عظمت رفتہ کی بحالی میں مساجد اہم رول ادا کرسکتی ہیں

مسلمان مساجد کو خدمت خلق اور فرقہ وارانہ یکجہتی کا مرکز بنائیں

ظفر صدیقی

نفرت اور تعصب سے بھری طاقتیں، مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق کو پروان چڑھا رہی ہیں جس کے باعث ہندوستان میں صورتحال تیزی سے بگڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمان اٹھیں اور اس بدنما اور خطروں سے بھرپور چیلنج کے اثر کو زائل کریں۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور دیگر لوگوں پر مشتمل برادریوں پر مسلسل حملوں کی وجہ سے لوگوں میں مذہب کی بنیاد پر بتدریج دوریاں بڑھ رہی ہیں اور صدیوں قدیم سماجی تانے بانے کو تار تار کیا جا رہا ہے۔
تاہم، اچھی بات یہ ہے کہ با ضمیر اور نیک نیت لوگ اب بھی ان لوگوں سے کہیں زیادہ ہیں جو منافرت اور تفریق کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کی حفاظت، پرورش اور بقا کی ذمہ داری ان تمام برادریوں پر آتی ہے جو باہمی رواداری اور امن پر یقین رکھتے ہیں۔ البتہ مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ملک کے فائدے اور ان رشتوں کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے والی نئی راہوں کو استوار کرنے میں پیش پیش رہیں۔ ایک ایسے ملک اور مستقبل کے لیے جہاں تمام مذہبی برادریوں کے بچے آپس میں مل جل کر بڑے ہوئے ہوں۔
اگرچہ بہت سے نقاط نظر ہیں جو اس نتیجے کی طرف لے جاتے ہیں، لیکن ایک راستہ ہے جو نہ صرف ان نظریات کو حاصل کر سکتا ہے بلکہ مساجد کے تاریخی کردار کو بھی بحال کر سکتا ہے۔ ہندوستان میں مساجد کی کمی نہیں ہے۔ ہم ان مساجد سے نماز کے علاوہ بھی فائدہ اٹھائیں۔ اپنی مساجد کو خیر کے تمام کاموں، دعوت دین اور اتحاد ویکجہتی کے مراکز بنائیں۔ اس ضمن میں منصوبہ بنایا جائے کہ کس طرح ہم مساجد کو اپنے اڑوس پڑوس کے عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنایا جا سکتا ہے اور اللہ کی عطا سے حاصل ہونے والے اپنے قیمتی وسائل سے کس طرح بھر پور طریقے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
مشہور اسلامی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ ’’انسانی دل ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھلائی کرتے ہوں۔‘‘ اسی کو مدنظر نظر رکھتے ہوئے مساجد میں مندرجہ ذیل 11 اقدامات کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ یہ تمام اقدامات مقامی سطح پر اور بڑے پیمانے پر کیے جا سکتے ہیں۔
۱۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ یہ ان پہلی چیزوں میں سے ایک ہے جو ہم اپنی مذہبی تعلیم میں ذاتی اور سماجی ذمہ داری کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ مساجد کی انتظامی کمیٹیاں نوجوانوں کا ایک گروپ بنا سکتی ہیں جو مسجد کے ارد گرد ایک مربع کلومیٹر کے ایک مخصوص حصے کو اپنا لے اور کوڑا کچرا اور دوسری گندگیوں سے پاک رکھنے میں پوری محنت اور مستقل مزاجی سے کام کرے۔ ایک متبادل یہ بھی ہے کہ جہاں مسجد واقع ہے اس محلہ/علاقہ کو اپنالے اور اس محلہ/علاقے کی دیگر مساجد کی شراکت سے صفائی گروپوں کو بنالے۔
۲۔ ہر جمعہ کو مساجد سے اپنے علاقے کے بے گھر اور بے سہارا لوگوں میں بلا تفریق مذہب و ملت مفت کھانا تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس پروگرام کو توسیع اور ضرورت کے مطابق نقل کیا جاسکتا ہے۔
۳۔ ہر محلہ/علاقہ میں زیادہ تر ایک سے زیادہ مساجد موجود ہیں۔ ان مساجد کے درمیان کچھ تو روابط ہونے چاہئیں۔ مقامی تنظیموں کی تشکیل سے مساجد کو آپسی فلاحی کاموں میں جوڑنے اور فرقہ واریت اور تقسیم کو ختم کر کے ایک مربوط قوت بنانے میں مدد ملے گی۔ موجودہ حالت میں یہ ایک چیلنج ہو سکتا ہے لیکن مسلم نوجوانوں کو ایک قابل عمل مستقبل کے لیے اس تبدیلی کی قیادت کرنی چاہیے۔
