فلسطین میں جاری ثقافتی نسل کشی روکی جائے

مسلمانوں اور عیسائیوں کے تقریباً دو سو تاریخی مقامات تباہ یا ناقابل تلافی نقصانات کی لپیٹ میں

اسد مرزا

اسرائیلی حملوں کا مقصد دیگر مذاہب کے ثقافتی ورثے کا مکمل خاتمہ ہے تاکہ اس زمین کا کوئی دعویدار ہی نہ رہ سکے
فلسطین کی وہ جنگ جسے شروع میں ایک انسانی المیے کے طور پر دیکھا جارہا تھا اب اس نے صہیونی حکمت عملی اور منصوبے کا ایک اور رخ بھی بے نقاب کر دیا ہے، وہ ہے فلسطین کی ’ثقافتی نسل کشی‘۔ مسلسل گولہ باری اور بمباری نے غزہ کے سو سے زائد تاریخی ورثے تباہ کر دیے ہیں جن کا تعلق مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے مذاہب سے ہے جو کہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی موجود تھے۔
ایک طرح سے اِسے فلسطینی سرزمین کے تہذیبی خزانوں اور وراثت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ایک غیر مہذب کوشش قرار دیا جاسکتا ہے تاکہ مستقبل میں اس پر کوئی دعویٰ نہ کر سکے اور صہیونی لابی اسے اپنے پیروکاروں اور ہمدردوں کے لیے وعدہ شدہ سرزمین قرار دے سکے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق پچیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کرنے اور علاقے میں ہزاروں گھروں کو تباہ کرنے کے علاوہ اس علاقے کے قدیم اور عالمی سطح پر اہم ثقافتی ورثے کو بھی زبردست نقصان پہنچایا گیا ہے۔ یہ خطہ مصری، یونانی، رومن اور بازنطینی حکومتوں کے تحت تجارت اور ثقافت کا مرکز رہ چکا ہے اور ان کے بعد صدیوں تک اس کا اثر وہاں موجود رہا ہے۔
غزہ دنیا کے قدیم ترین گرجا گھروں اور مساجد کا گھر ہے، لیکن ان میں سے بہت سے تاریخی مقامات اسرائیل کے فوجی حملے کی وسیع پیمانے پر تباہی سے بچ نہیں پائے ہیں۔ 117 مذہبی مقامات میں سے، جنہیں مبینہ طور پر 31 دسمبر تک نقصان پہنچا کر تباہ کیا گیا، بی بی سی نے 74 واقعات کی تصدیق کی ہے جن میں 72مساجد اور دو چرچ شامل ہیں۔
ٹی وی چینل الجزیرہ کے لیے اپنی رپورٹ میں، عندلیب فرازی صابر نے بتایا کہ 800 قبل مسیح کی ایک قدیم بندرگاہ، ایک مسجد جو نایاب مخطوطات کا مرکز تھی اور دنیا کی قدیم ترین عیسائی خانقاہوں سمیت کم از کم 195 تاریخی مقامات ہیں جنہیں ثقافتی مقامات پر جنگی نقصانات کے ذریعے گزند پہنچانے کے دستاویزی شواہد تیار کرنے والی ایک عالمی این جی او کے مطابق غزہ، اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے تباہ کر دیا گیا یا پھر بہت حد تک نقصان پہنچایا گیا ہے۔
قوموں یا مذاہب کے ثقافتی ورثے کا صفایا کرنا ان بڑے جنگی جرائم میں سے ایک ہے جو جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف ایک مقدمے میں لگائے ہیں جس کی سماعت بین الاقوامی عدالت میں پچھلے دنوں ہوئی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیل نے فلسطینیوں کے علم و ثقافت کے متعدد مراکز کو نقصان پہنچایا اور تباہ کر دیا ہے، جن میں لائبریریاں، مذہبی مقامات اور قدیم تاریخی اہمیت کے مقامات شامل ہیں”
کنعانیوں کی اس سرزمین نے، یعنی موجودہ فلسطینیوں کے آباؤ اجداد نے اس خطے پر حکمرانی کرنے والی بہت سی سلطنتیں دیکھی ہیں قدیم مصریوں، اشوریوں اور یونانیوں سمیت ہر ایک نے اس خطے پر اپنے اپنے ثقافتی ورثے کے نقش چھوڑے ہیں۔ صدیوں سے یونانی، یہودی، فارسی اور نباتی بھی ساحل کے اس حصے پر قابض رہ چکے ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ، بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ہے اور ہمیشہ سے یوریشیا سے افریقہ تک تجارتی قافلوں کے مرکز میں رہا ہے۔ تاریخی طور پر، 1300 قبل مسیح کے بعد سے Via Maris ایک راستہ جو قدیم مصر میں Heliopolis سے گزرتا تھا، جو غزہ کے مغربی ساحل کو کاٹ کر شام کی سرزمین کو عبور کرتا تھا، وہ اہم راستہ تھا جس سے مسافر دمشق کے سفر پر جاتے تھے۔
