کسانوں کی راہوں میں کانٹے اور صنعت کاروں کے وارے نیارے

ایم ایس پی کے سوال پر خاموشی! فلاحی فنڈ میں سال بہ سال کٹوتی۔’مدر آف ڈیموکریسی میں کسان سراپا احتجاج کیوں ہیں؟

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ملک میں ہر دن 30کسان خودکشی کرتے ہیں، آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ دھرا رہ گیا!
توازن ، اعتدال اور ترجیحات کی صحیح نشان دہی کئے بغیر ملک ہمہ جہت ترقی نہیں کرسکتا
تین سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر ملک کے کسان مرکزی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔وہی تمام نظارے ہیں جو تین سال قبل ہم نے دیکھے تھے۔احتجاجی مظاہرے، حکومتی پالیسیوں کی تنقید اور اختلاف رائے کا اظہار ’’مضبوط جمہوریت ‘‘ کی علامتیں ہیں مگر عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ایک طرف دعویٰ ہے کہ بھارت دنیا کے جمہوری ممالک کی ماں (Mother of Democarcy) ہے اور ملک میں وزیر اعظم نریندر مودی کے قد اور ان سے بڑھ کر با اعتماد لیڈر نہیں ہے اور دوسری طرف ملک میں احتجاج، مظاہرے اور اختلاف رائے کے مواقع سکڑتے جارہے ہیں۔ تنقید کی ہرآواز کو خاموش کرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔چناں چہ تین سال قبل جب یہ کسان تین زرعی بلوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے دلی کا رخ کیے تھے اس وقت بھی حکومت کا رویہ معاندانہ ،مخاصمانہ اورغیر جمہوری تھا۔میڈیا کے دوستوں اور سوشل میڈیاکے اپنے ویروں کے ذریعہ سی اے اے کی تحریک کی طرح کسان تحریک کو بھی فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ۔اسے خالصتانی تحریک کا نام دیا گیا ۔میڈیا کسانوں کے مسائل ، ان کی پریشانیوں اور ان کے تحفظات کو سامنے لانے کے بجائے پوری تحریک کو نقصان پہنچانے کی سر توڑ کوشش کی گئی۔ کسانوں نے غیر متزلزل اعتماد و یقین کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلسل کے ساتھ احتجاج جاری رکھا۔ طویل مدت تک جاری رہنے والی اس تحریک کے کسی بھی موڑپر اپنی صفوں میں دراڑ پڑنے نہیں دی۔ نتیجے میں ڈرامائی انداز میں مودی حکومت نے کسان بِلوں کو واپس لیا۔اس وقت کسانوں کے دو بنیادی مطالبات تھے ۔پہلا مطالبہ تین زرعی بلوں کی منسوخی اور دوسرا مطالبہ تمام فصلوں پر MSP (کم سے کم امدادی قیمت) کے لیے قانون سازی ۔زرعی بلوں کی واپسی کے بعد حکومت نے اس پر کام کرنے، اصلاحالات لانے اور کسانوں کی آمدنی 2022 تک دگنی کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی ۔اس کمیٹی کے زیادہ تر ارکان حکومت کے حامی تھے اس لیے کسان تنظیموں نے کمیٹی کا بائیکاٹ کردیا۔ اس درمیان حکومت نے سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور کسان لیڈروں کے ساتھ بات چیت ناکام ہونے کے بعد کسانوں نے دلی کی طرف مارچ کرنے کاایک بار پھر فیصلہ کیا۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا بدستور باقی ہے۔ کسانوں کی تنظیمیں حکومت کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیوں کہ کسانوں کی تحریک کے بعد حکومت نے کسانوں کے مطالبات کو حل کرنے اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں نے ایک بار پھر احتجاج کا سہارا لینے کافیصلہ کیا۔اس مرتبہ کسانوں نے اپنی تحریک کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے سو دن اسکیم اور زرعی مزدوروں کی حالت کو بہترکرنے کے مطالبات کو بھی شامل کرلیا ہے۔مگر احتجاج کا بنیادی مطالبہ تمام زرعی اشیا کو ایم ایس پی کے تحت لانا ہے۔
تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر کسان تمام زرعی اشیا کو ایم ایس پی کے تحت لانے کےلیے قانون سازی کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں؟کیا ایم ایس پی کے تحت آنے سے کسانوں کی حالت بہتر ہوجائے گی۔کیا کسانوں کی خودکشی کا سلسلہ رک جائے گا۔ان کی آمدنی میں بہتری آئے گی؟ حکومت تمام زرعی اشیا کے لیے ایم ایس پی قانون سازی کرنے سے پہلوتہی کیوں کر رہی ہے؟ حکومت کو خوف ہے کہ کہیں اس کی وجہ سے کارپوریٹ گھرانے ان سے ناراض نہ ہوجائیں۔ کیوں کہ آج مودی کے قریبی کارپوریٹ زرعی اشیا کی مارکیٹنگ ، فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری میں سرمایہ کارری کررہے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ ایم ایس پی کی وجہ سے کارپوریٹ گھرانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ہم ان سوالوں پر آگے بات کریں گے مگر پہلے یہ سوال اہم ہے کہ ایک طرف ’’جے جوان اور جے کسان‘‘ کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف جائز مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والے کسانوں کی راہوں میں کانٹے بچھائے جارہے ہیں۔ خاردار اور نوکیلی کیلیں نصب کیے جارہے ہیں اور کسانوں پر ڈرون کے ذریعہ آنسو گیس چھوڑے جا رہے ہیں؟کیا یہ رویہ مدر آف ڈیموکریسی کی توہین نہیں ہے؟ مگر اس صورت حال کا سب سے افسوس ناک پہلو کسانوں کے خلاف حکومت کے اس جابرانہ رویے پر سول سوسائٹی کی تنظیموں ، سماجی کارکنان، میڈیا اور حقوق انسانی کے اداروں کی خاموشی ہے۔ کیا قومی حقوق انسانی کمیشن کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ احتجاج کے حق کی حفاظت کریں۔ کیا ڈرون کے ذریعہ احتجاج میں شامل افراد کی جاسوسی کا کوئی آئینی اور قانون جواز ہے؟ کسانوں کے سوال کو سیاسی وفاداریوں کے نام پر تقسیم کیوں کیا جارہا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسانوں کی تحریک کا تعلق کسی خاص مذہب اور ذات و برادری سے نہیں ہے ۔اس لیے اس کو مذہبی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے مگر کیا مذہبی تنظیموں بالخصوص مسلم تنظیموں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کسانوں کے جائز مطالبات کے ساتھ شدت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں تاکہ اس تصور کا ازالہ ہوسکے کہ مسلم تنظیمیں صرف مسلمانوں کے مسائل کی حل تک خود کو محدود کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن انہیں ملک اور عام لوگوں کے مسائل سے بھی دلچسپی ہونی چاہیے۔
ملک میں کسانوں کی صورت حال
وزارت برائے شماریات اور پروگرام کے نفاذ کے ذریعہ جاری کردہ اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 2013 اور 2022 کے درمیان کسانوں کی آمدنی میں 59 فیصد اضافہ ہوا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ان کے قرضوں میں بھی 58 فیصد اضافہ ہوگیا ہے ۔پنجاب جیسی خوش حال ریاست میں کسانوں کو اس قدر مشکلات درپیش ہیں کہ ان کے بچے زراعت سے وابستہ ہونے کے بجائے امریکہ یا پھر کنیڈا جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔بڑی آبادی پہلے ہی منتقل ہوچکی ہے اور اب گاوں و دیہاتوں میں بزرگ، خواتین اور بچوں کی تعداد بچی ہوئی ہے۔ان کی زراعت بنگال، بہار، آسام سے آنے والے والے غیر مقیم مزدوروں پر منحصر ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم مودی کے دس سالہ دور حکومت میں زراعت کے شعبے میں 1,00,474 افراد نے خود کشیاں کی ہیں ۔ملک میں اوسطاً یومیہ تیس کسان خود کشی کرتے ہیں، اس کے باوجود بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ مودی کے دور حکومت میں کسی بھی کسان نے خود کشی نہیں کی ہے۔ کسانوں کی یہ سب سے بڑی شکایت ہے کہ اس کے مسائل و ایشوز پر میڈیا جیسے ادارے میں بھی بات چیت نہیں ہوتی ہے بکہ ان کا منفی چہرہ ہی پیش کیا جاتا ہے۔ مودی حکومت کی دوسری مدت میں کسانوں کی کل خود کشی کی سالانہ تعداد میں10,281 سے بڑھ کر 11,290 تک پہنچ گئی ہے۔اس میں زرعی کارکنوں میں خود کشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو 4,324 سے بڑھ کر 6,380 تک ہوگئی ہے۔ مہاراشٹرا، ودھربھ اور مرہٹواڑا کے علاقوں میں بدترین صورت حال ہے۔