۴۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہماری مساجد کے قریب رہنے والے غیر مسلموں نے کبھی اس میں قدم نہیں رکھا۔ بہت سے لوگوں کے لیے مساجد ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔ اگر مساجد میں ایک سہ ماہی دعوت کا اہتمام کیا جائے اور محلے کے غیر مسلموں کو چائے اور ناشتے یا کھانے پر مدعو کیا جائے تو ان میں اعتماد اور تعلقات کی تعمیر میں مدد ملے گی.
۵۔ مساجد میں سینئر سٹیزن سپورٹ گروپس بنائے جا سکتے ہیں جن کا کام’ بلا لحاظ مذہب و ملت‘ علاقے کے کمزور بزرگ شہریوں کی مدد کرنا ہو گا۔ ان کمزور بزرگ شہریوں کی مدد کے لیے ایک شیڈول بنایا جا سکتا ہے۔
۶۔ لون شارک مالی طور پر معذور افراد/خاندانوں کی زندگیوں کو برباد کرتی ہیں۔ مساجد کمیٹیاں سود سے پاک مائیکرو لون کے لیے ایک پروگرام متعارف کروا سکتی ہیں جو کسی بھی ضرورت مند شخص کو کچھ چھوٹی سی ضمانت لے کر دیا جا سکتا ہے۔ تاکہ وہ لون شارک سے بچ جائیں۔ یہ کمیونٹی میں تعلقات بڑھانے کے لیے گیم چینجر ہو جائے گا۔
۷۔ مساجد کی قیادت کو دیگر مذہبی برادریوں کے رہنماوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ پہل مسلمانوں کو کرنی چاہیے۔ اگر کوشش مخلصانہ ہو تو کامیابی کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور کام میں غیر مسلم بھی شریک ہو جائیں گے۔
۸۔ مساجد سے لوگوں کی بھلائی کے لیے پولیس، میونسپل کارپوریشن اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا ایک نیا باب شروع کیا جا سکتا ہے۔ ان سرکاری اداروں کی خدمات کو سراہنا اس اسلامی اصول کے مطابق ہو گا کہ ”جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘
۹۔ عید کے موقع پر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کھانے اور خصوصی پکوان میں میں غیر مسلم پڑوسیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ مسجد کی قیادت کو چاہیے کہ علاقے کے غیر مسلم رہنماؤں سے ربط ضبط رکھیں۔
۱۰۔ اگر مسلمان مستقبل میں مساجد کو پروان چڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ بچوں کی موجودگی اور ان کے اعلی تجربوں کو ترجیح دی جائے۔ ایک ایسی مسجد کا دوبارہ تصور کرنے کا وقت ہے جہاں ایک بچہ محسوس کرے کہ اسے خوش آمدید کیا جا رہا ہے، اس کا احترام اور تعریف کی جا رہی ہے۔ یہ بچے کے لیے جوانی میں مسجد آنے کے لیے دیرپا یادیں ہوں گی۔
۱۱۔ آج جب کہ کچھ مساجد میں خواتین کے لیے نماز میں شرکت کا انتظام ہے، لیکن بہت سی مساجد اب بھی ایسی ہیں جہاں مسلمان خواتین کو مسجد میں آنے اور نماز پڑھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کم از کم جو نئی مساجد اب تعمیر ہو رہی ہیں ان میں خواتین کے لیے جگہ کو لازمی کرنا چاہیے۔
گیند ہمارے کورٹ میں ہے۔ ہم اس سخت صورتحال کا کیا جواب دیتے ہیں یہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ ہندوستان مکمل طور پر فاشسٹ طاقتوں کے زیر تسلط آجائے جو کمیونٹیز کو بانٹ کر اور معاشرے کے سماجی تانے بانے کو پھاڑ کر ہی پروان چڑھتی ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ لوگوں کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔
(ظفر صدیقی کا آبائی وطن حیدرآباد ہے فی الحال وہ مینیسوٹا، امریکہ میں مقیم ہیں جہاں وہ مسلم کمیونٹی اور دیگر برادریوں کے درمیان افہام و تفہیم کا کام کر رہے ہیں)
***

 

***

 با ضمیر اور نیک نیت لوگ اب بھی ان لوگوں سے کہیں زیادہ ہیں جو منافرت اور تفریق کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کی حفاظت ، پرورش اور بقا کی ذمہ داری ان تمام برادریوں پر آتی ہے جو باہمی رواداری اور امن پر یقین رکھتے ہیں ۔ البتہ مسلمانوں کے لیےیہ ضروری ہے کہ وہ ملک کے فائدے اور ان رشتوں کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے والی نئی راہوں کو استوار کرنے میں پیش پیش رہیں۔ ایک ایسے ملک اور مستقبل کے لئے جہاں تمام مذہبی برادریوں کے بچےآپس میں مل جل کر بڑے ہوئے ہوں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022