موہن بھاگوت سے مسلم دانشوروں کی پراسرارملاقات

نور اللہ جاوید

کیا آرایس ایس ملک کی سلامتی کی خاطر مسلم اقلیت کے تئیں اپنے نظریات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہے؟
تکثیری معاشرہ میں ملاقاتیں اور مذکرات پرامن ماحول کے قیام کے لیے ضروری ہیں، اس کے بغیر تکثیری معاشرہ میں امن و امان کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کسی ایسے معاشرے میں جہاں مختلف عقائد، فکر ونظریات، زبان اور تہذیب وتمدن کے حاملین رہتے ہوں وہاں اختلافات اور ایک دوسرے کے تئیں بدگمانیاں پیدا ہونا فطری بات ہے۔ بقائے باہم اور پرامن ماحول کے لیے اصول و ضوابط اور قوانین طے کیے جاتے ہیں اس پر تمام طبقات کو عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔مدینہ منورہ بھی ایک تکثیری معاشرہ تھا۔جہاں مشرکین، یہودی اور نومسلم آباد تھے۔اس کے علاوہ مختلف قبائل اور خاندان تھے جن کے درمیاں برسوں سے اختلافات اور دشمنیاں تھیں۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے مدینہ پہنچتے ہی بقائے باہم اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔اس کے ساتھ پرامن معاشرہ اور ماحول کے لیے کچھ اصول و ضوابط مرتب کیے۔تاریخ میں ان کوششوں کو ’’میثاق مدینہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ میثاق دنیا بھر کے تکثیری معاشروں کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمان ہجرت کرکے گئے وہ اپنی شناخت اور وجود کو اکثریتی معاشرہ میں ضم کیے بغیربقائے باہم اور پیار و محبت کے ساتھ اس معاشرہ کا حصہ بن گئے ۔بر صغیر میں مسلمانوں کی آمد اور پھر سات صدیوں تک حکمرانی کے دوران مسلمانوں نے ’’میثاق مدینہ‘‘ کی روح کو زندہ رکھا۔چنانچہ مسلم حکمرانوں کے طویل دور حکمرانی میں چند واقعات کو چھوڑ کر بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات رونما نہیں ہوئے یا پھر کسی بھی کمیونیٹی کا قتل عام نہیں ہوا ۔انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو جان بوجھ کر اور خاص پالیسی کے تحت نقصان پہنچایا گیا جس کا تدارک آج تک نہیں ہوسکا ہے۔ہندوستان کی آزادی کو 7 دہے مکمل ہوچکے ہیں لیکن اس وقت ہندوستانی معاشرہ فرقہ واریت اور ملک کے دوبڑے مذہبی طبقات کے درمیان نفرت انگیز کی مہم کی وجہ سے جس طرح سے تقسیم کا شکار ہے وہ صورت حال تقسیم ہند کے وقت بھی نہیں تھی۔ملک کی آزادی کے بعد قومی سطح پر ایسے لیڈر موجود تھے جنہوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے جذبے کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کو ناکام کیا اور بھارت کو مشترکہ مقاصد اور احترام انسانیت کی راہ پر گامزن رکھا لیکن اب بقائے باہم، احترامِ مذاہب اور یکساں سلوک جو بھارتی معاشرہ کا طرہ امتیاز تھا اسے گہن لگتا جا رہا ہے۔ بھارتی معاشرہ تصادم کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مذہبی منافرت معاشرے کی نچلی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کو تباہ و برباد کر دینے والی تمام برائیاں اس وقت بھارتی معاشرے میں سرایت کرتی جا رہی ہیں۔بھارت میں فرقہ واریت اور تناؤ کے اثرات اب بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔ اس ہفتے برطانیہ کے شہر لیسٹر اور گزشتہ مہینے امریکی شہر نیو جرسی کے سڑکوں پر تشدد اور فرقہ وارانہ نفرت انگیز مہم کے جو واقعات رونما ہوئے ہیں اس کو بھارت کے معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کے عکس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ان حالات میں ملک کے دو بڑے مذہبی طبقات کے درمیان نفرت اور سماجی دوریوں کو خاتمہ کرنے کی کوئی بھی کوشش قابل خیر مقدم ہے۔
