مقننہ POCSO ایکٹ کے تحت رضامندی کی عمر کو لے کر بڑھتی ہوئی تشویش کو دور کرے: سی جے آئی چندرچوڑ

نئی دہلی، دسمبر 11: چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے ہفتہ کے روز مقننہ پر زور دیا کہ وہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے قانون کے تحت رضامندی کی عمر کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کو دور کرے۔

POCSO ایکٹ کے تحت بھارت میں جنسی تعلقات کے لیے رضامندی کی عمر 18 سال ہے۔ 18 سال سے کم عمر کے فرد کی طرف سے دی گئی رضامندی کو درست نہیں سمجھا جاتا اور ان کے ساتھ جنسی تعلق عصمت دری کے مترادف ہے۔

جسٹس چندرچوڑ نے کہا ’’POCSO ایکٹ 18 سال سے کم عمر والوں کے لیے تمام جنسی سرگرمیوں کو جرم قرار دیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ کسی خاص معاملے میں دو نابالغوں کے درمیان حقیقت میں رضامندی ہو۔ قانون کا مفروضہ یہ ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے قانونی معنوں میں کوئی رضامندی نہیں ہے۔‘‘

جسٹس چندرچوڑ نے یہ تبصرے سپریم کورٹ کی کمیٹی برائے جووینائل جسٹس کے زیر اہتمام بچوں کے تحفظ پر قومی سالانہ اسٹیک ہولڈرز کنسلٹیشن میں اپنی تقریر کے دوران کیے۔

ہفتہ کے خطاب کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ POCSO ایکٹ کے تحت رضامندی کی عمر بعض معاملات میں ججوں کے لیے مشکل سوالات پیدا کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’اس مسئلے کے ارد گرد ایک بڑھتی ہوئی تشویش ہے جس پر قانون سازوں کو نوجوانوں کی صحت کی دیکھ بھال کے ماہرین کی قابل اعتماد تحقیق کے پیش نظر غور کرنا چاہیے۔‘‘

جسٹس چندرچوڑ نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ سماجی بدنامی کی وجہ سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا،’’پہلا دقیانوسی تصور یہ ہے کہ صرف بچی ہی جنسی زیادتی کا نشانہ بن سکتی ہے یا اس کا امکان ہے اور دوسرا یہ کہ مجرم ہمیشہ اجنبی ہوتا ہے۔ تحقیق نے مستقل طور پر دونوں کو ثابت کیا ہے کہ لڑکوں کو بھی جنسی زیادتی کا یکساں خطرہ ہوتا ہے اور یہ کہ مجرم بہت سے معاملات میں متاثرہ کا جانکار ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ خاندان کا کوئی فرد، نگراں یا پڑوسی ہو۔‘‘

اپنے خطاب میں جسٹس چندرچوڑ نے یہ بھی نشان دہی کی کہ POCSO ایکٹ کے تحت لازمی رپورٹنگ کی شق طبی دیکھ بھال تک رسائی میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

قانون کے تحت جو بھی شخص 18 سال سے کم عمر کے کسی شخص کے ساتھ جنسی فعل کے بارے میں معلومات رکھتا ہے اسے پولیس کو اطلاع دینا ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز کو نابالغوں کے نام فوری طور پر حکام کے سامنے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ایسا ہو کہ نابالغہ اسقاط حمل چاہتی ہو لیکن صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل کرنے تک فوجداری انصاف کے عمل میں شامل نہیں ہونا چاہتی ہو۔‘‘