آخری قسط:علی گڑھ تحریک اور سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ

نعمان بدر فلاحی
(ریسرچ اسکالر ، شعبۂ عربی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )

22 ؍ستمبر 1979ء کو امریکہ کے شہر بفیلو میں مولانا مودودیؒ کے انتقال کی خبر علی گڑھ پہنچی تومسلم یونیورسٹی کے ہاسٹلوں کی مساجد میں 23؍ ستمبر کونماز فجر کے بعد طلبہ نے اشکبار آنکھوں سے اس اندوہناک سانحہ کی خبر سنی۔ یونیورسٹی میں ایک سوگوارسی فضا چھا گئی اور جامع مسجد میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔26؍ستمبر کو بعد نماز مغرب تاریخی طلبہ یونین ہال میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت یونیورسٹی ناظم دینیات پروفیسر محمدتقی امینی( 5مئی 1926ء- 21؍جنوری 1991ء)نے کی۔ یونین ہال طلبہ و اساتذہ سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، عرب اور ایرانی طلبہ بھی موجود تھے۔
یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر جناب جاوید حبیب نے فرمایا ’’ مولانا مودودی نے حاکمیت الٰہ کی بات اس وقت کی جب عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے علمائے دین‘ اسلام کے اس بنیادی عقیدے کو پیش کرنے سے کتراتے تھے ۔ مولانا کی جہد مسلسل کو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا ہے کہ اب ایک ملک میں نہیں بلکہ متعدد ممالک میں اسلامی حکومت کی بات ہو رہی ہے‘‘۔ عرب اور ایرانی طلبہ کے نمائندوں نے بتایا کہ ’’مولانا کی تحریروں نے انہیں اسلام کی سمجھ اور انقلابی جذبہ دیا ہے۔‘‘
یونیورسٹی ناظم دینیات مولانا محمدتقی امینی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا :
’’ مولانا مودودیؒ کا عظیم ترین کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نئی نسل کے ذہن کو سمجھا اور اس کے مطابق اسلام کو نئے اسلوب میں پیش کیا ۔ نماز، روزہ جیسی روز مرہ کی چیزوں کو دلفریب حسن اور گہری معنویت بخشی۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور علمی کوششوں سے مغربی مادیت اور کمیونسٹ الحاد کی جھلسا دینے والی آندھیوں سے ٹکرلے کر اسلام کی ٹھنڈی ہوا چلائی۔‘‘ (37)
مولانا مودودیؒ کے جنازہ میں شرکت کے لیے ایم اے فلسفہ کے طالب علم مسٹر مقیم الدین اور بی یو ایم ایس کے محمو د احمد راتھر 24 ؍ستمبر کو پاکستان روانہ ہوئے اور ۲۵؍ ستمبر کویہ لوگ مولانا کی تدفین میں شریک ہوئے ۔ پاکستان سے واپسی کے بعد محمود احمد راتھر صاحب نے مولانا مودودیؒ کے جنازہ اور تجہیز و تکفین کا آنکھوں دیکھا حال اپنے ایک مضمون میں بیان کیا جو پندرہ روزہ’ ہمقدم‘ علی گڑھ کی نومبر 1979ء کی اشاعت میں موجود ہے ۔
نواب چھتاری کی مجلس میں
مولانا مودودیؒ کی علمی بلندی اور عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1941ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سرپرست نواب حافظ احمد سعید خاں چھتاری [1888-1982]کی ایما پراسلام کے سیاسی اور اقتصادی نظام کی تدوین اور اصولوں کی ترتیب کے لیے انھی کی صدارت میں بنائی گئی مجلس کا پہلا اجلاس دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے عباسیہ ہال میں جنوری 1941ء میں منعقد ہوا تھا۔ عبدالماجد دریابادی، شبیر احمد عثمانی، مولانا آزاد سبحانی، عبدالمحامد بدایونی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور سید سلیمان ندوی جیسی بلند ترین شخصیات کے درمیان مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس مجلس کے کم سن ترین رکن تھے اور عبد الماجد دریابادی اور ڈاکٹر ذاکر حسین کے علاوہ مولانا مودودی نے بھی اپنے خیالات تحریر فرمائے تھے ۔ (38)
