ایل پی جی کی قیمت میں 50 روپے کا اضافہ، چار ماہ بعد پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں بھی بڑھائی گئیں

نئی دہلی، مارچ 22: منگل کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 80 پیسے فی لیٹر کا اضافہ ہوا، جو نومبر کے بعد پہلا اضافہ ہے۔

بھارت کی سرکاری تیل کمپنیوں نے 4 نومبر کے بعد سے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا تھا، اس اقدام کو مبصرین نے اتر پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا کی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے منسوب کیا ہے۔ اس کے بعد نریندر مودی حکومت نے پیٹرول پر ایکسائز ڈیوٹی میں 5 روپے فی لیٹر اور ڈیزل پر 10 روپے فی لیٹر کی کمی کی تھی تاکہ قیمتوں کو ریکارڈ سطح سے نیچے لایا جا سکے۔ کیوں کہ ایندھن کی زیادہ قیمتیں احتجاج کا باعث بن سکتی تھیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابات جیتنے کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔

منگل کو دہلی میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 96.21 روپے اور ڈیزل 87.47 روپے میں فروخت ہوگا۔ بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں پٹرول کی قیمت 110.82 روپے فی لیٹر ہو گئی، جب کہ ڈیزل کی قیمت 95 روپے تک پہنچ گئی۔

چنئی میں پٹرول کی قیمت 102.16 روپے ہے، جب کہ ڈیزل کی قیمت 92.19 روپے ہے۔ کولکاتا میں ایک لیٹر پٹرول 95.52 روپے اور ڈیزل کی قیمت 89.32 روپے تک پہنچ گئی۔

وہیں منگل کے روز گھریلو کھانا پکانے کی گیس یا ایل پی جی کی قیمت میں بھی 50 روپے فی سلنڈر کا اضافہ کیا گیا۔ ایل پی جی کی قیمت میں آخری بار 6 اکتوبر کو نظر ثانی کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق دہلی اور ممبئی میں، ایک ایل پی جی سلنڈر کی قیمت 949.50 روپے ہوگی، جب کہ کولکاتا میں ایک صارف کو 976 روپے ادا کرنے ہوں گے۔ چنئی میں اس کی قیمت 965.50 روپے ہوگی اور لکھنؤ میں اس کی قیمت 987.50 روپے ہے۔

ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت ہوا جب یوکرین پر روسی حملے کے بعد عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ زیادہ قیمتیں بھارت کے لیے نقصان دہ ہیں کیوں کہ وہ اپنے خام تیل کا 85 فیصد درآمد کرتا ہے۔

سرکاری تیل کی مارکیٹنگ کمپنیاں، بشمول انڈین آئل کارپوریشن، بھارت پیٹرولیم اور ہندوستان پیٹرولیم، گھریلو ایندھن کی قیمتوں کو عالمی خام تیل کی نرخوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے نرخوں پر نظر ثانی کرتی ہیں۔

پی ٹی آئی کے مطابق اس سال تیل کی قیمتیں پہلے ہی 60 فیصد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے ہندوستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 77 روپے کی ریکارڈ کم ترین سطح پر آ گیا ہے اور افراط زر کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کے درمیان ملک کے فائنانس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