عوامی سرمایہ کاری میں کمی، کلیدی صنعتوں کا پرائیوٹائزیشن، بیرونی تجارت کا آغاز، ریاستی سبسیڈی میں کمی اور زرعی شعبہ کے سکڑاو نے کسانوں کی زندگی کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ مہنگائی، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں کی بربادی نے کسانوں کو مایوس کر دیا ہے۔ لبرلائزیشن کے بعد سے تین دہائیوں میں کاشتکاری کا شعبہ بحران کا شکار ہے۔ حکومتی سطح پر خالی بیانات، ناکام اسکیمیں اور زراعت کے شعبے کے مرکزی حکومت کے فنڈ میں مسلسل گراوٹ نے اس ملک کے کسانوں کو گہری مایوسی کے عالم میں پہنچا دیا ہے۔ آب و ہوا کا بحران، جو دوبارہ نو لبرل ازم کے تحت کئی دہائیوں کی نشوونما کے ذریعہ بڑھ گیا ہے، کسانوں کے سامنے ایک اور چیلنج پیش کرتا ہے کیونکہ گرمی کی لہروں، کم پیداوار اور موسم کے تباہ کن واقعات کی وجہ سے فصلیں بڑے پیمانے پر تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں کسانوں پر مالی بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورت حال بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔اگر حکومت موت کے اس رقص کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے کسانوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ محض کاسمیٹک اقدامات، مرنے والے کسانوں کے لیے امدادا کا اعلان اور کسان نیدھی جیسی نام نہاد یوجنا سے کسانوں کے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ تمام زرعی اشیا کی بہتر قیمت فراہم کیے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور قانون سازی کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
تمام زرعی پیداوار کو ایم ایس پی کے تحت لانے کا مطالبہ کیوں جاتا ہے؟
بھارت میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ زراعت متاثر ہو رہی ہے۔کبھی زیادہ بارش تو کبھی توقع کے خلاف سردی اور گرمی نے پیداوار اور زراعتی اشیا کے معیار کو متاثر کیا ہے۔دوسرے یہ کہ مارکیٹ پر دلالوں کی اجارہ داری، کارپوریٹ گھرانوں کے دبدبے سے مارکیٹ مکمل طور پر چند ہاتھوں محصور ہوکر رہ گئی ہے اس کی وجہ سے کسان کم قیمت پر اپنا سامان فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ او ای سی ڈی کے ایک مطالعہ کا اندازہ ہے کہ 2022 میں کسانوں کو کم قیمت کی وجہ سے 14 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہواہے۔ کسانوں کو دی جانے والی سب سیڈی سے 3.5 دگنی ہے۔چناں چہ پنجاب اور ہریانہ کی سرحدوں پر جمع ہونے والے ہزاروں کسانوں کا مطالبہ ہے کہ کم از کم قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی ضمانت دی جائے۔ایم ایس پی کا مقصد کسانوں کو ہر سال ہونے والے نقصانات سے بچانا ہے۔ قانون سازی کا مطالبہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ہرسال مرکزی حکومت 22 فصلوں کے لیے ایم ایس پی کا اعلان کرتی ہے لیکن اپنی فوڈ سیکیورٹی اسکیموں کے لیے صرف چاول اور گیہوں کی خریداری کرتی ہے۔ زیادہ تر گندم اور چاول جو حکومت خریدتی ہے وہ پنجاب اور ہریانہ سے آتا ہے۔ دونوں ریاستوں نے 2022-23 میں حکومت کی طرف سے خریدی گئی گندم کا تقریباً 74فیصد اور دھان کا 28فیصد حصہ لیا۔ چوں کہ دھان اور گندم کی بہتر قیمت مل جاتی ہے اس لیے ہریانہ اور پنجاب کے کسان اپنی پوری توجہ چاول اور گندم کی کاشت پر مرکوز کرتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں پنجاب اور ہریانہ کو مٹی اور پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