صدق، لکھنؤ کی رپورٹ :
’’ اسلامی نظام حکومت پر ایک مبسوط تالیف تیار کرنے کی تجویز’ صدق‘ کے متعدد نمبروں میں آچکی ہے ۔ شکر خدا کہ نام کے اسلامی اداروں میں سے مسلم لیگ کی عملی توجہ اس جانب ہوئی اور صوبہ متحدہ کی مسلم لیگ کی تحریک پر ایک مستقل مجلس اس غرض و مقصد کے لیے مرتب پاگئی ۔ ابتدائی مجلس شوریٰ کی نشستیں ۴ و ۵ جنوری کو دار العلوم ندوہ) (لکھنؤ( کی عمارت میں ہوئیں۔ اس میں مسلم لیگ کے نامی کارکنوں مثلاً چودھری خلیق الزماں اور نواب محمد اسماعیل خاں ‘ مولانا عبد المحامد صاحب بدایونی ‘جمال میاں فرنگی محلی ‘ اور قوم کے بعض نامور رئیسوں مثلاً نواب صاحب چھتاری کے پہلو بہ پہلو مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے بھی شرکت فرمائی ۔
ردو قدح کے بعد یہ طے پایاکہ نظام اسلامی پر ایک ایسی جامع کتاب تیار کی جائے جس میں سیاسیات ‘ معاشیات ‘و معاشرت سے متعلق مکمل تعلیمات آجائیں ۔ اور اس غرض کے لیے ایک کمیٹی مصنفین کی بنادی گئی ہے جس کے داعی یا ناظم مولانا سید سلیمان صاحب منتخب ہوئے ہیں اور توقع ہے کہ ان کی اور مولانا ابو الاعلیٰ صاحب کی مشترک نگرانی میں جو کام ہوگا وہ تحقیق اور ذمہ داری کے اعلیٰ معیار پر ہوگا ۔ امید قوی ہے کہ ان دونوں بزرگوں کو علماء میں مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی ‘ مولانا مناظر احسن گیلانی ‘ مولانا حکیم عبد الرؤف دانا پوری ‘ اور جدید طبقہ میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں شیخ الجامعہ اور ڈاکٹر سید ظفر الحسن ( استاذ فلسفہ مسلم یونیورسٹی) اور ملک کے دوسرے جلیل القدر فاضلوں کا تعاون و اشتراک عمل ان شاء اللہ حاصل ہوگا‘‘ ۔ (39)
سر سید کا تذکرہ
ز1936ء میں جب علماء کے ایک حلقے کی جانب سے مولانا شبلی نعمانی(4؍ جون 1857ء- 18؍ نومبر 1914ء)اور علامہ حمید الدین فراہی (18؍ نومبر 1863ء-11؍ نومبر 1930ء)کے سلسلے میں تکفیر کا فتویٰ جاری ہوا تو مولانا مودودی ان کی حمایت میں اترے، اور مذکورہ بالا دونوں بزرگوں کے ساتھ سرسید اور ان کے رفقاء کا بھی دفاع کیا :
’’ ہزاروں مسلمانوں کو بیک جنبش قلم کافر بنا دینا کیاکوئی ایسی بات ہی نہیں ہے جس میں کسی احتیاط اور تأمل کی ضرورت ہو،اور جس کی تحقیق میں چند ساعتوں کی محنت بھی گوارا کرنا ضروری ہو ۔ یہ معاملہ ایک دو کے ساتھ نہیں بیسیوں اکابر اسلام کے ساتھ پیش آچکا ہے ۔ مولانا اسماعیل شہید اور ان کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں کو اسی طرح کافر بنایا گیا ۔ مولانا محمد قاسم کی تحریروں میں بڑی محنت اور تکلف سے کفر کو تلاش کیا گیا اور نہ صرف انہیں بلکہ پوری جماعت دیو بند کو نعمت ایمان سے محروم کردیا گیا ۔ سید احمد خاں ، محسن الملک اور حالی اور ان کی پوری جماعت کا رشتہ اسی طرح امت مسلمہ سے قطع کرڈالا گیا ‘‘۔(40)
ز مسلمانان ہند کی فکری و عملی زندگی پر مغربی علوم اور انگریزی تہذیب و تمدن کے غلبے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے :
’’ اس دوہری کمزوری کی حالت میں مسلمانوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا توانہیں نظر آیا کہ انگریزی سلطنت نے اپنی ہوشیاری سے معاشی ترقی کے تمام دروازے بند کردیے ہیں اور ان کی کنجی انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں رکھ دی ہے ۔اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کرتے ، چنانچہ مرحوم سر سید احمد خان کی رہنمائی میں ایک زبردست تحریک اٹھی جس کے اثر سے تمام ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوگیا ۔ پرانے لوگوں کی مخالفت بے کار ثابت ہوئی ۔ دولت ، عزت اور اثر کے لحاظ سے قوم کی اصل طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس نئی تحریک کا ساتھ دیا ۔ ہندوستان کے مسلمان تیزی کے ساتھ انگریزی تعلیم کی طرف بڑھے ، قوم کا تلچھٹ پرانے مذہبی مدرسوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تاکہ مسجدوں کی امامت اور مکتبوں کی معلمی کے کام آئے اور خوش حال طبقوں کے بہترین نونہال انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیے گئے تاکہ ان کے دل و دماغ کے سادہ اوراق پر فرنگی علوم و فنون کے نقوش ثبت کیے جائیں ‘‘۔(41)
زجامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں اسلامیات کے پروفیسر مولانا اسلم جیراج پوری( 27؍ جنوری 1882ء-28؍ دسمبر 1955ء( کی تصنیف ’ تعلیمات القرآن ‘جب منظر عام پر آئی تو مولانا مودودی نے اس پر اپنے طویل قسط وار تبصرہ کے دوران سر سید اور ان کے متبعین پر بھی نقد کیا :
’’ پرانے زمانے کے علماء یہ غلطی کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کو انہوں نے قدیم فلسفہ اور ہیئت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی اور اس زمانے کے بندگان عقل کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن کو ارسطو اور افلاطون اور بطلیموس کے نظریات پر منطبق کرڈالا ۔ لیکن موجودہ دور کے نظری اور تجربی علوم نے جب پچھلے نظریات کو باطل کردیا تو وہ تمام تاویلیں جو پہلے کی گئی تھیں ‘ غلط ثابت ہوئیں اور وہ تمام سہارے ٹوٹ گئے جن پر قرآن مجید کی تاویل کا مدار رکھا گیا تھا ۔ پھر سرسید احمد خانی دور میں دوبارہ اسی غلطی کا اعادہ کیا گیا، مگر سائنس کی جدید ترقیات نے ان سہاروں میں سے بھی بہتوں کو توڑ دیا جن پر سید مرحوم اور ان کے متبعین نے تاویل کی عمارت قائم کی تھی‘‘ ۔(42)
زعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم ڈاکٹر برہان فاروقی کی پی ایچ ڈی کا مقالہ جب’ مجدد الف ثانی کا تصور توحید‘ کے نام سے 1940ء میں شائع ہوا تو مولانانے انگریزی زبان کی اس تصنیف کی بعض خامیوں اور غلطیوں پر گرفت کرتے ہوئے سر سید پر بھی تبصرہ کیا :
’’اول تو ان دونوں حضرات (سرسید اورمولوی عبداللہ چکڑالوی ) کا ذکر مجدد صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ اسماعیل شہید، اور سید احمد بریلوی کے سلسلے میں لانا یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ گویا یہ بھی اسی سلسلے کے آدمی ہیں، پھر سرسید کے کام کو اصلاح اور تنقید عالی کے الفاظ سے تعبیر کرنا اور یہ کہنا کہ ’’مسلمانوں میں ان کے بعد جتنی اہم مذہبی، سیاسی، اجتماعی، ادبی اور تعلیمی تحریکیں اٹھیں ان سب کا سر رشتہ کسی نہ کسی طرح ان سے ملتا ہے‘‘ دراصل مبالغہ کی حد سے بھی متجاوز ہے۔ علی گڑھ کے تعلق کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو خواہ سرسید سے کتنی ہی ارادت ہو مگر جب وہ ایک مسلمان محقق کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں تو انہیں بے لاگ حق کااظہار کرنا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ 1857ء کے بعد سے اب تک جس قدر گمراہیاں مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہیں ان کا شجرۂ نسب بالواسطہ یا بلا واسطہ سرسید کی ذات تک پہنچتا ہے۔ وہ اس سرزمین میں تجدّد کے امام اول تھے اور پوری قوم کا مزاج بگاڑ کر دنیاسے رخصت ہوئے‘‘۔(43)
