کتاب ؛مدرسۃ الاصلاح کے فضلاء کی قرآنی خدمات

قرآن کے حوالے سے قابل قدر کاوشوں کا بہترین اجمالی احاطہ ۔قابل مطالعہ

ابو سعد اعظمی

پروفسیر عبدالرحیم قدوائی کی سربراہی میں پروفیسر خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قرآنیات کو فروغ دینے میں سرگرم عمل ہے۔ اس کی خدمات کی مختلف جہات ہیں جس میں تعلیم وتدریس، بحث ومباحثہ، سیمینار اور ورکشاپ کے علاوہ اہم موضوعات پر کتب کی تصنیف وتالیف کا پروگرام بھی شامل ہے۔ سال رواں مرکز نے بر صغیر کے فضلاء کی قرآنی خدمات کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا اور دیوبند، ندوہ،جماعت اسلامی، اہل حدیث، بریلوی اور شیعہ علماء کی قرآنی خدمات کو قلم بند کرنے کی ذمہ داری مختلف افراد کے سپرد کی۔زیر تبصرہ کتاب ’’مدرسۃ الاصلاح کے فضلاء کی قرآنی خدمات‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس میں فارغین مدرسۃ الاصلاح میں سے دس نمایاں شخصیات کی قرآنی خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے اور ان کی اہم کتب کا تعارفی وتجزیاتی مطالعہ کر کے اس کی خصوصیات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ مصنف ابو سفیان اصلاحی علمی دنیا کا ایک معروف نام ہے۔قرآنیات آپ کا اختصاصی موضوع ہے۔آپ نے بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے فضلاء مدرسۃ الاصلاح کی نمائندہ شخصیات کا تعارف کراتے ہوئے ان کی قرآنی خدمات کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا ہے۔
کتاب کا آغاز مولانا اختر احسن اصلاحیؒ کے تذکرہ سے ہوا ہے۔مولانا ایک خاموش طبع انسان تھے، قرآنی رموز پر جو مضبوط گرفت ان کی تھی وہ مولانا امین احسن اصلاحی کی بھی نہیں تھی، جس کا اعتراف خود مولانا اصلاحی کو بھی تھا۔ اولین قرآنی اکیڈمی’’دائرہ حمیدیہ‘‘ کے استحکام واستناد اور مجلہ ’الاصلاح‘ کے علمی وقار کے پیچھے مولانا اختر احسن اصلاحی کی خاموش خدمات کھڑی ہیں۔ مصنف نے ڈاکٹر عبدالحق انصاری، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا وحید الدین خاں، مولانا شاہ معین الدین ندوی کے اقتباسات نقل کرکے ان کی شخصیت کی عکاسی کی ہے اور ان کی سادگی، تقوی وطہارت اور انفاق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔آپ نے واضح کیا ہے کہ مولانا ایک مدرس اور ایک قابل قدر مربی تھے، وہ مصنف سے زیادہ مصنف گر تھے۔ اس کے بعد الاصلاح میں شائع ہونے والے ان کے مضامین کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ واضح رہے کہ مولانا کے یہ مقالات مباحث قرآن کے نام سے شائع ہو چکے ہیں جنہیں عبدالرحمن ناصر اصلاحی نے ترتیب دیا ہے۔
اس کے بعد فکر فراہی کے امین مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا ذکر ہے۔ مولانا اصلاحی اور فراہی کے تعلق کو واضح کرتے ہوئے مصنف نے وضاحت کی کہ ’’فکر فراہی کی اصطلاح وضع کرنے والے اصلاً مولانا اصلاحی ہیں، اس کی تعریف وتوصیف میں وہ عرق ریزیاں اور جانفشانیاں دکھائیں کہ فکر فراہی قرآنیات کے حوالہ سے ایک درجہ اعتبار بن گیا‘‘۔(ص:۴۴)