ضروری زرعی اشیاء کی قیمت کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایم ایس پی ایک آسان طریقہ کار ہے۔ اسی طرح کے طریقہ کار دوسرے ممالک میں کسانوں کو دستیاب ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جب مارکیٹ کی قیمتیں ایم ایس پی سے نیچے آجائیں تو حکومت فعال ہو جائے اور کسانوں کو قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے بچالے۔ ایم ایس پی کا تصور اور نظام اس ملک میں پانچ دہائیوں سے موجود ہے۔ اس وقت کسانوں کے دو مطالبے ہیں، پہلا یہ کہ تمام زرعی اشیاء کو ایم ایس پی کے دائرہ کار میں لایا جائے تاکہ کسانوں کی زراعت میں تنوع آسکے اور وہ بے خوف ہو کر ان فصلوں کی بھی کاشت کریں جو ماحول دوست ہیں اور پانی کا بھی کم سے کم استعمال ہو۔ چوں کہ ہر سال حکومت بوائی کے سیزن سے پہلے 23 فصلوں کے لیے ایم ایس پی کا اعلان کرتی ہے۔ لیکن زیادہ تر فصلوں پر ایم ایس پی نہیں ملتی ہے۔ حکومت اس کے لیے کوئی مداخلت بھی نہیں کرتی ہے۔عملی طور پر صرف چاول اور گندم، دو بڑی فصلوں اور کبھی کبھار دالوں اور دیگر فصلوں کے لیے ایم ایس پی نافذ ہوتا ہے۔ ہریانہ، پنجاب اور راجستھان کی حکومتیں غیر ایم ایس پی فصلوں کے لیے معاوضے کا اعلان کرتی تھیں مگر اس کے لیے کوئی باضابطہ نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے کسانوں کی بڑی تعداد اس سہولت سے محروم رہ جاتی ہے۔ کسانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیگر بڑی فصلوں جیسے مونگ، سرسوں اور سورج مکھی کی مناسب قیمت حاصل کرنے کے لیے بھی انہیں جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔ اگرچہ حکومت ان فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمتوں کا اعلان کرتی ہے لیکن وہ ان قیمتوں پر خریداری نہیں کرتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکثر حکومت کی صوابدید پر منحصر ہوتی ہیں اس لیے کسان چاہتے ہیں کہ اس کو قانون کے دائرے میں لایا جائے اور تمام فصلوں پر نافذ کیا جائے۔ مثال کے طور پر اکتوبر 2021 میں آٹھ بڑی فصلیں جیسے مونگ پھلی، باجرہ، جوار، مکئی اور دیگر فصلیں ایم ایس پی کی قیمت پر خریدی گئیں۔ کسانوں کی یہ بھی دلیل ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی زیادہ غیر یقینی صورتحال پیدا کرتی ہے اور زرعی پیداوار کے معیار کو متاثر کرتی ہے۔ حکومت کی گارنٹی اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ چاول اور گندم کی کاشت سے آگے بڑھ سکیں۔ کسانوں کی شکایت ہے کہ ایک طرف، حکومت ان سے مطالبہ کرتی ہے کہ زیر زمین پانی کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔ اور وہ کیمیائی زراعت سے دور رہیں۔بھارتیہ کسان یونین ایکتا اور گرہان کے مقامی کے صدر منجیت سنگھ گھرانچون کہتے ہیں کہ اگر ہمیں اپنی فصل کی تبدیلیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے MSP نہیں مل رہی ہے تو ہم اکیلے آخر کیا کیا تبدیلیاں کر سکتے ہیں؟
مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کسانوں کے ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے گریز کیوں کر رہی ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ آخر حکومت کے خدشات کیا ہیں؟ جس کے جواب میں یہی بات سامنے آتی ہے کہ حکومت کی پہلی دلیل یہ ہے کہ تمام فصلوں کو ایم ایس پی کے تحت لانے سے سرکاری خزانے پر بوجھ پڑے گا۔پہلے ایم ایس پی کے لیے حکومت کو 10 لاکھ کروڑ روپے کی گرانٹ دینی پڑتی تھی اب قانونی ضمانت اور تمام فصلوں کو اس کے دائرے میں لانے سے 27 لاکھ کروڑ روپے تک خرچ بڑھ جائے گا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ پوری فصل خریدنی ہوگی اور یہ انتظامی سطح پر نہیں ہے۔ پرائیوٹ تاجر مارکیٹ میں نہیں آئیں گے اور اس کا نقصان کسانوں کو ہی ہوگا۔ حکومت کی تیسری سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بھارت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا ممبر ہے اور اس کے قوانین و ضوابط پر عمل کرنا لازمی ہے۔ حکومت کو اندیشہ ہے کہ اس کے بعد مویشی تاجر، دودھ انڈسٹری اور باغبانی سے وابستہ کسان بھی اس طرح کے مطالبات کے لیے سامنے آجائیں گے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے ریٹائرڈ پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں ’’اس وقت ایم ایس پی کے دائرہ میں 23 فصلیں ہیں مگر صرف گندم اور دھان پر ہی ایم ایس پی ملتی ہے۔ شوگر مل مالکین کو بھی ایم ایس پی کے تحت ادائیگی پر مجبور کیا گیا ہے۔ لہٰذا صرف یہ تین فصلیں منافع کی یقین دہانی کراتی ہیں جو دوسری فصلیں نہیں کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں زیادہ تر کسان صرف انہی تین فصلوں کی کاشت کرنا چاہتے ہیں۔ زرعی موسم کے ساز گار ہونے کے باوجود کم منافع والی فصلیں نہیں اگائی جاتی ہیں۔پنجاب اور ہریانہ میں کسان لگاتار دھان اور گندم کی کھیتی کر رہے ہیں اس سے آبی ذخائر بتدریج کم ہو رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ملک میں ان تین فصلوں کی زیادہ پیدوار ہونے کی وجہ سے حکومت کے پاس بڑا ذخیرہ کرنے کی گنجائش ناکافی ہوتی ہے جس کے سبب بہت زیادہ غلہ کا ضیاع ہو جاتا ہے۔ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (FCI) کو اسٹاک کی خریداری اور عوامی تقسیم کے نظام (PDS) میں جاری کرنے کے لیے بھاری سبسیڈی دی جاتی ہے۔ اگر تمام فصلوں کے لیے ایم ایس پی نافذ کیا جاتا ہے تو تمام فصلوں میں منافع یکساں ہوگا اور پھر کسان زرعی موسم کی مناسبت سے ہر قسم کی فصلیں اگائیں گے۔ نتیجتاً کچھ فصلوں کا اضافی ذخیرہ بھی ختم ہو جائے گا۔ان فصلوں کی زیادہ پیداوار ہوگی جن کی مانگ زیادہ ہے اور بھارت کو برآمد کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ سے زر مبادلہ کی بچت ہوگی۔ ایف سی آئی کو دی جانے والی سبسیڈی میں زبردست کمی آئے گی اور خوراک کا ضیاع کم ہو جائے گا۔ کیونکہ ایم ایس پی کی گیارنٹی کے رہتے زرعی و موسمی حالات کے مطابق فصلیں اگائی جائیں گی اور اس سے ماحولیاتی نقصان میں بھی کمی آئے گی‘‘۔
1960 کی دہائی کے اواخر میں بھارت نے سبز انقلاب کا تجربہ کیا۔ زراعت میں بھارت نے خود کفیل ہونے کی پالیسی اختیار کی۔ یہ الگ سوال ہے کہ سبز انقلاب سے کسانوں کو کیا ملا مگر جلد ہی یہ ایک دو دھاری تلوار بن گیا۔ زرعی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے کسان معاشی طور پر خوشحال تو ہوئے مگر پانی کی ضرورت والی فصلوں کی وجہ سے زمین کی سطح میں پانی کی قلت ہوتی چلی گئی۔ 2004 اور 2017 کے درمیان ہریانہ میں پانی کے دباؤ والے بلاکس 63 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہو گئے اور پنجاب میں، 82 فیصد سے بڑھ کر 84 فیصدہو گئے۔شمالی بہار جو پہلے ہی سیلاب کی وجہ سے سال کے کئی مہینے زیر آب رہتا تھا وہاں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان علاقے میں بارش کم ہو رہی ہے نتیجتاً بہار کے کئی علاقوں میں ہینڈ پمپ خشک ہو گئے ہیں۔کسانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ماحولیاتی عوامل اب زرعی پیداوار پر اور بھی زیادہ اثر ڈال رہے ہیں۔ شدید موسمی واقعات پیداوار اور معیار کو کم کر رہے ہیں، اس کی وجہ سے فصل کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔
ہریانہ، پنجاب اور راجستھان کے کسانوں کو بھی ہرسال موسم سرما میں فضائی آلودگی کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ اگلی گندم کی فصل کے لیے اپنے کھیتوں کو جلدی سے تیار کرنے کے لیے کٹے ہوئے دھان کے پرالی کو جلاتے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی بحران سے نکلنے کے لیے ماہرین زراعت کہتے ہیں کہ کسانوں کو اپنی کاشت میں تنوع لانا ہوگا جبکہ کسان کہتے ہیں کہ وہ اسی وقت تنوع لاسکتے ہیں جب حکومت کی طرف سے قانونی ضمانت مل جائے کہ انہیں نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
کسانوں کی فلاح وبہبود اور سبسیڈی کے نام پر سیاست کی حقیقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت صرف کسانوں کو سبسیڈی فراہم کرتی ہے؟ دراصل تمام زرعی فصلوں پر ایم ایس پی، قرض کی معافی، کسانوں اور زرعی مزدوروں کے لیے پنشن، 700 روپے فی دن کی کم از کم اجرت کی شرح اور منریگا کارکنوں کو کسانوں کے کھیتوں میں کام کرنے کی اجازت دینے کے مطالبات وغیرہ پر حکومت اور ان کے حامی معاشی ماہرین کی دلیل یہ ہے کہ ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے ملک پر معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت صرف کسانوں کو سبسیڈی نہیں دیتی ہے بلکہ کسانوں سے کہیں زیادہ مراعات صنعت کاروں کو دی جاتی ہیں۔ پی ایل آئی اسکیم کے تحت بڑی کارپوریشنوں کو بھاری سبسیڈی فراہم کی جاتی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں 4.48 کروڑ روپے کی سبسیڈی صنعت کاروں کو دی گئی۔صنعت کاروں کو تو زمین، پانی اور بجلی پر بھی سبسیڈی دی جاتی ہے۔مودی حکومت کی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2022-23 میں کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختص مجموعی فنڈ کا 22.3 فیصد کم خرچ کیا گیا ہے۔2023-24 کے بجٹ میں نظر ثانی شدہ بجٹ کے مقابلے میں 6 فیصد کمی کی گئی ہے۔ آل انڈیا کسان سبھا (AIKS) نے حالیہ عبوری یونین بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لگاتار دسویں بار کسان مخالف بجٹ منظور کیا گیا ہے۔ آل انڈیا کسان سبھا کے پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ کسانوں کو فائدہ پہنچانے اور ان کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی عزم نہیں ہے۔ 2024-25 میں کھاد کی سبسیڈی کے لیے مختص رقم 2022-23 کے اصل اخراجات سے 87,339 کروڑ روپے سے کم مختص کی گئی ہے۔ فوڈ سبسڈی کے لیے مختص رقم اصل اخراجات سے 6,755 کروڑ روپے کم ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیہی ترقیاتی اسکیموں، پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا، شجرکاری، سیلاب پر قابو پانے اور نکاسی آب، زمینی اصلاحات، کھاد کی سبسیڈی، خوراک کی سبسیڈی، ڈیری ڈیولپمنٹ، مٹی اور پانی کے تحفظ کے بجٹ میں بھی کٹوتی کی گئی ہے۔ یہ مالیاتی اعداد و شمار صاف واضح کرتے ہیں کہ کسانوں اور دیہی بھارت، حکومت کے ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ مودی حکومت اپنی مالیاتی پالیسی میں نجی شعبہ جات کو فروغ دے رہی ہے اور اب بھی ایسی حکمت عملی اپنانے کے لیے تیار ہے جو کاشتکاری کے کارپوریٹائزیشن کو فروغ دیتی ہے۔ مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (ایم جی این آر ای جی اے) کے فنڈ میں لگاتار کٹوتی کی جا رہی ہے۔