سر سید احمد خان پر مولانا مودودی کے بعض تیزو تند تبصرے گوبادی النظر میں آج متعدد اہل علم کو نا مناسب اور جادۂ اعتدال سے ہٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی علت کو سمجھنے کے لیے بیسویں صدی عیسوی کی تیسری دہائی کے سماجی ‘ معاشرتی اور مذہبی احوال و کوائف نیز طبقہ علماء اور مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے ذہنی ‘ فکری ‘ دینی اور مذہبی شعور کی سطح کو پیش نظر رکھنا لازمی ہے ۔عمر کے ابتدائی زمانے میں سر سید پر مولانا کی تنقیدوں کے پس منظر میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ابتدائی نسلوں کی مغرب پرستی ‘ انگریزی تہذیب و تمدن سے والہانہ رغبت اور دینی شعائر سے لاپروائی کی عمومی روش صاف نظر آتی ہے ۔تاہم ، سلیم منصور خالد (نائب مدیرماہ نامہ عالمی’ ترجمان القرآن‘لاہور، پاکستان ) نے واٹس ایپ پرمجھے ارسال کی گئی اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے :
’’یہ 1977کی بات ہے کہ ہم تین دوستوں نے مولانا مودودیؒ کی تحریروں اور گفتگوؤں سے مختلف شخصیات کے بارے میں اقتباسات مرتب کرنے کا ڈول ڈالا۔ ان دوستوں میں شامل تھے: سمیع اللہ بٹ اور خالد ہمایوں۔ جونہی مجموعے کی شکل بنی تو دوستوں نے کہا: اس کو چھپواتے ہیں، مگر مجھے اس کی فوری اشاعت سے اتفاق نہ تھا کہ ابھی خاصا کام باقی ہے اور ترتیب و تدوین بھی معیاری نہیں ہے۔ بہرحال یہ طے ہوا کہ پہلے مولانا سے اجازت تو حاصل کرلی جائے۔ ہم کتابت شدہ مسودہ لے کر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے توانہوں نے فرمایا: ’’ایک ہفتہ بعد معلوم کرلیجیے‘‘۔ ہفتے کے بعد مولانا کے ہاں پہنچے تو انہوں نے فرمایا’’دیباچے کے لیے ملک غلام علی کو دے دیجیے‘‘ ۔ اورپھر کتابت کا لفافہ واپس کرتے ہوئے تین چار کتابت شدہ صفحات نکال کر ایک طرف رکھتے ہوئے فرمایا: ’’اسے رہنے دیں، شامل نہ کریں‘‘۔ وہ کتابت شدہ صفحات سرسید احمدخاں کے بارے میں مولانا محترم کے چند در چند تنقیدی تبصروں پر مشتمل تھے۔ میں نے سوال کیا:’’مولانا،انھیں کیوں نکال دیں؟‘‘ مولانا نے بڑی شفقت سے فرمایا :
’’دیکھیے، سید احمد بنیادی طور پر مذہبی شخصیت نہیں تھے۔ انہوں نے انیسویں صدی میں مسلمانوں کی تہذیبی، علمی، معاشی، اور تمدنی تباہی کا ایک نہ ختم ہونے والا منظر دیکھا تھا۔ انہوں نے محسوس کیا تھاکہ اگر یہی صورت حال رہی تو مسلمانوں کے لیے بربادی کا عمل تیز سے تیز تر ہوگا۔ اسی لیے انہوں نے انگریز ہندو اتحاد کے خطرات سے بچنے کے لیے اور قوم کو جدید تعلیم کے ذریعہ آگے بڑھانے کے لیے ایک قومی مصلح اور خدمت گذار کی حیثیت سے جاں توڑ کوششیں کیں۔ مگراس کے ساتھ ظلم یہ کیا کہ بے جا طور پر الٰہیاتی اور دینی علوم پر بھی خامہ فرسائی شروع کردی جس کی نہ گنجائش تھی، نہ ضرورت تھی اور نہ کوئی جواز۔ مگر امر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اس ہمہ گیر ابتلاکے دوران قوم کو ریاستی دھارے میں لانے کے لیے اپنی سی بھرپور کوششیں کیں۔یہی وجہ ہے کہ قوم نے ان کے مذہبی تفردات و خیالات کو کوئی اہمیت نہ دی اور نہ اسے قبول کیا۔ مگر قومی مفاد، بیداری اور تعلیم کے لیے ان کی کاوشوں کو قبول کیا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہمیں ان کی قابل قدر ، مثبت اورعظیم خدمات کی قبولیت کے لیے ،نیز اُن کی کاوشوں کے منفی پہلوؤں اور غلطیوں سے درگذر کے لیے ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہئے اور ان بحثوں کو نہیں اٹھانا چاہیے‘‘۔ (44)