ملک میں نفرت انگیز ماحول اور دو مذہبی طبقات کے درمیان دوریوں کے خاتمے کے لیے 22 اگست کو آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پانچ مسلم دانشوروں نے ملاقات کی۔ اگرچہ اس ملاقات کی خبروں کو ایک مہینے تک چھپا کر رکھا گیا اور یہ خبر اس وقت تک عام نہیں ہوئی جب تک موہن بھاگوت نے نئی دہلی میں واقع ایک مسجد اور مدرسے کا دورہ نہیں کیا۔ آر ایس ایس کے کسی بھی سربراہ کا مسجد اور مدرسے کا یہ پہلا دورہ تھا اس لیے میڈیا پر اس کی بڑے پیمانے پر کوریج ہوئی اور پذیرائی کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے والے دانشوروں کے مختلف پلیٹ فارمس پر انٹرویوز آرہے ہیں جس میں اس ملاقات کے مقاصد اور اس کی ضرورت پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔ ویسے آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک سے مسلم دانشوروں اور علما کی یہ کوئی پہلی ملاقات نہیں ہے۔اس سے قبل موہن بھاگوت سے ہی جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے بھی ان کے دفتر میں ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد بھاگوت نے مشہور مبلغ مولانا کلیم صدیقی اور دیگر مسلم رہنماؤں سے اترپردیش اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل ملاقات کی مگر اس ملاقات کے چند دنوں بعد ہی مولانا کلیم صدیقی کو تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ گزشتہ ایک سال سے وہ جیل میں بند ہیں۔ موہن بھاگوت سے قبل سدرشن کے دور میں بھی جمعیۃ علمائے ہند کے سابق صدر مولاناسید اسعد مدنی مرحوم نے ان سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس سے بہت قبل ایمرجنسی کے دور میں جیل میں قید کے دوران جماعت اسلامی ہند کے قائدین اور وابستگان ’سنت یوسفی‘ کی یاد تاز ہ کرتے ہوئے آر ایس ایس کے لیڈروں کے ساتھ رابطے میں آئے تھے جہاں وہ انہیں اسلامی لٹریچر و تراجم قرآن بطور تحفہ پیش کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے قائدین کی دعوتی کوششوں کے مثبت اثرات مرتب ہوئے تھے۔
حالیہ برسوں بالخصوص 2014ء میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔ بابری مسجد کے سانحہ کے بعد اگرچہ کئی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، مسلمانوں کے جان ومال کو شدید نقصان پہنچایا گیا اس کے باوجود بھارتی معاشرہ اس قدر تقسیم کا شکار نہیں تھا۔ قومی میڈیا نے اس سانحہ پر کھل کر بی جے پی اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کی سخت تنقید کی تھی۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو دنیا کے دوسرے ممالک سے بھارت کو الگ کرتی ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ بھارت میں کبھی بھی ہٹلر کی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی، مگر آج صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ عالمی تنظیمیں اور ان کی رپورٹیں مسلسل ان خطرات سے آگاہ کر رہی ہیں اس کے باوجود ملک کی سول سوسائٹی کی اکثریت پوری قوت کے ساتھ نفرت انگیز مہم کے خلاف کھڑی نہیں ہو رہی ہے جس کی ان سے توقع تھی۔ نفرت انگیز حالات پر شدید تنقید کرنے والے دانشوروں اور مفکرین نے یا تو اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں یا پھر وہ اس مہم کا حصہ بن گئے ہیں۔ میڈیا بذات خود نفرت انگیز ی کا آلہ کار بن گیا ہے۔سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اس ہفتے میڈیا اور نیوز چینلوں کے اینکروں کے رویے پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔
