عوامی مقامات پر عبادت کے حوالے سے قانون ابھی تک واضح نہیں، سابق ایم پی محمد ادیب عدالتِ عظمیٰ پہنچے

نئی دہلی، دسمبر 20: دی نیو انڈین ایکسپریس کے مطبق گروگرام میں عوامی مقامات پر جمعہ کی نماز پر تنازعہ کے درمیان راجیہ سبھا کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ نے مذہب پر عمل کرنے کے حق پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس کی نظیروں پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ عدالت کے مختلف فیصلے زیربحث قانون کو حل کرنے میں ناکام رہے۔

سابق ایم پی محمد ادیب نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور ہریانہ کے افسران کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے نتیجے میں فرقہ وارانہ جذبات کو روکنے کے لیے پہلے کی ہدایات کی تعمیل کرنے میں ناکام رہنے پر کارروائی کی درخواست کی۔

صغیر احمد کے 1955 کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ لوگوں کو عوامی سڑکوں اور گلیوں کو استعمال کرنے کا حق ہے، لیکن یہ حق ہر دوسرے شہری کے استعمال کے اسی طرح کے حقوق سے محدود ہے۔

اسی سال ایم اسماعیل فاروقی کیس میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسجد، اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے، یہاں تک کہ کھلے میں بھی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ عبادت کے حق کی، جو آئین کی دفعہ 25 کے تحت ضمانت دی گئی ہے، وہ ہر جگہ عبادت کرنے کے حق تک توسیع نہیں کرتی ہے۔

2018 میں عدالت عظمیٰ نے ایک سوال کا سامنا کیا کہ کیا عوامی احاطے اور پارکوں کو ’’رام لیلا‘‘، ’’ماتا کی چوکی‘‘ اور دیگر مذہبی تقریبات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 2018 کے اس کیس کا کوئی بھی فیصلہ، جو ابھی اس کی پہلی سماعت کے لیے آنا باقی ہے، متنازعہ مسائل پر قانون طے کرے گا۔

آئین کی دفعہ 19(1)(a) میں کہا گیا ہے کہ تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہوگا، جب کہ ذیلی شق (b) پرامن طریقے سے اور بغیر ہتھیاروں کے جمع ہونے کے حق کی ضمانت دیتی ہے۔

دفعہ 25 کہتی ہے کہ ہر شخص کو ضمیر کی آزادی اور آزادی سے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق حاصل ہے، جو کہ امن عامہ، اخلاقیات اور صحت کی حدود سے مشروط ہے۔ دفعہ 26 ہر مذہبی فرقے کو مذہب کے معاملات میں اپنے معاملات خود طے کرنے کا حق دیتی ہے لیکن یہ حق امن عامہ، اخلاقیات اور صحت سے بھی مشروط ہے۔