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی’ مجالس سیدمودودی‘ میں رقم طراز ہیں :
’’ سرسید احمد خاں مرحوم کے بارے میں ایک صاحب نے کوئی سوال کیا تو مولانا نے فرمایا : ’’ مذہبی لحاظ سے انہوں نے بہت سی ٹھوکریں کھائیں اور کئی مسائل میں ان کی تحقیق ناقص تھی، مگر جو کچھ انہوں نے کیا اس میں بدنیتی شامل نہیں تھی۔ اپنے نزدیک وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ دین کی حفاظت کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے۔انہوں نے بعض چیزیں بڑے درد و کرب کے ساتھ لکھی ہیں۔ مثلاً: برطانوی مستشرق سرولیم میور نے جب اپنی کتاب ’ دی لائف آف محمد‘ (The Life of Muhammad ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر حملے کیے توسر سید نے بڑی محنت کے ساتھ اس کے جوابات لکھے۔ پھر یہ کہ آج کل کے بعض نام نہاد ’مجتہدین‘ کی طرح وہ محض نقال نہ تھے۔ انہوں نے جو بات کہی اپنی ذاتی تحقیق کے بعد کہی‘‘۔(45)
علی گڑھ میں’ ترجمان القرآن‘ کے خریدار
’تذکرۂ سیّد مودودی‘ کے مرتبین نے مولانا کے رجسٹروں کی مدد سے ستمبر ۱۹۴۰ میں ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کے خریداروں کی ایک طویل فہرست بھی شامل کی ہے۔ علی گڑھ کے مندرجہ ذیل افراد اُس فہرست میں شامل ہیں :
پروفیسرسید ظفرالحسن، ڈاکٹر افضال قادری، دی اسکالر یونین مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، صالحہ بیگم شروانی غریب منزل، علی گڑھ، شفاء الملک حکیم عبدالطیف صاحب طبیہ کالج علی گڑھ، اصغر علی صاحب، پروفیسر حلیم پرووائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، راحیلہ خاتون شروانی، محمد عبدالشکور خاں شروانی، ناظم دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ڈاکٹر امیر حسن صدیقی، ڈاکٹر محمود احمد نائب صدر اسلامیات علی گڑھ، ملک عنایت اللہ نسیم علی گڑھ، مفتی عبدالعزیز، ابوبکر احمد حلیم، معتمد آفتاب مجلس مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، لٹن لائبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، حاجی علی بخش سلطان محمود، بیگم سید محمد منیر،سیشن جج علی گڑھ، عبدالمجید‘ عثمانیہ ۴۰، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، پرنسپل ہنری مارٹن اسکول علی گڑھ۔ (46)
حواشی و تعلیقات
(37) پندرہ روزہ ’ہمقدم‘ علی گڑھ5؍اکتوبر 1979ء ، عبد القادر مارکیٹ ،جیل روڈ ،علی گڑھ ۔
(38) ماہنامہ’ معارف‘ دارالمصنفین، اعظم گڑھ،فروری و مئی1941ء۔
(39) ہفت روزہ’ صدق‘ لکھنؤ ،27 ؍ جنوری 1941ء۔
(40) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘حیدر آباد دکن ، جولائی 1936ء ص 428
(41) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن ‘ حیدر آبا ددکن ، ستمبر 1934ء
(42) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن ‘حیدر آباد دکن ،جولائی 1934ء
(43) ماہنامہ’ ترجمان القرآن‘ دسمبر1940ء، جنوری 1941ء، صفحہ نمبر 141
(44) سلیم منصور خالد کا تحریری پیغام بذریعہ واٹس ایپ، بتاریخ ،24 ؍اگست2022ء
(45) ’مجالس سید مودودی‘ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،دسمبر 2020ء ناشرمنشورات، منصورہ ملتان روڈ، لاہور
(46) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘ اول ادارہ معارف اسلامی،منصورہ،لاہور،اپریل 1986ء،صفحہ نمبر989۔
[email protected]
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2022