ہیریٹیج فار پیس، غزہ میں ہونے والے نقصانات کا سروے کرنے والا ایک عالمی این جی او ہے، جس نے موجودہ تنازع کے آغاز سے لے کر اب تک غزہ میں سو سے زائد تاریخی مقامات کو ہونے والے نقصانات کی باقاعدہ فہرست تیار کی ہے۔
بی بی سی اور الجزیرہ دونوں کی رپورٹوں کے مطابق ان مسمار شدہ عمارتوں میں وہ عظیم ’عمری مسجد‘ بھی شامل ہے جو تاریخِ فلسطین کی سب سے اہم اور قدیم مساجد میں سے ایک ہے۔ چرچ آف سینٹ پورفیریس، جسے پوری دنیا کا تیسرا قدیم ترین چرچ سمجھا جاتا ہے وہ بھی پوری طریقے سے مسمار ہوچکا ہے۔ شمالی غزہ میں ایک دو ہزار سال پرانا رومی قبرستان جسے گزشتہ سال ہی کھدائی کے دوران دریافت گیا تھا وہ دوبارہ ریت کا ڈھیر بن گیا ہے، اور جنوبی غزہ میں رفح میوزیم نامی ایک جگہ ہے جو اس علاقے کے طویل اور کثیرالجہتی ورثے کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے وقف کی گئی تھی، اسے بھی ہوائی حملوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا ہے۔
رفح میوزیم کی ڈائریکٹر سہیلہ شاہین نے تباہ شدہ جگہ کے ملبے کے درمیان کھڑے ہوکر میوزیم کے فیس بک پیج پر پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو انٹرویو میں کہا کہ ’وہاں نادر سکے، قیمتی پتھر، تانبے کی پلیٹوں، کپڑے جیسی قیمتی اشیاء موجود تھیں، یہ سب اب ملبے کے نیچے دفن ہیں۔
این جی او ہیریٹیج فار پیس کے صدر اسبر صابرین نے امریکی ریڈیو براڈ کاسٹر این پی آر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’اگر یہ ورثہ غزہ میں نہیں رہا تو یہ غزہ کے لوگوں کی شناخت کا بڑا نقصان ہوگا‘‘ صابرین نے کہا کہ ان کی تنظیم آنے والے مہینوں میں غزہ میں ثقافتی نشانات کی حیثیت کے سروے اور نگرانی کے کام کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے، دونوں جگہ مقامی لوگوں کے تعاون سے اور ساتھ ہی سیٹلائٹ کی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے کام کیا جائے گا ۔
1954 کا ہیگ کنونشن، جس پر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں نے اتفاق کیا تھا، اس کے مطابق جنگ کی تباہ کاریوں سے تاریخی مقامات کی حفاظت کی جانی چاہیے، لیکن لڑائی کے پہلے دور میں ہی اسرائیلی حملوں سے غزہ میں کئی تاریخی مقامات تباہ ہو چکے تھے۔ اب مسمار ہوچکی عظیم عمری مسجد سمیت درجنوں مقامات کو اسرائیل کے ذریعے نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے جو کہ عالمی ثقافتی مقامات کو نامزد اور تحفظ فراہم کرتی ہے، 2021 میں غزہ میں ثقافتی اور تاریخی مقامات کی مزید تباہی کا حوالہ دیا تھا۔
’’یونیسکو فلسطین اور اسرائیل میں ثقافتی ورثے پر جاری لڑائی کے منفی اثرات کے بارے میں بہت زیادہ تشویش میں ہے‘‘ یونیسکو کے ترجمان نے NPR کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا۔ ’’ہماری تنظیم اس تنازعہ میں ملوث تمام فریقین سے بین الاقوامی قوانین کی سختی سے پابندی کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ثقافتی املاک کو نشانہ یا فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ اسے شہری انفراسٹرکچر سمجھا جاتا ہے‘‘
حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 9 جنوری تک 378 مساجد اور تین گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، حالانکہ اس تعداد کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اپنے دفاع میں اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) کا کہنا ہے کہ حماس کے جنگجو عبادت گاہوں کو اسلحہ چھپانے کے لیے استعمال کر رہے تھے اور یہ ایسے مقامات تھے جہاں سے حملے کیے جا رہے تھے۔ حالانکہ حماس اس الزام کی مکمل تردید کرتی ہے۔
بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق تنازعات کے دوران مذہبی عمارتوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا جنگی جرم ہے۔ تاہم، اگر ایسے مقامات کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو تو وہ ایک استثنائی صورتحال ہے۔ اسی لیے اپنے دفاع میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ انہیں مبینہ طور پر فوجی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ تباہی ایک منصوبہ بند کارروائی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر سب کچھ مکمل طور پر ختم کر دیا جائے تو اسرائیل یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ زمین صرف یہودیوں کی ہے، اس طرح اسلامی اور عیسائی دونوں مذاہب کے دعوؤں کی نفی ہوسکے گی۔ جبکہ فلسطین تمام ابراہیمی مذاہب کے لیے ایک مقدس سرزمین سمجھی جاتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین ایک ریاست کے طور پر اسرائیل کی پیدائش سے پہلے سے موجود تھی۔ مزید یہ کہ آئندہ نسلوں کے لیے اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا۔ درحقیقت، اسرائیل بہت آگے نکل گیا ہے، یہ ایک ایسا جذبہ جس کا اشتراک امریکیوں کی اکثریت نے بھی کیا ہے اور جس کی دیگر اقوام نے بھی تائید کی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ فوراً اسرائیل پر عالمی نکیل کسی جائے تاکہ فلسطین میں جاری اس ثقافتی نسل کشی کو روکا جاسکے۔
آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان قدیم عمارتوں پر جن میں عجائب گھر، مساجد، گرجا گھر و دیگر تاریخی مقامات شامل ہیں جن کو 7؍ اکتوبر کے بعد سے ہونے والے اسرائیلی حملوں میں نیست و نابود کر دیا گیا ہے۔
عجائب گھر
غزہ میں چار عجائب گھر ہیں، جن میں سے دو کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، انٹرنیشنل کونسل آف میوزیم-عرب (ICOM-Arab) نے الجزیرہ چینل کو جو تفصیلات مہیا کرائی ہیں ان کے مطابق تباہ کیے گئے عجائب گھروں میں شامل ہیں:
خان یونس/ال قارانجی میوزم
پہاڑی کی چوٹی پر قائم القارا نجی میوزیم (جسے خان یونس میوزیم بھی کہا جاتا ہے) کو 2016 میں محمد اور نجلا ابو لہیہ نے کھولا تھا، جو ایک شوہر اور بیوی کی ٹیم ہے، جس نے کہا تھا کہ وہ غزہ کے تاریخی ورثے کو آنے والی نسلوں تک محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
مطاف الفندق، ایک چھوٹا میوزیم جو 2008 میں کھولا گیا تھا اور اسے شمالی غزہ کے مطاف ہوٹل میں قائم کیا گیا تھا، اس کو 3 نومبر کی گولہ باری سے کافی نقصان پہنچا ہے۔
رفح میوزیم نے قدیم سکوں، تانبے کی پلیٹوں اور زیورات کے مجموعے کو تیار کرنے کے لیے 30 سالہ پراجیکٹ حال ہی میں مکمل کیا تھا، جو اسے غزہ کا فلسطینی ورثہ کا مرکزی میوزیم بناتا ہے۔
