محمد زبیر کو ضمانت دیتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا ’’جمہوریت کارگر نہیں ہوسکتی اگر شہری اپنے خیالات کا اظہار نہ کریں‘‘

نئی دہلی، جولائی 15: دہلی کی ایک عدالت نے جمعہ کو صحافی محمد زبیر کو 2018 میں پوسٹ کیے گئے ایک ٹویٹ سے متعلق ایک کیس میں ضمانت دے دی۔

جج نے محمد زبیر کو ایک ضمانت کے ساتھ 50,000 روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے اور عدالت کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہ جانے کی ہدایت کی۔

قومی راجدھانی میں آلٹ نیوز کے شریک بانی کے خلاف یہ مقدمہ دہلی پولیس کے سب انسپکٹر ارون کمار کی شکایت پر مبنی تھا، جس نے کہا تھا کہ وہ سوشل میڈیا کی نگرانی کر رہے تھے جب وہ مارچ 2018 کے اس ٹویٹ پر پہنچے، جس پر ہنومان بھکت نام کے ایک ہینڈل نے اعتراض کیا تھا۔

دہلی پولیس نے بعد میں پہلی معلوماتی رپورٹ میں فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کو بھی شامل کیا۔ یہ قانونی دفعات غیر ملکی ذرائع سے غیر قانونی طور پر رقوم حاصل کرنے سے متعلق ہیں۔

جمعہ کے روز ایڈیشنل سیشن جج دیویندر کمار جنگلا نے اپنے حکم میں مشاہدہ کیا کہ جب تک شہری اپنے خیالات کا اظہار نہ کریں جمہوریت ’’نہ تو چل سکتی ہے اور نہ ہی ترقی کر سکتی ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ بلاشبہ آزادی اظہار ایک جمہوری معاشرے کی صحت مند بنیاد ہے۔

جج نے کہا کہ ہندو مذہب اور اس کے پیروکار بھی فطرت میں روادار ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی انسٹی ٹیوٹ یا سہولت کا نام ہندو دیوتا کے نام پر رکھنا دفعہ 153A (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) یا 295A (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے کام کرنا) کے تحت جرم نہیں بنتا، جب تک کہ یہ بدنیتی کے ساتھ نہ کیا جائے۔

فیصلے میں ’’2014 سے پہلے اور 2014 کے بعد‘‘ کے متن کا بھی حوالہ دیا گیا جو زبیر نے نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کے اقتدار میں آنے کے واضح حوالے سے ٹویٹ میں لکھا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر تنقید مجرمانہ الزامات لگانے کا جواز نہیں بنتی اور یہ اختلاف رائے صحت مند جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔

جج نے کہا کہ پولیس اس ٹویٹر صارف کی شناخت قائم کرنے میں ناکام رہی، جو زبیر کی پوسٹ سے ناراض تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹویٹ 2018 میں کیا گیا تھا، اور اب سے قبل کوئی شکایت نہیں کی گئی تھی کہ پوسٹ ہندو مذہب کے لیے ناگوار ہے۔

فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ فلم کسی سے نہ کہنا کو سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن نے منظوری دی تھی اور یہ 1983 میں ریلیز ہونے کے بعد سے عوام کے دیکھنے کے لیے دستیاب ہے۔

جمعرات کو زبیر کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ ورندا گروور نے عدالت کو بتایا کہ ایک گمنام ٹویٹر اکاؤنٹ نے اس ٹویٹ کے بارے میں پولیس سے شکایت کی تھی اور ابھی تک اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

جج نے ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر اتل شریواستو سے پوچھا کہ کیا پولیس نے اکاؤنٹ چلانے والے شخص کا بیان ریکارڈ کیا ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ پولیس کے پاس اکاؤنٹ کی تفصیلات موجود ہیں، لیکن اس نے ابھی تک بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

جواب میں جج نے کہا کہ پولیس کو ضابطہ فوجداری کے طریقہ کار پر چلنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ٹویٹس کے ذریعے۔

جج نے کہا ’’آپ نے ابھی تک بیان ریکارڈ نہیں کیا؟ آپ نے کتنے متاثرین کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں؟ آپ نے ان لوگوں کے بیان ریکارڈ کرنے ضروری تھے جنھوں نے اس ٹویٹ کو ناگوار محسوس کیا، آپ نے آج تک کتنے بیانات ریکارڈ کیے؟‘‘