اللہ کو وہی دین و اطاعت زیادہ پسند ہے جس کو مداومت کیا ساتھ کیا جائے‘‘۔
کسی عمل کو مداومت کے ساتھ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی مستقل مزاجی کے ساتھ اس کام کو برابر کرتا رہے اور کبھی ترک نہ کرے۔ دنیا کے کاموں میں بھی آدمی کو مستقل مزاج ہونا چاہیے، مستقل مزاجی کے بغیر دنیا کے کام بھی حسن انجام تک نہیں پہنچتے۔ لیکن دینی کاموں میں تو یہ انتہائی ناگزیر ہے، اس لیے کہ کوئی دینی کام کرتے کرتے آدمی ایک قلم اس کو چھوڑ بیٹھے، یا تسلسل اور پابندی نہ کرے یا اس کے کرنے میں پہلا سا جوش خروش باقی نہ رہے تو انتہائی فکر وتشویش کی بات ہے، یہ کوئی معمولی کوتاہی نہیں ہے جس پر ہم صرف افسوس کرکے مطمئن اور خاموش ہو جائیں بلکہ یہ ایک بہت بڑا روحانی حادثہ ہے، ایسا حادثہ، جس نے آدمی کا رخ بدل دیا ہے اور ایسی روحانی بیماری ہے جس نے انسان کے دینی ذوق و مزاج کو بدل ڈالا ہے۔
غور کیجیے کہ ایک آدمی خدا کی عبادت یا نیکی کا کوئی کام کیوں کرتا ہے، اس سوال کا صرف ایک ہی جواب صحیح ہےکہ اس کا خدا سے تعلق ہے۔ اگر خدا سے تعلق کے بغیر وہ خدا کی عبادت یا نیکی کا کوئی کام کر رہا ہے تو وہ سرے سے عبادت یا نیکی ہے ہی نہیں، کسی بھی انسان کی عبادت یا نیکی اسی وقت عبادت یا نیکی ہے جب اس کی بنیاد خدا سے تعلق ہو جب کوئی بندہ کسی نیک کام کو کرتے کرتے چھوڑ بیٹھتا ہے یا عبادت کرتے کرتے ترک کردیتا ہے تو یہ ترک عمل اور اضمحلال پتہ دیتا ہے کہ بندے کا خدا سے تعلق ٹوٹ گیا ہے یا کم از کم کمزور پڑ گیا ہے، اور خدا سے تعلق کا ٹوٹنا یا کمزور ہونا ایک معمولی کوتاہی نہیں ہے بلکہ روحانی زندگی کا سب سے بڑا ہلاکت خیز حادثہ ہے۔ اس تعلق کے ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کی روحانی موت ہوگئی ہے، اور اس پر کم از کم ایسا ہی غم اور ماتم ہونا چاہیے جیسا غم اور ماتم ایک شخص کی جسمانی موت پر ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
اس لیے خدا کے رسول نے بڑی حکیمانہ بات فرمائی ہے کہ عمل کی کثرت مطلوب نہیں ہے بلکہ عمل پر مداومت مطلوب ہے، دین میں وہی مطلوب ہے جو انسان مستقل مزاجی سے برابر کرتا رہے اور کبھی اس کو چھوڑے نہیں، اس لیے جب حضرت عائشہؓ نے آپ کے سامنے اس خاتون کا ذکر کیا جو کثرت سے نمازیں پڑھتی تھی، اور اس کی کثرت نماز کی بڑی شہرت اور تعریف ہورہی تھی تو آپ نے کوئی کلمہ تحسین نہیں کہا نہ اس کے اس کثرت عمل کی تائید فرمائی بلکہ فرمایا، عائشہ! رہنے بھی دو، اللہ نے تم پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ڈالی ہے جو تم کرسکو، انسان اسی عمل کو مستقل مزاجی کے ساتھ برابر کرتا رہے گا جو اس کی قوت برداشت سے زیادہ نہ ہو، جس میں اعتدال ہو، جس کو وہ اپنی تمام دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ بسہولت ہمیشہ نباہ سکتا ہو، پھر فرمایا، اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا، انسان خود اکتا جاتا ہے۔ پوری دنیا مل کر ہمہ وقت ذکر وفکر کے شور سے پوری فضائے آسمانی کو بھردے تو اللہ کی عظمت وکبریائی کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت ہے۔ اللہ کے اکتانے کا کیا سوال، اللہ کے بارے میں یہ تصور اس کی عظمت وکبریائی سے ناواقفیت کی دلیل ہے کہ وہ فضل واحسان فرماتے فرماتے اور اجر وصلہ دیتے دیتے اکتا جائے گا۔ وہ نہیں اکتاتا بلکہ انسان خود اکتا جاتا ہے اور اس عمل کے تسلسل کو برقرار نہیں رکھ پاتا جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو یا جس کا محرک کوئی ہنگامی جوش وجذبہ ہو۔ ہاں انسان تسلسل کے ساتھ کسی ایسے عمل سے ضرور اکتا جاتا ہے جو اس کی سکت سے زیادہ ہو جس میں اعتدال نہ ہو اور جس میں انسان کی انسانی ذمہ داریوں کے ساتھ اس کی سہولت پیش نظر نہ ہو۔