قصر ال باشا:غزہ شہر میں، 13ویں صدی کے قصر الباشا، یا پاشا کے محل کو فلسطینی وزارت سیاحت نے 2010 میں ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا اور غزہ کی تاریخ کے مختلف ادوار کے نوادرات کا مجموعہ نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ یہ مقام 11؍ دسمبر کو اسرائیل کے فضائی حملوں سے متاثر ہوا تھا جس سے اس کی دیواروں، صحن اور باغات کو نقصان پہنچا تھا۔
غزہ کے بہت سے ورثے والے مقامات کی طرح، اس عمارت نے بھی اپنی تاریخ میں کئی بار ملکیت اور افعال کو تبدیل کیا ہے۔ دو منزلہ قلعہ جو 13ویں صدی کے وسط میں مملوک کے حکمران سلطان ظاہر بیبرس نے تعمیر کیا تھا، کبھی اقتدار کا مرکز تھا، جسے بعد میں صلیبیوں اور منگول فوجوں کے خلاف دفاع کے طور پر بھی استعمال کیا گیا تھا۔ 17ویں صدی کے دوران، اسے عثمانی حکمرانوں نے استعمال کیا اور ایک بار 1799 میں فرانسیسی کمانڈر نپولین بوناپارٹ کے قیام کے طور پر بھی کام کیا جب وہ مصر پر متوقع عثمانی حملے کو روکنے کی کوشش کرنے کے لیے غزہ میں داخل ہوا تھا۔
لائبریریاں:
اگرچہ غزہ کے کچھ دیگر مقامات کی طرح رشادالشوا ثقافتی مرکز ایک نمائشی ہال تھا اور اس میں ایک لائبریری بھی موجود تھی، یہ وہ جگہ بھی تھی جہاں امریکی صدر بل کلنٹن اور PLO کے صدر یاسر عرفات کے درمیان ثالثی بات چیت ہوئی تھی ، اسے بھی بمباری میں تباہ کردیا گیا ہے۔
غزہ شہر کی عظیم عمری مسجد کی لائبریری ایک زمانے میں نایاب نسخوں سے بھری ہوئی تھی، جس میں قرآن کے پرانے نسخے، پیغمبر اسلام کی سوانح حیات و فلسفہ، طب اور صوفی تصوف سے متعلق قدیم کتابیں شامل تھیں۔یہ لائبریری، سلطان ظاہر بیبارس نے قائم کی تھی اور 1277ء میں کھولی گئی تھی، اس میں ایک زمانے میں بیس ہزار کتابوں اور مخطوطات کا ذخیرہ بھی موجود تھا۔ وہاں موجود بہت سی نایاب کتابیں اور مخطوطات صلیبی جنگوں اور پہلی جنگ عظیم کے دوران گم ہو گئے یا تباہ کر دیے گئے تھے، صرف 62 کتابیں رہ گئیں تھیں۔ یہ ہارڈ کاپیاں بھی 8؍ دسمبر کو مسجد عمری پر ہونے والے حملہ میں تباہ کر دی گئی ہیں۔
مساجد:
مسجد عثمان بن قشقار:
مسمار کی گئی مساجد میں غزہ شہر کے زیتون کے باغات میں مسجد عثمان بن قشقار بھی شامل ہے، جو 1220 میں اس مقام پر تعمیر کی گئی تھی جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے پردادا کو دفن کیا گیا تھا۔ اسے 7؍ دسمبر کو ایک فضائی حملے میں بری طرح نقصان پہنچا تھا۔
مسجد سید الہاشم:
مسجد سید الہاشم، جو 12ویں صدی میں کسی وقت بنائی گئی تھی اور 1850 میں دوبارہ تعمیر کی گئی تھی، اکتوبر کے ایک فضائی حملے میں تباہ ہو گئی تھی۔ غزہ کے پرانے شہر میں مضبوط چونے کے پتھر سے بنی یہ مسجد مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس میں پیغمبر اسلام کے ایک اور پردادا ہاشم بن عبد مناف کی قبر ہے۔ مقامی روایات کا کہنا ہے کہ وہ ایک سوداگر تھے جو شام سے مکہ واپس آ رہے تھے جب وہ بیمار ہونے کے بعد وفات پاگئے تو انہیں غزہ کے دراج محلے میں دفن کر دیا گیاتھا۔ صلیبی غلبے کا ایک مختصر وقفہ مسجد کی تعمیر کے بعد مملوکوں کے قبضے میں آنے اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے سے پہلے کا تھا۔ بعد میں 1850 میں عثمانی سلطان عبدالمجید کی نگرانی میں اور پہلی جنگ عظیم کے دوران 1917 میں نقصان پہنچنے کے بعد اس کی دوبارہ مرمت کی گئی تھی۔
مسجد العمری الکبیر