عالمی وبا کے دوران تبلیغی جماعت کے خلاف مہم، بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم اور نوپور شرما اور دیگر بی جے پی لیڈروں اور آر ایس ایس اور دیگر دائیں بازو کی مختلف تنظیموں کے ذریعہ مسلسل مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو عالمی بستی میں تبدیل کر دیا ہے۔یہاں کے نفرت انگیز حالات کا دنیا بھر مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی ناراضگی پھیل رہی ہے۔ خلیجی عوام کی نگاہوں میں بھارتی شہریوں کی وہ عزت نہیں رہی جو چند سال قبل تک تھی۔خلیجی ممالک میں پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں کے مقابلے میں ہندوستانی شہریوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔ مگر صورت حال تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ایک طرف ہم وشو گرو بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف ہمیں ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو سماجی طور پر بکھراو کا شکار ہے ۔آسام سے لے کر کشمیر تک مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کے معاملات بین الاقوامی پلیٹ فارمس پر اٹھائے جارہے ہیں۔ عیسائی کمیونیٹی کی بھی اپنی تشویش ہے وہ بھی مسلسل نشانے پر ہے ۔دنیا بھر سے ہمارے حالات پر جو تبصرے اور بیانات آرہے ہیں اس نے حکومت ہند اور آر ایس ایس کو جو بی جے پی کی سرپرست ہے فکر مندی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اگر صورت حال یونہی باقی رہی تو بھارت کا شمار بھی میانمار اور شمالی کوریا جیسے ممالک میں ہونے لگے گا۔ وشو گرو بننے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ نوپور شرما کے ایپی سوڈ کے بعد بی جے پی کی کارروائی، پارٹی ترجمانوں کو تحریری ہدایات اور آر ایس ایس کی مسلم دانشوروں سے ملاقات کو اگر حالات کے جبر کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے تو اس کے پیچھے یہی ٹھوس حقیقت ہے۔
آر ایس ایس مسلم لیڈروں سے ملاقات کے ذریعہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟
2004ء میں انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں جماعت اسلامی ہند کے وفد کی سدرشن سے ملاقات اور اس کے بعد 2019ء میں جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی موہن بھاگوت سے ملاقات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ملک میں نفرتوں کا بازار اسی طرح گرم رہا۔ مولانا کلیم صدیقی کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک سے ان پانچ مسلم دانشوروں کی ملاقات کتنی نتیجہ خیز ثابت ہو گی؟ایس وائی قریشی، نجیب جنگ،صحافی شاہد صدیقی اور جنرل ضمیرالدین شاہ نے مختلف میڈیا پلیٹ فارمس پر آکر اپنی اس ملاقات کے مقاصد بیان کیے ہیں کہ وہ مکالمہ شروع کرنا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ بلاشبہ بات چیت کے ذریعہ ہی حالات تبدیل ہو سکتے ہیں مگر اس کے لیے طرفین میں خلوص نیت ہونا ضروری ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جنرل ضمیر الدین شاہ جنہیں فوجی آفیسر کی حیثیت سے گجرات فسادات میں حالات سنبھالنے کے لیے بھیجا گیا تھا ان کی خود نوشت ’’سرکاری مسلمان‘‘ کو بہت شہرت ملی تھی۔ اس کتا ب میں اور گجرات فسادات کے 20 سال مکمل ہونے پر راقم الحروف کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہ نے کہا تھا کہ گجرات کی حکومت اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی بروقت گاڑی اور دیگر سہولتیں فراہم کر دیتے تو گجرات میں اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام نہیں ہوتا۔ ضمیرالدین شاہ اس ملاقات سے متعلق کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دوستوں سے ملک کے حالات سے متعلق گفتگو کی اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کا حل صرف بات چیت کے ذریعہ ہی نکل سکتا ہے۔ شاہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک کے حالات سے کوئی اگر موثر طریقے سے نمٹ سکتے ہیں تو وہ وزیر اعظم مودی ہیں یا پھر موہن بھاگوت ہیں۔اس لیے ان لوگوں نے بھاگوت سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کرنے کے بجائے بھاگوت سے ملاقات کو کیوں ترجیح دی؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ ایک مہینے کی خاموشی اور اس کے بعد ملاقات پر وضاحتیں بتاتی ہیں کہ ملک کے حالات کے حل کے لیے ان پانچ مسلم دانشوروں کے پاس کوئی ٹھوس ایجنڈا نہیں تھا۔ ان کے بیانات بتاتے ہیں وہ سنگھ کی قوت اور طاقت سے متاثر ہیں۔
لکھنو یونیورسٹی کے پروفیسر روی کانت کہتے ہیں ’’پولیٹیکل سائنس کی ایک تھیوری ہے کہ ’’غلاموں کو یہ احساس دلایا جائے کہ ان کے آقا بہت اچھے انسان ہیں تاکہ یہ غلام آزادی سے متعلق سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں‘‘ دراصل پولیٹیکل سائنس کی اسی تھیوری کو مسلمانوں پر نافذ کیا جا رہا ہے۔ ان مسلم دانشوروں کو ’’گئوگشی، کافر اور جہاد‘‘ پر وضاحتیں دینے سے قبل خود موہن بھاگوت سے سوال کرنا چاہیے کہ ساورکر کے نظریات سے متعلق وہ کیا کہیں گے جس میں مسلم خواتین کی عصمت دری کی بات کی گئی تھی۔ ان نظریات پر کیا کہیں گے جس میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی بات کہی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ سو سالوں میں آر ایس ایس نے ملک کے سامنے اقلیتوں کے تعلق سے جو سوچ اور نظریہ پیش کیا ہے کیا اس میں اس نے کچھ تبدیلی لائی ہے؟ کیا موہن بھاگوت اپنے ماضی کے بیانات سے دستبردار ہوں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس طرح کی ملاقاتوں پر اٹھتے رہیں گے۔
22 ستمبر کو دہلی کی ایک مسجد اور آزاد مارکیٹ کے ایک مدرسے میں موہن بھاگوت کا دورہ یقیناً ایک بڑی خبر ہے مگر کیا یہ مراتھن نتیجہ خیز بھی ثابت ہوں گے؟ ان ملاقاتوں سے آر ایس ایس کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ اس پر نہ بھاگوت اور نہ ہی آر ایس ایس لیڈر روشنی ڈال رہے ہیں بلکہ ان سے ملاقات کرنے والے وضاحتیں دے رہے ہیں۔ اب تو الیاسی نے بھاگوت کو راشٹر پتا تک قرار دے دیا ہے۔ مگر سوال اب بھی باقی ہے کہ آخر آر ایس ایس ان ملاقاتوں کے ذریعہ کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔ پروفیسر روی کانت کہتے ہیں کہ آر ایس ایس بھلے ہی خود سے متعلق یہ کہے کہ وہ سماجی تنظیم ہے مگر اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ ایک سیاسی تنظیم ہے اور وہ بی جے پی کے ذریعہ اپنے سیاسی عزائم و مقاصد کو پوار کرنا چاہتی ہے۔ دراصل ہندتوا کی سیاست اپنی بلندی کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے نام پر جو سیاست کرنی تھی وہ ہو گئی ہے اور ہندتوا کے ایجنڈے کے نام پر زیادہ دنوں تک بہت کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ چند سال قبل تک بی جے پی اعلیٰ طبقے کی پارٹی کہلاتی تھی مگر اس نے بہت ہی ہوشیاری سے بیک ورڈ کلاسیس اور دلتوں میں اپنی پکڑ مضبوط بنا کر سماجی انصاف کی جدوجہد کا ہی خاتمہ کر دیا ہے۔ نتیش کمار کی قیادت والی جنتادل یو، ہریانہ میں چوٹالہ اور پنجاب میں اکالی دل جیسی جماعتوں کے این ڈی اے سے علیحدہ ہو جانے کے بعد سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتیں ایک بار پھر متحد ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے پس ماندہ طبقات کے ووٹرس کا منھ بھنگ ہو سکتا ہے۔ اس کی بھرپائی کے لیے مسلمانوں میں بھرم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں ہی منقسم رکھا جائے۔ آسام میں مقامی اور غیر مقامی کے نام پر تقسیم کیا جا چکا ہے اور اب ملک کے دیگر حصوں میں پسماندہ وغیر پسماندہ، شدت پسند مسلمان بنام لبرل مسلمان کے نام پر بھرم پھیلانے کا ایک منظم منصوبہ بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
صرف مسلمانوں سے ہی تبدیلی کا مطالبہ کیوں؟
پانچ مسلم دانشوروں سے ملاقات سے متعلق انگریزی اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے لکھا ہے کہ موہن بھاگوت نے ان مسلم دانشوروں سے ملاقات کے دوران گئو کشی، جہاد اور کافر کے لفظ کے استعمال پر وضاحت طلب کی۔اخبار نے لکھا ہے کہ ان مسلم دانشوروں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود گئو کشی کے خلاف ہیں اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کے حق میں ہیں۔ان مسلم دانشوروں نے کافر کے لفظ کے استعمال پر بھی وضاحت پیش کی۔ انڈین ایکسریس کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے وفد میں شامل ایک شخص نے موہن بھاگوت سے پوچھاکہ ’ہندو کیسے ’کافر‘ ہو سکتے ہیں؟ وہ بھی تو خدا کو مانتے ہیں۔ مسلم دانشوروں نے لفظ ’’جہاد‘‘ کے بارے میں موہن بھاگوت کو بتایا کہ وہ کبھی اس لفظ کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ مسلم دانشوروں نے بتایا کہ جہاد کی تشریح غلط نیت سے کی جا رہی ہے۔ مسلم دانشوروں کا کہنا تھا کہ اس لفظ کا اصل مطلب خود کو بہتر کرنے کے لیے اپنے اندر کی کوشش ہے۔ اس طر ح کے مضحکہ خیز مطالبے کوئی پہلی مرتبہ نہیں کیے گئے ہیں۔
جون 2022ء میں آر ایس ایس کے سینئر لیڈر اور تھنک ٹینک کے طور پر مشہور رام مادھو نے ایک طویل مضمون لکھا جس میں انہوں نے ہندوستان میں امن و امان کے قیام کے لیے مسلمانوں سے تین مطالبات کیے تھے۔ پہلا امت کے تصور کو ترک کرنا تھا۔ دوسرا 700 سالوں تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلم حکمرانوں سے قطع تعلق کا اعلان کرنا تھا اور تیسرا لفظ ’کافر‘ کا استعمال کرنا چھوڑنا تھا۔ رام مادھو نے اپنے طویل مضمون میں اس بات کا اعادہ کیا کہ اس ملک کے ہندوؤں کو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، زکوۃ دینے اور حج کرنے پر کوئی اعتراص نہیں ہے۔ 2004ء میں جماعت اسلامی ہند کے وفد نے جب سابق امیر جماعت مرحوم ڈاکٹر عبدالحق انصاری کی قیادت میں انڈیا انٹر نیشنل سنٹر میں ملاقات کی تھی اس وقت بھی سدرشن نے انہی مطالبات کو دہرایا تھا۔ وفد میں شامل ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ڈاکٹر عبد الحق انصاری نے ان کے تمام سوالوں کا مدلل جواب دیا تھا۔ اس کے بعد سدرشن سے کہا تھا کہ ہمارے بھی کچھ مطالبات ہیں۔ کیا آر ایس ایس مسلمانوں سے متعلق اپنے غلط نظریات، مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے اور ساورکر و دیگر آر ایس ایس لیڈروں کے مسلمانوں سے متعلق بیانات سے دستبرداری کا اعلان کرے گی؟ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر عبدالحق انصاری نے اپنے مطالبات پیش کیے تو سدرشن نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ اس پر اگلی نشست میں بات کی جائے گی مگر پھر اس اگلی نشست کا موقع کبھی نہیں آیا۔
