خبر و نظر
پرواز رحمانی
’’سن رائز اوور ایودھیا‘‘
کانگریس کے ایک سینیر لیڈر سلمان خورشید نے حالات حاضرہ پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا مرکزی نکتہ ہے ایودھیا ، کتاب کا نام بھی ’’رن رائز اوور ایودھیا ‘‘ ہے۔ کتاب کے اجرا کی تقریب ۱۲نومبرکو نئی دلی میں منعقد ہوئی۔ اجرا کرتے ہوئے پارٹی کے ایک تجربے کار لیڈر اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایودھیا پرایک بڑے پتے کی بات کہی کہ’’ ایودھیا پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی قانونی بنیاد بہت کمزور ہے لیکن یہ فیصلہ درست اس لیے قرار پائے گا کہ اسے دونوں فریقین نے تسلیم کرلیا ہے‘‘۔ اس لیے (بظاہر) یہ قضیہ ختم ہوگیا۔ کانگریس ایک اور سینیر لیڈر دگ وجے سنگھ نے کہا ’’باہم اتفاق رائے اور مفاہمت ہی مسئلہ کے حل کا واحد راستہ تھا۔ کتاب کا موضوع بھی یہی ہے‘‘۔ چدمبرم کی یہ بات بہت اہم اور مبنی بر واقعہ ہے کہ کورٹ کے فیصلے کی قانونی بنیادیں بہت کمزور تھیں۔ کورٹ نے خود ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کے واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ کورٹ کے ریمارکس کی زد میں بہت سے لیڈرآتے ہیں۔ ایودھیا میں اس طرح بھیڑ کو جمع کرکے مشتعل کرنا ٹھیک نہیں تھا۔ کورٹ کے ان ریمارکس پر نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ مسجد والوں کے حق میں ہوگا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس جس پر بہت سے ملکی اور عالمی مبصرین کو حیرت ہے۔
تاریخ کو فیصلہ یاد رہے گا
جہاں تک مسلم فریق کی جانب سے عدالت عظمی کے فیصلے کو تسلیم کیے جانے کا سوال ہے جس کا اعلان پہلے ہی کردیا گیا تھا، یہ کام کچھ خاص حالات میں کیا گیا۔ فریق مخالف نے اس کے لیے ایک ماحول تیار کیا تھا۔ یہ فریق معاملے کو مسلسل طول دیتا رہا۔ نئے نئے مسائل اٹھاتا رہا۔ مسلم فریق نے لگاتار اس کے مسائل میں دلچسپی لے کر اس کے ساتھ تعاون کیا۔ مفاہمت اور اتفاق رائے پر کئی بار بات ہوئی۔ مسئلہ گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں کے کئی ادوار ہوئے لیکن نتیجہ نہ نکلنا تھا نہ نکلا ۔ اور بعد میں فریق ثانی کی کوشش یہی رہی کہ مسلم فریق کو کسی نہ کسی طرح متحرک رکھا جائے لیکن نتیجہ کوئی نہ نکلے۔ اس لیے مسلم پرسنل لا بورڈ نے طے کیا کہ اپنے طور پر کسی نتیجے پر پہنچ کر اس کا اعلان کردیا جائے تاکہ ان لوگوں کی چالاکیوں سے چھٹکارا مل سکے۔ لہذا اعلان کیا گیا کہ ہمارے لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل قبول ہوگا اوریہی ہوا۔ لیکن عدالتی فیصلہ قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر چند کہ یہ فیصلہ قانونی لحاظ سے کئی کمزوریاں رکھتا ہے جیسا کہ پی چدمبرم نے کہا ہے لیکن منظور ہے اور قانونی کمزوریوں کی کسک بہرحال دلوں میں رہے گی۔ تاریخ کو بھی یہ فیصلہ یاد رہے گا۔
حقائق پر مبنی کتاب آنی چاہیے
کتاب ’’سن رائز اوور ایودھیا ‘‘ سامنے نہیں ہے۔ لیکن تبصروں اور لوگوں کے ریمارکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں وہ کچھ بیان کیا گیا جو بابری مسجد رام جنم بھومی کے قضیے میں ہوتا رہا، لیکن غالباً سرسری طور پر کوئی مضبوط اور مدلل بحث نہیں کی گئی۔ شاید اس لیے کہ مصنف کے نقطہ نظر سے فیصلہ ہوچکا ، فریقین مان بھی چکے ہیں اس لیے نئی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے خود کانگریس کے لیڈر غلام نبی آزاد نے اس کے مندرجات پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔ اس موضوع پر ایک مفصل اور ہمہ پہلو کتاب آنی چاہیے۔ اس لیے کہ ایودھیا کا قضیہ اس دوران جو کچھ ہوتا رہا کس نے کیا کیا، کیا کہا اور پھر عدالت عظمی کا فیصلہ اور فیصلہ لکھتے وقت خود ججوں کے ریمارکس ایسے ہیں جو اس قضیہ کو تاریخ ہند کا ایک اہم حصہ بناتے ہیں۔ بابری مسجد کے انہدام پر کئی ریاستوں نے بند منایا، بھارت بند کا اہتمام بھی کیا گیا۔ ۷ دسمبر ۱۹۹۲کو پارلیمنٹ میں سخت غم و غصہ دیکھا گیا۔ مسجد کے انہدام پر صدر جمہوریہ ڈاکٹر شنکر دیال شرما رودیے تھے۔ ۶ دسمبر ہی کی شام بی جے پی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بی بی سی پر کہا تھا کہ اس واقعہ سے رام مندر آندولن بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ چند دن بعد ہی ان لوگوں نے اپنی روایتی ذہنیت سے حالات کو اپنے حق میں کرلیا۔ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔ یہ سب بھی کتاب میں آنا چاہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 28 نومبر تا 4 دسمبر 2021