جماعت اسلامی کی رفاقت اور پھر اس سے علیحدگی کی طرف بھی ہلکا سا اشارہ کیا گیا۔ ’’اپنی ہی فصل پر اپنا اختیار نہ رہا‘‘ کہہ کر مولانا کی راہ میں حائل بعض دقتوں کو خوبصورتی سے سمو دیا گیا ہے۔ خالد مسعود کا ذکر آتے ہی مصنف کا اپنے قلم پر اختیار نہ رہا اور فکر فراہی کے اس عظیم سپوت کی خدمات اور اس کی توضیح وتشریح میں اس کے کارہائے نمایاں کا تذکرہ طویل ہوگیا۔اس کے بعد تفسیر تدبر قرآن کا تفصیل سے جائزہ ہے اور اس کی خصوصیات کو نمایاں کیا گیاہے۔اس کے بعد مبادی تدبر قرآن کے حوالہ سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ کتاب مختلف ایسے قواعد کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو تفسیر قرآن کے باب میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ اور آخر میں ان کی اہم تصنیف ’فلسفہ کے بنیادی مسائل قرآن حکیم کی روشنی میں‘ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مولانا ابواللیث اصلاحیؒ کی ابتدائی زندگی، تعلیم وتدریس اور عالم عرب کے اساتذہ سے استفادہ کا اجمالی ذکر کرنے کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ دور طالب علمی سے ہی ان کی ذہانت وفطانت کی جھلکیاں نظر آرہی تھیں۔وہ مجلہ ’الاصلاح‘ اور عربی مجلہ ’الضیاء‘ کے خصوصی قلمکاروں میں سے تھے۔ان کے سلسلے میں مصنف کا احساس بجا ہے کہ ’’مولانا نے قرآنیات پر جس انداز سے لکھنا شروع کیا تھا اگر یہ سلسلہ جاری رہا ہوتا تو بلاشبہ تحقیقات قرآنی کے میدان میں گراں قدر اضافہ ہوتا لیکن بعد میں ان کا یہ علمی وتحقیقی سفر تحریکی اور تنظیمی سرگرمیوں کی نذر ہوگیا‘‘۔مولانا کے مختلف مضامین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے تین مضامین ’قرآن مجید اور سجع‘ نیز ’قرآن میں تکرار کی نوعیت-اور قصہ آدم وشیطان ‘ و ’قصہ حضرت یوسف علیہ السلام- توریت اور قرآن کے بیانات کا موازنہ‘ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور مختلف اقتباسات کے ذریعہ ان کی قرآنی بصیرت کو واضح کیا گیا ہے۔
مولانا بدرالدین اصلاحیؒ کے سلسلے میں مصنف کا یہ احساس حقیقت پر مبنی ہے کہ ’’مولانا اختر احسن اصلاحی کے بعد مسودات فراہی کی نگہداشت میں جس مثالی خدمت کا فریضہ آپ نے انجام دیا اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔پروفیسر عبیداللہ فراہی نے علمی جفاکشی اور تحقیقی عرق ریزیوں کے ذریعہ تقریباً تمام ہی مسودات کو زیور طباعت سے آراستہ کر ڈالا،لیکن اس سے قبل جس توجہ سے چند مسودات کو مولانا بدرالدین اصلاحی نے شائع کیا وہ بارش کے پہلے قطرہ کی مانند تھا‘‘ (ص۱۲۰)۔آپ کی تعلیم وتدریس کے ساتھ مصنف نے آپ کے وسعت مطالعہ کا خصوصی ذکر کیا ہے۔اس کے بعد مجلہ ’الاصلاح‘ میں شائع شدہ ان کے بعض مضامین کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے محاسن کا تذکرہ کیا ہے۔
مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کی قرآنی خدمات کے ضمن میں مصنف نے ان کی چند پاروں پر مشتمل تفسیر ’’تیسیر القرآن‘‘ کا مختلف عناوین مثلاً نظم قرآن، تراجم آیات، تفسیر آیات، اسلوب تحریر وغیرہ کے تحت تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ مصنف کا یہ احساس قارئین کو دعوت مطالعہ دیتا ہے کہ ’’تیسیر القرآن جادہ اعتدال کی عمدہ مثال ہے، افراط وتفریط کا گزر نہیں، مباحث میں ایسا توازن ہے جو تدبر قرآن میں موجود نہیں‘‘ (ص۱۵۷)۔ ’افسوس کہ علوم ومعارف کا یہ بحر ذخار تفہیم القرآن کی خوبیوں کی تلاش میں گم ہوکر رہ گیا ہے‘ (ص۱۸۵)۔ اس کے بعد ان کی دو اہم کتابوں ’ قرآن کا تعارف‘ اور ’دین کا قرآنی تصور‘ کے حوالہ سے ان کی قرآنی بصیرت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مولانا داؤد اکبر اصلاحیؒ کی ابتدائی زندگی، تعلیم وتدریس اور اساتذہ کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے ماہنامہ ’ندیم‘ ’فکرونظر پاکستان‘ اور صدق وفاران میں شائع شدہ ان کے بعض مضامین کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اقسام القرآن پر ان کے مضامین کا خصوصی جائزہ ہے اور آخر میں مجلہ الاصلاح میں شائع ان کے تین مقالات ’مومن قرآن کے آئینہ میں‘ ’تقویٰ‘ اور ’خلوص‘ کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ آخر میں اپنے تاثرات کو مصنف نے یوں قلم بند کیا ہے ’مولانا کا سینہ رموز قرآن سے پٹا ہوا تھا، لیکن افسوس کہ بہت کم قرآنی نکات ان میں سے صفحہ قرطاس پر منتقل ہو سکے‘‘ (ص۲۰۳)۔
مولانا ضیاءالدین اصلاحیؒ کی علمی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی جائے ولادت، تعلیم وتدریس اور اساتذہ کا اجمالی تذکرہ ہے۔ مختلف ایوارڈس جو آپ کو تفویض ہوئے اس کی طرف اشارہ ہے۔ آپ کی تصنیفات کی فہرست نقل کی گئی ہے ،اس کے بعد ان کی کتاب ’’ایضاح القرآن‘‘ کے حوالہ سے ان کی قرآنی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف کا احساس ملاحظہ ہو، ’’فکر فراہی کی تسہیل میں آپ کا نمایاں کردار رہا ہے، شاید یہ رتبہ شارحین فراہی میں کسی کو حاصل نہیں ‘‘ (ص۲۱۰)۔ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ ’’مولانا ضیاءالدین اصلاحی کی قرآنی خدمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک حصہ وہ ہے جس میں فکر فراہی کی تشریح وترجمانی کی گئی ہے۔دوسرا حصہ وہ ہے جس میں مولانا اصلاحی نے اپنی کوششوں اور تفکر وتدبر سے نئے قرآنی نوادر اور نئی قرآنی جہات تلاش کی ہیں۔ اس کی ایک مثال ’یہود اور قرآن مجید‘ ہے (ص:۲۲۷)۔ آخر میں مختلف مجلات میں شائع شدہ مولانا کے قرآنی مضامین کی ایک طویل فہرست نقل کی گئی ہے، ان مضامین کی اشاعت کا انتظام ہو جائے تو شائقین قرآنیات کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہوگا۔
پروفیسر الطاف احمد اعظمی کا اجمالی خاکہ اور ان کی علمی خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآنیات کے میدان میں ان کی فتوحات کا تفصیلی تذکرہ ہے۔ان کی تفسیر ’’میزان القرآن‘‘ کا جائزہ پیش کرکے اس کی خصوصیات کو ان الفاظ میں اجاگر کیا گیا ہے ’’اس کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں بہت سے انگریزی مراجع سے استفادہ کیا گیا ہے۔وہ آیات جن کا تعلق میڈیکل سائنسز سے ہے ان کے رموز کو کھولنے کی ایک قابل قدر کاوش ہے۔ تاویل آیات کے بے شمار مراجع سے استفادہ کیا گیا ہے‘‘۔ (ص:۲۶۴)
مولانا عنایت اللہ سبحانی کی قرآنی خدمات کے ضمن میں ان کی دو کتابیں ’’البرہان فی نظام القرآن‘‘ اور ’’امعان النظر فی نظام الآی والسور‘‘ پر ارتکاز کیا گیا ہے۔ مصنف کتاب نے وضاحت کی ہے کہ ’’مولانا سبحانی نے مولانا ابواللیث اصلاحی کے مضمون ’قرآن میں تکرار کی نوعیت-قصہ آدم وشیاطین‘ سے بغیر حوالہ کے استفادہ کیا ہے‘‘ (ص۲۷۲)۔ اس تسلسل میں نظم قرآن اور تدوین قرآن سے متعلق مولانا سبحانی کی آراء کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی قرآنی بصیرت اور علمی خدمات کو لائق تحسین گردانا ہے۔
ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی کی تعلیم وتدریس کی طرف اجمالی اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’’ان کی علمی متانت اور تحقیقی مداومت نے انہیں عرب مصنفین ومحققین کے مابین ایک جلیل القدر محقق کی صورت میں پیش کیا ہے‘‘ (ص۲۹۴)۔فاضل مصنف نے صراحت کی ہے کہ ڈاکٹر اصلاحی نے تحقیق کو اپنا میدان منتخب کیا اور نئے نئے علمی خزانوں کی دریافت کی۔ عربی اور اردو کے معیاری مجلات میں آپ کے مقالات شائع ہوئے جن کی ایک الگ علمی وتحقیقی شان ہے۔آپ دو سال عربی مجلہ ’’ثقافۃ الہند‘‘ کے مدیر بھی رہے، اس قلیل مدت میں آپ نے اس کے علمی وقار میں اضافہ کیا (ص۲۹۶)۔ تحقیق کے میدان میں ان کی فتوحات کو قلم بند کرنے کے بعد مصنف نے اپنا احساس یوں رقم کیا ہے ’’ڈاکٹر صاحب کے ایڈیٹنگ کے میدان میں ضرور کارہائے نمایاں ہیں لیکن تخلیقی کاوشوں اور مختلف موضوعات پر فکری نگارشات اہل علم کو نہیں مل سکیں‘‘ (ص۲۹۶)۔اس کے بعد مفردات القرآن کی تفسیر وتشریح میں ان کی خدمات کو نمایاں کرکے مختلف مثالوں کے ذریعہ اسے مبرہن کیا گیا ہے۔
فاضل مصنف نے اپنی’ عرض داشت‘ میں یہ صراحت کی ہے ’’پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے قرآنیات کے بہت سے پہلوؤں پر قابل قدر تصنیفی سرمایہ فراہم کیا ہے۔ مولانا نسیم ظہیر اصلاحی کی علوم قرآن پر کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ مولانا نعیم الدین اصلاحی کی قرآنیات پر سنجیدہ آراء اہمیت کی حامل ہیں۔ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی نے قرآن کریم کے مختلف گوشوں پر فکر انگیز لٹریچر تیار کیا‘‘ (ص۱۲)۔ لیکن صفحات کی تنگ دامانی حائل رہی اس لیے صرف دس نمائندہ شخصیات کا انتخاب کیا گیا اور ان کی قرآنی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔
واضح رہے کہ قرآنیات مدرسۃ الاصلاح کا اختصاص ہے اور وہاں کے فارغین نے قرآنی فکر کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ، مولانا محمد یوسف اصلاحی، مولانا شہباز عالم اصلاحیؒ، پروفسیر اشتیاق احمد ظلی، پروفیسر عبیداللہ فراہی، پروفسیر ظفرالاسلام اصلاحی، پروفیسر عبدالعظیم اصلاحی، ڈاکٹر شرف الدین اصلاحیؒ، مولانا عبدالحسیب اصلاحی، مولانا نظام الدین اصلاحی، مولانا محمد صلاح الدین اصلاحی، مولانا ایوب احمد اصلاحیؒ، مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ، پروفیسر ابوسفیان اصلاحی، پروفیسر صفدر سلطان اصلاحیؒ، مولانا عمر اسلم اصلاحی، مولانا نسیم ظہیر اصلاحی، مولانا نعیم الدین اصلاحی اور ڈاکٹر اورنگ زیب اصلاحی وغیرہم کی ایک کہکشاں ہے جنہوں نے تالیف وتصنیف اور تدریس و دروس قرآن کے ذریعہ قرآنی فکر کو عام کرنے، مسلکی جمود کو توڑنے اور اس کے حصار سے نکل کر قرآن کے زیر سایہ زندگی کا سفر طے کرنے کی دعوت دی ہے۔ کاش کوئی ان تمام فضلائے مدرسۃ الاصلاح کی خدمات کا احاطہ کرتا تو قرآنیات کے میدان میں مدرسۃ الاصلاح کا اختصاص اور مبرہن ہو جاتا۔
کتاب کی طباعت عمدہ ہے، قیمت بھی مناسب ہے۔ امید ہے کہ اس سے مدرسۃ الاصلاح کا اختصاص نمایاں ہوگا اور علمی حلقوں میں اس کی خوب پذیرائی ہوگی۔

 

***

 قرآنیات مدرسۃ الاصلاح کا اختصاص ہے اور وہاں کے فارغین نے قرآنی فکر کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ایسے متعدد فارغین مدرسۃ الاصلاح کی ایک کہکشاں ہے جنہوں نے تالیف وتصنیف اور تدریس و دروس قرآن کے ذریعہ قرآنی فکر کو عام کرنے، مسلکی جمود کو توڑنے اور اس کے حصار سے نکل کر قرآن کے زیر سایہ زندگی کا سفر طے کرنے کی دعوت دی ہے۔ کاش کوئی ان تمام فضلائے مدرسۃ الاصلاح کی خدمات کا احاطہ کرتا تو قرآنیات کے میدان میں مدرسۃ الاصلاح کا اختصاص اور مبرہن ہو جاتا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024