ڈاکٹر قاسم رسول الیاس سوال کرتے ہیں کہ جب مسلم دانشوروں کی ملاقات گزشتہ مہینے 22 اگست کو ہوئی تھی تو پھر کس ایجنڈے کے تحت اس ملاقات کو خفیہ رکھا گیا تھا؟ ملاقات سے قبل مسلم تنظیموں اور جماعتوں اور لیڈروں سے رابطہ کیوں قائم نہیں کیا گیا اور اس کے لیے مشترکہ حکمت عملی کیوں نہیں بنائی گئی؟ کیا ان مسلم دانشوروں کو بھاگوت سے سوال نہیں کرنا چاہیے تھا کہ آپ نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ہر مسجد میں شیولنگ کی تلاش نہیں کی جائے گی اس کے باوجود ہندتوا کی تنظیموں سے وابستگان گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کو متنازع بنانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ مسلمانوں کی نسل کشی، حجاب پر پابندی، پیغمبر اسلام کی توہین، موب لنچنگ اور مسلم تعلیمی اداروں پر حملوں پر خاموش کیوں ہیں؟ جب کہ ان تمام کارروائیوں میں ہندتوا تحریک سے وابستہ افراد اور تنظیمیں سبھی شامل ہیں۔ڈاکٹر الیاس بتاتے ہیں کہ کوئی بھی مذکرات اور گفتگو اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی جب تک اکثریت دھونس جمانا بند نہ کر دے۔ مسلمانوں کو خاموش کرواکے مذاکرات کی کوئی بھی کوشش سرخیاں بٹورنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر الیاس یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ملاقات کی ہے وہ خود کس حد تک مسلمانوں کے مسائل سے وابستہ رہے ہیں اور اس سے قبل انہوں نے کب مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی ہے؟
کیا نفرت کا خاتمہ اتنی آسانی سے ہو جائے گا؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا موہن بھاگوت سے ایک دو ملاقاتیں ملک سے نفرت کا خاتمہ کر دیں گی؟ عمرانیات پر گہری نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ جب دلوں میں نفرت بٹھادی جاتی ہے تو اس کا خاتمہ آسانی سے نہیں ہوتا۔ توہین آمیز بیانات کے بعد جب بی جے پی نے نوپور شرما کے خلاف کارروائی کی اور اسے پارٹی سے معطل کر دیا تو اس وقت ٹویٹر ہینڈل پر نوپور شرما کے حامیوں کا طوفان بدتمیزی ہم نے دیکھا ہے۔ اسی طرح جب سپریم کورٹ نے نوپور شرما کی سخت تنبیہ کی تو اس وقت بھی ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر طوفان بد تمیزی برپا کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو تک نہیں بخشا گیا، انہیں ہندو مخالف قرار دیا گیا۔ نیوز چینلوں پر سپریم کورٹ کے خلاف بیان دینے والوں کو جگہ دی گئی۔ گزشتہ تین دہائیوں سے منظم انداز میں اور آر ایس ایس نے سو سالوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو ماحول بنایا ہے وہ ایک دو ملاقاتوں سے ختم ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آر ایس ایس اور حکومت کو مخلصانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر نفرت کی آبیاری اسی طرح سے کی جائے گی تو اندیشہ ہے کہ یہ نفرت ملک کے اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خود ملک کو ہی تباہ و برباد نہ کر دے۔
***

 

***

 گزشتہ تین دہائیوں سے منظم انداز میں اور آر ایس ایس نے سو سالوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو ماحول بنایا ہے وہ ایک دو ملاقاتوں سے ختم ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آر ایس ایس اور حکومت کو مخلصانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر نفرت کی آبیاری اسی طرح سے کی جائے گی تو اندیشہ ہے کہ یہ نفرت ملک کے اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خود ملک کو ہی تباہ و برباد نہ کر دے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2022