موجودہ جنگ کے شروع میں، اسرائیلی فضائی حملے کے دوران مسجد العمری الکبیر میں آگ لگ گئی تھی۔ یہ غزہ کی پٹی میں چودہ سو سال قبل تعمیر ہونے والی پہلی مسجد تصور کی جاتی ہے۔ 8؍ دسمبر کو اسے اسرائیلی فضائی حملے میں تباہ کر دیا گیا۔ یہ مسجد اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب کے نام سے منسوب، یہ ساتویں صدی میں 406 میں تعمیر کیے گئے ایک قدیم چرچ کے کھنڈرات کے پاس تعمیر کی گئی تھی۔
کاتب الولیہ مسجد:
کاتب الولیہ مسجد تاریخی چرچ آف سینٹ پورفیریس کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی جو غزہ کے عقائد کے پرامن بقائے باہمی کی عکاسی کرتی ہے۔
گرجا گھر:
سینٹ پورفیریس:
دنیا کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک سمجھا جانے والا سینٹ پورفیریس غزہ کی پٹی میں واقع تھا۔ اس علاقے کی بہت ہی چھوٹی عیسائی آبادی، جن کی تعداد جنگ سے پہلے تقریباً ایک ہزار تھی، وہ اس چرچ کے آس پاس رہائش پذیر تھے۔ سینٹ پورفیریس غزہ میں پانچویں صدی کا بشپ تھا جس کا مقبرہ چرچ کے نیچے موجود ہے۔
سینٹ ہلیریون کی خانقاہ:
سینٹ ہلیریون کی خانقاہ ساحل پر واقع گاؤں نوسیرات میں ٹیل ام عامر نامی علاقے میں ہے اور اس علاقے پر رومن حکمرانی کے دوران تقریباً 340 میں اس کی تعمیر کی گئی تھی۔اس کے علاوہ اس مقام کے ارد گرد پچیس ایکڑ زمین پر خانقاہ کے ارد گرد پانچ گرجا گھر، ایک تدفین کی جگہ، ایک بپتسمہ ہال اور قدیم حمام موجود تھے جو اب مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔
ہولی فیملی چرچ:
اس کے علاوہ ہولی فیملی چرچ، جو 1974 میں بنایا گیا تھا، غزہ کا واحد رومن کیتھولک چرچ اور مقامی کمیونٹی کے لیے ایک پناہ گاہ تھا۔ اسے 4؍ نومبر کو ایک فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ چرچ کمپلیکس میں ایک اسکول جزوی طور پر قائم کیا گیا تھا، جو کہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔
دیگر ورثے کے مقامات
ارد-المحربین، یا رومن نیکروپولیس، کو گزشتہ سال فلسطین اور فرانس کے ماہرین آثار قدیمہ نے اس وقت دریافت کیا تھا جب تعمیراتی کارکنوں نے اس جگہ پر مقبرے دریافت کیے تھے۔ کم از کم 134 مقبرے جو دو سو قبل مسیح سے دو سو عیسوی تک کے کنکالوں کے ساتھ اب بھی برقرار ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ رومن کا ایک مقبرہ ہے۔
غزہ کے شمال مغربی کونے میں واقع، انکلیو کی پہلی معروف بندرگاہ، انتھیڈون، جسے بلخیہ یا ٹیڈا بھی کہا جاتا ہے، آٹھ سو قبل مسیح سے 1100 عیسوی تک، یا مائیسینی دور سے ابتدائی بازنطینی دور تک آباد تھا۔ یہ Hellenistic دور میں ایک آزاد شہر بن گیا۔ پانچ ایکڑ پر محیط آثار قدیمہ، جسے بلخیہ بھی کہا جاتا ہے، کو یونیسکو نے 2012 میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
حمام الصمرہ، یا سامریٹن باتھ ہاؤس، 8؍ دسمبر کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ یہ اسلام سے پہلے کا تھا اور غالباً سامریوں نے قائم کیا تھا جو کہ زیتون کے علاقے میں رہتے تھے، جسے یہودی کوارٹر بھی کہا جاتا تھا۔ 12 ویں صدی میں صلیبی حکمرانی تک اس علاقے میں یہودی برادری کی ترقی ہوتی تھی۔ آخری فلسطینی یہودی خاندان 1960 کی دہائی تک پڑوس میں مقیم تھا۔
***

 

***

 ’’غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جاری اسرائیلی بمباری گزشتہ چار مہینوں سے جاری ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ کے سو سے زائد تاریخی مقامات کو اسرائیلی گولہ باری اور بمباری سے نقصان پہنچا یا گیا ہے یا انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024