2014-15 میں مالی سال کے کل بجٹ کا 1.85 فیصد کسانوں کے لیے فنڈ مختص کیا گیا تھا جو 2023-24 میں کم ہو کر 1.33 فیصد تک نیچے آگیا ہے، لیکن اس اسکیم نے بنیادی طور پر زمین کے مالک کسانوں کو فائدہ پہنچایا ہے اور بے زمین زرعی مزدوروں کی ضروریات کو نظر انداز کیا ہے۔ ہندوستان میں متنوع زرعی زمین کی تزئین کے لیے ایک ہی سائز کے فٹ بیٹھے ہوئے نقاط نظر مناسب نہیں ہیں، جیسا کہ این سی آر بی کی رپورٹ میں دکھایا گیا ہے جہاں 2019 کے بعد سے بے زمین زرعی مزدوری کی اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
دراصل لگاتار انتخابی کامیابی اور کسانوں کی طویل احتجاج کے باوجود اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کے بعد وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے پالیسی سازوں کو یقین ہوگیا ہے کہ کسانوں کے احتجاج کا ان کی انتخابی کامیابی و ناکامی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، چناں چہ حکومت کسانوں کی آواز سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔مذاکرات تو ہو رہے ہیں مگر کسان تحریکوں سے وابستہ لیڈروں کے احساسات یہی ہیں کہ یہ سب وقت گزاری کے لیے کیے جا رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی پالیسیاں صرف انتخابی فائدے اور نقصانات کے تناظر میں مرتب کی جائیں گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ ماحولیاتی بحران کی وجہ سے اگر پیداوار میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے تو کیا بھارت جیسے کثیر آبادی والے ملک میں غذائی ضروریات کا انحصار درآمدِ غلہ پر کیا جا سکتا ہے؟ آزادی کی سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھارت کے کسانوں کی عالمی منڈی تک براہ راست رسائی نہیں ہوسکی ہے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کی حدیں مقرر کی جائیں۔ اس ملک کے عام شہریوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر ملک کے کسان بے حال ہوجائیں گے، زراعت غیر منافع بخش سیکٹر میں تبدیل ہوجائے گی تو اس سے نہ صرف افراط زر میں اضافہ ہوگا بلکہ غذاکی قلت کی وجہ سے ملک میں بھکمری اور مفلوک الحالی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ سڑکیں، ہوائی اڈے اور انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری ضروری ہے مگر ملک کے دیہی علاقوں، کسانوں کی صورت حال اور زرعی مزدوروں کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑے ہونے کا بھارت کا خواب چکنا چور ہوسکتا ہے۔ امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے کسان بھی احتجاج کرنے لگے ہیں اور یہ لبرلائزیشن، انڈسٹرلائزیشن اور اگریکلچر ثقافت کے درمیان عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اور یہ بڑا سبق ہے کہ توازن، اعتدال اور ترجیحات کی صحیح نشان دہی کیے بغیر ملک ہمہ جہت ترقی نہیں کرسکتا ہے۔
***

 

***

 عوامی سرمایہ کاری میں کمی، کلیدی صنعتوں کا پرائیوٹائزیشن، بیرونی تجارت کا آغاز، ریاستی سبسیڈی میں کمی اور زرعی شعبہ کے سکڑاو نے کسانوں کی زندگی کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ مہنگائی، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں کی بربادی نے کسانوں کو مایوس کر دیا ہے۔ لبرلائزیشن کے بعد سے تین دہائیوں میں کاشتکاری کا شعبہ بحران کا شکار ہے۔ حکومتی سطح پر خالی بیانات، ناکام اسکیمیں اور زراعت کے شعبے کے مرکزی حکومت کے فنڈ میں مسلسل گراوٹ نے اس ملک کے کسانوں کو گہری مایوسی کے عالم میں پہنچا دیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024