خبر ونظر

پرواز رحمانی

ایک اور شرا نگیزی
حال ہی میں کچھ اور بدزبانوں نے رسول اکرم ؐ کی شان اقدس میں کچھ گستاخانہ کلمات کہے اور ایک ہفتہ گزر گیا تو سوشل میڈیا کے بعض چینلوں پر یہ بحث چھڑنے لگی کہ حکومت ہند کیوں خاموش ہے ہنوز کیوں نہیں بولی۔ حالانکہ اس بکواس پر اندرون ملک احتجاج جاری تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ شریف اور سنجیدہ مزاج شہری بھی بد زبانوں کی مذمت کررہے تھے لیکن حکومت اور حکمراں پارٹی ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی۔ پارٹی اس وقت بولی جب دنیا میں یہ احتجاج تیزی سے پھیلنے لگا تھا۔ عرب ملکوں نے بھی نوٹس لیا اور ان کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر ہوا۔ ایران، ترکی، مالدیپ، افغانستان وغیرہ نے احتجاج کیا۔ امریکہ اور بعض یوروپی ملکوں سے آوازیں آنے لگیں۔ تب حکمراں جماعت بی جے پی کی طرف سے ایک ہلکا پھلکا بیان جاری ہوا کہ پارٹی اور اس کی حکومت ان باتوں کو پسند نہیں کرتی۔ سبھی دھرموں کا احترام کرتی ہے۔ بیان میں کچھ اور نہیں تھا کسی کا نام نہیں تھا کہ کس کے خلاف یہ بیان جاری کیا گیا ہے جبکہ وہ زہر اگلا تھا ایک عورت نے جو حکمراں پارٹی کی ترجمان تھی۔ اب سنا ہے اسے پارٹی کی تمام ذمہ داریوں سے ہٹادیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ نوین جندل نامی شخص کو بھی ہٹادیا گیا ہے کیوں کہ اس نے بھی یہی بکواس کی تھی۔ حکمراں پارٹی میں کچھ لوگ شر انگیزی کے عادی ہیں۔

وزیراعظم کی خاموشی
حکومت اور بی جے پی کی اس خاموشی پر ممتاز جرنلسٹ شرد گپتا نے ستیہ ہندی چینل کی ایک بحث میں کہا کہ بی جے پی کا طریقہ یہی ہے۔ اس کی خاموشی سوچی سمجھی تھی۔ کسی بھی شر انگیزی پر وہ یہی کرتی ہے۔ پہلے خاموش رہ کر دیکھتی ہے کہ اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اگر کسی حلقے کی جانب سے کوئی سخت آواز نہیں آتی تو خاموشی سے اسے دبادیتی ہے۔ لیکن جب کوئی سخت ردعمل ہونے لگتا ہے تو اسے اپنے ہتھکنڈوں سے دبادیتی ہے یا اس کا رخ موڑدیتی ہے۔ اس لیے معاملہ کبھی کبھی کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ ستیہ ہندی کی بحث میں دیگر دانشوروں نے بھی حصہ لیا۔ سبھی نے ان شرارتوں کی مذمت کی۔ شرد گپتا نے یہ بھی بتایا کہ بی جے پی کا میڈیا سیل بہت وسیع اور مضبوط ہے۔ پارٹی کے ترجمان بھی بس اسی قدر ہیں جتنی انہیں اجازت ہوتی ہے۔ کون سے چینل پر کون جائے گا اور یہ ذمہ دار طے کرتے ہیں۔ ہر چینل پر ہر کوئی نہیں بول سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام کے خلاف نوپور شرما کو بکواس کی اجازت میڈیا کے بڑے ذمہ داروں نے ہی دی ہوگی تاکہ ماحول کا اندازہ کیا جاسکے۔ حکومت اور پارٹی کے ذمہ داروں کے طرز عمل کو بھی اسی زاویہ سے پر کھاجانا چاہیے۔ محمد اخلاق کے قتل سے لے کر آج تک کے واقعات کو دیکھا جائے تو اس میں ایک بات عام طور سے دکھائی دے گی وہ ہے وزیراعظم کی پراسرار خاموشی ۔

حقیقت جو معلوم ہے
یہ حقیقت معروف و معلوم ہے کہ آج جو حلقہ برسر اقتدار ہے، اس کے پاس ملک کی تعمیر و ترقی اور ملکی شہریوں کی اخلاقی تربیت کا کوئی کام کبھی نہیں رہا۔ انگریزی حکومت میں یہ لوگ سرکاری ایجنٹوں کے طور پر کام کرتے رہے۔ آزادی کے بعد ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے دو شر انگیز مسئلے اپنا لیے۔ کامن سول کوڈ کا نفاذ اور آئین کے حصہ 370کا خاتمہ۔ کچھ عرصے بعد انہیں ایک اور مسئلہ ہاتھ آگیا۔ اجودھیا میں مسجد کی مسماری اور اس کی جگہ ’’رام‘‘ مندر کی تعمیر۔ 2014میں اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد ان لوگوں نے ان تینوں تخریبی مسائل کا بھرپور استعمال کیا اور آج تک کررہے ہیں۔ آج ملک میں جو تخریب کاری ہورہی ہے ۔ ان تینوں مسئلوں کے ذیل میں ہورہی ہے۔ اور یہ سب کچھ سرکاری سطح سے ہورہا ہے۔ حکمراں پارٹی کی ترجمان خاتون نے اہانت رسول ؐ کا ارتکاب سرکار کے ایما پر کیا ہے۔ مگر اس بار احتجاج کا دائرہ ملک سے باہر نکل گیا تھا اور حکومت ہند کی خارجہ پالیسی بنانے والے خوب جانتے ہیں کہ عرب دنیا میں احتجاج عوامی سطح پر تھا حکمراں بعد میں عوامی دباو پر شامل ہوئے۔ یہ پالیسی ساز یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ عوامی احتجاج پوری دنیا میں جاری ہے اور بد زبانوں کے خلاف حکومت نے جو ہلکی پھلی کارروائی کی ہے وہ اسی عوامی دباو پر کی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022