خبر و نظر

پرواز رحمانی

سرکاری ایجنڈا کیا ہے
سرکاری مفادات کے پابند جرنلسٹ اور اینکر ملک کی نام نہاد ترقی کے کارنامے عوام کو بتاکر سرکار کے لیے ووٹ حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پرائم منسٹر کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں رات دن مصروف ہیں۔ دنیا بھر میں پروپگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مودی کے دور میں ملک نے زبردست ترقی کی ہے اور یہی ہیں جو ملک کو آگے بھی ترقی د یں گے۔ اس لیے ووٹ صرف اسی سرکار کو دیے جائیں۔ ادھر وزیر اعظم مودی نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ آئندہ سال بھی وہی آئیں گے اور اسی لال قلعہ سے خطاب کریں گے۔ یہ اعلان 15؍ اگست کو یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد جنوری میں اجودھیا میں ’رام مندر کا ادگھاٹن ہوا۔ اس پروگرام میں وزیر اعظم نے کسی کو قریب آنے نہیں دیا۔ اب دبئی میں مندر کا افتتاح کیا گیا ہے۔ یہاں بھی صرف مودی ہی مودی تھے۔ البتہ سرکاری کارندوں کو بڑا موقع مل گیا کہ ان کے مودی دنیا میں ہندو کلچر کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ اس طرح کا پروپیگنڈا ملک کی ترقی کا کیا جا رہا ہے لیکن ووٹ ہندتو کے نام پر مانگے جا رہے ہیں۔ اس لیے مبصرین کہتے ہیں کہ مودی کے پاس ہندتو کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے جس سے وہ عوام سے ووٹ مانگ سکیں۔ اس لیے اندرون ملک بھی ہندوازم کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ اقلیتوں کو ڈرانا، دھمکانا، مارنا، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرنا، انہیں ہر شعبہ زندگی میں پریشان کرنا، یہ سب ہندتو ہے۔ گویا ہندتو یہی ہے کہ مخالف عقیدہ و کلچر کے لوگوں کو ہراساں کیا جائے۔ اس لیے ملک میں یہ سب ہو رہا ہے اور مودی کو اطمینان بھی ہے کہ ان تماشوں کی بدولت وہ ہندووں کے ووٹ حاصل کرلیں گے۔ مودی کا میڈیا ان کا میڈیا اور پرم بھکت ووٹر جی جان سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں ۔

کیا یہ طریقہ کام آئے گا؟
لیکن کیا حکومت کی یہ چال بازیاں انتخابات میں کسی بھی درجے میں کام آئیں گی؟ صورت حال تو یہ بتاتی ہے کہ یہ سب نہیں ہوگا، یہ دھوکا ہے جو غلاموں کو دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ مودی کے ان بلند بانگ دعووں اور اچھل کود کے پیچھے اصل طاقت ای وی ایم کی ہے جسے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ان کے ہاتھوں میں ہے، اسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ مودی ہندتو کا شور تو ضرور مچا رہے ہیں لیکن جانتے ہیں کہ یہ بے جان عمل ہے، اصل کام مشین سے لینا ہے۔ بہت سے دانشور، جرنلسٹ اور پڑھے لکھے لوگ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ سب سے زیادہ زور اسی بات پر دے رہے ہیں کہ ای وی ایم کو ہٹانے کی کوشش کی جائے۔ اس کام میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور دیگر عدالتوں کے سرکردہ وکلاء پیش پیش ہیں۔ سیاسی پارٹیوں سے بھی ان کا یہی مطالبہ ہے کہ اس دھوکے باز مشین پر توجہ دیں۔ مگر سیاسی پارٹیاں غالباً مصلحتاً ایسا نہیں کر رہی ہے۔ وہ مصلحت شاید یہ ہے کہ موقع ملا تو وہ بھی یہی کریں گی۔ ہر پارٹی مرکز میں اور ریاست میں برسر اقتدار آنا چاہتی ہے۔ اگر انہوں نے بھی ای وی ایم کے خلاف مہم چھیڑ دی تو بعد میں وہ اسے استعمال نہیں کرسکیں گے، لیکن سب سے صاف ستھری بات یہ ہے کہ ای وی ایم کے ساتھ جب اتنے گھوٹالے ہیں تو اسے کالعدم قرار دے دیا جائے اور روایتی بیلٹ پیپر استعمال کیا جائے۔ وکیلوں نے یہ مسئلہ بہت بڑے پیمانہ پر اور بہت زور سے اٹھایا ہے اور عام لوگ بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن جن لوگوں کے ہاتھوں میں مشین ہے وہ بہت مضبوط اور سرکاری لوگ ہیں۔ اصل لڑائی ان سے ہونی چاہیے۔

ذاتی مفاد سے اوپر اٹھیے
ہندتو کی مہم سے وزیر اعظم کو تھوڑا بہت فائدہ تو ضرور ہوگا۔ حکومت اور وزیر اعظم کے پرم بھکت یعنی پکے لوگ اقلیت مخالف لوگ ماحول خراب کریں گے بات بات پر جھگڑے ہوں گے۔ کوئی بڑا واقعہ بھی ہو سکتا ہے لیکن بی جے پی کو ووٹ صرف پرم بھکتوں کے ملیں گے تو ویسے بھی ملتے ہیں لیکن اقلیتوں کا کوئی ووٹ نہیں ملے گا۔ ہاں اقلیتوں کے ووٹ تقسیم ضرور ہو جائیں گے جس سے اپوزیشن کو نقصان ہوگا لیکن اگر سیاسی پارٹیاں مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں تو یہ میدان سر کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں چھوٹے چھوٹے ذاتی اور گروہی مفادات ترک کردیں۔ ذاتی مفادات کی بالکل پروا نہ کریں۔ کچھ علاقائی لیڈر اب بھی وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس سے بنا بنایا کام بگڑ سکتا ہے۔ ای وی ایم اگر ایک بار منسوخ ہوگیا جیسا کہ وکلاء کوشش کر رہے ہیں تو ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ مستقبل میں کوئی پارٹی اسے بحال نہیں کر سکے گی۔ جن ملکوں نے ای وی ایم کا تجربہ کیا تھا انہوں نے اس کے دور گامی ناکامیاں دیکھ کر ہمیشہ کے لیے خود ہی توبہ کرلی۔ مخالف پارٹیوں میں سے ترنمول کانگریس کی لیڈر، بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر، دہلی کی عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور نتیش کمار جو اب بی جے پی کے ساتھ چلے گئے ہیں وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں، اسی لیے راہول گاندھی کی کانگریس کے ساتھ کھلے دل بھی آنا نہیں چاہتے۔ جب کہ راہول نے 2024 کی پرائم منسٹرشپ سے خود کو دورکرلیا ہے وہ ملک ارجن کھرگے کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن ان کے نام کا اعلان ابھی باقاعدہ نہیں کیا ہے اس لیے کہ ایک بڑی تعداد ہے جو راہل گاندھی کو پی ایم دیکھنا چاہتی ہے۔ راہل کے لیے آگے مواقع ہیں۔ اگر اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کو تخت سے ہٹانا چاہتی ہیں تو انہیں دور اندیشی سے کام لینا ہوگا۔ ذاتی تمناوں سے اوپر اٹھنا ہوگا۔