پسندیدہ دین واطاعت وہی ہے جس کو مستقل مزاجی کے ساتھ انسان برابر انجام دیتا رہے اور کبھی ترک نہ کرے، حضرت عائشہؓ ہی کی ایک دوسری روایت یوں ہے: اللہ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جو استقلال کے ساتھ برابر کیا جاتا رہے۔ اگرچہ وہ تھوڑا ہو‘‘ (بخاری ، مسلم)
مستقل مزاجی سے نیک عمل کرتے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا خدا سے تعلق قائم ہے اور اس میں کوئی اضمحلال اور کمزوری پیدا نہیں ہے۔ وقتی جذبے اور ہنگامی جوش کی بنیاد پر جو عمل یا ہنگامہ کیا جاتا ہے اسے استقلال حاصل نہیں ہوتا، قدرتی طور پر ایسا عمل دیرپا نہیں ہوتا نہ اسکے نتائج دور رس ہوتے ہیں، ہنگامے کے بعد طویل خاموشی لازمی ہے اور یہ طویل خاموشی اس تعلق کو بھی صدمہ پہنچاتی ہے جس تعلق کی بنا پر وہ نیک عمل کیا جا رہا تھا اور جو تعلق انسان کی سب سے زیادہ عزیز متاع ہے۔
حضور ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن عمروؓ کو ہدایت دی کہ اے عبداللہ! فلاں آدمی کی طرح نہ ہوجانا، وہ رات میں تہجد کے لیے اٹھا کرتا تھا پھر اس نے یہ عمل چھوڑ دیا ‘‘ (بخاری ، مسلم)
فرائض ادا کرتے کرتے اگر آدمی فرائض ترک کردے تو سمجھ لیجیے کہ اس کا تعلق خدا سے ٹوٹ گیا ہے یا برائے نام رہ گیا ہے اور نوافل ادا کرتے کرتے اگر آدمی چھوڑ بیٹھے تو سمجھ لیجیے کہ خدا سے اس کا تعلق نہایت کمزور اور مضمحل ہوگیا ہے اور کوئی مومنِ مخلص یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ اپنے پروردگار سے اس کا تعلق کمزور اور مضمحل ہو۔
حضرت عائشہؓ ہی کی روایت ہے کہ ’’کبھی کسی دکھ درد کی وجہ سے اگر نبی ﷺ کی شب کی نماز رہ جاتی تھی تو آپ اس کی تلافی کے لیے دن میں بارہ رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے‘‘۔ (مسلم)
استقامت، استقلال اور مداومت کی دین میں بڑی اہمیت ہے، اسی لیے قرآن میں بھی اس کی زبردست تاکید ہے۔ فاستقم کما امرت، ڈٹے رہیے اس دین پر جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔
اِلَّا الْمُصَلِّیْنَۙ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ ( معارج ۔۲۲،۲۳)
مگر وہ مستقل نمازی جو اپنی نمازوں میں مداومت قائم رکھتے ہوں۔
یعنی التزام، تسلسل اور پابندی کےساتھ ہمیشہ نماز پڑھنے والے ان کمزوریوں سے پاک ہوتے ہیں جو ان لوگوں کے اندر پائی جاتی ہیں جو ایمان ونماز سے محروم ہوتے ہیں، دوسری جگہ کہا گیا ہے
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ(معارج ۔۳۴)
اور کامیاب ہوگئے وہ مومنین جو اپنی نماز کی محافظت کرتے ہیں
محافظت میں بنیادی طور پر یہ بات شامل ہے کہ وہ التزام اور مستقل مزاجی کے ساتھ برابر نماز پڑھتے رہتے ہیں نہ کبھی ترک کرتے ہیں اور نہ ناغہ کرتے ہیں۔
انسان جب بھی اپنی سکت سے زیادہ اپنے اوپر بوجھ لادے گا اور اعتدال وسہولت کو نظر انداز کرے گا وہ اس عمل میں استقلال و مداومت برقرار نہ رکھ سکے گا۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ مسجد کے دونوں ستونوں کے بیچ میں ایک رسی ٹنگی ہوئی ہے آپ نے دریافت فرمایا یہ رسی کیسی ہے لوگوں نے بتایا کہ یہ رسی حضرت زینبؓ کی ہے کہ جب وہ ذرا سستی اور تھکاوٹ محسوس کرتی ہیں تو اس رسی میں لٹک جاتی ہیں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’کھول دو اس رسی کو تم میں سے کوئی ہو اسی وقت تک نماز پڑھتا رہے جب تک نشاط اور آمادگی رہے اور جب ذرا کسل اور سستی محسوس ہونے لگے تو سو جائے (متفق علیہ)
شاعر نے کیا اچھی بات کہی ہے
جنون وفا مستقل چاہیے
ذرا دیر کا درد سر کچھ نہیں
(ماخوذ: شمع حرم)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021