خبرونظر

پرواز رحمانی

لفظ ’’ کافر ‘‘ کا مسئلہ
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے چند روز قبل کچھ سرکردہ مسلمانوں سے ملاقات کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اسلام اور مسلمانان ہند کے موضوع پر کئی پہلووں سے بات کی۔ اگر کوئی اختلافی پہلو بھی زیر گفتگو آیا تو لہجہ نرم رہا۔ ایسا ہی ایک پہلو مسلمانوں کی جانب سے ہندوؤں کو مبینہ طور پر کافر کہے جانے سے متعلق تھا۔ بھاگوت جی کا کہنا تھا کہ مسلمان ہندوؤں کو کافر کہنا چھوڑ دیں، انہیں کافر نہ کہا کریں۔ ان کے خیال سے لفظ کافر ہی سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لڑاکا گروپ اسی لیے پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے مسلم گروپ کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کی ہوں گی جن کی تفصیلات نہیں ملیں۔ لفظ کافر پر گفتگو کی تفصیل بھی سامنے نہیں ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ بھاگوت جی نے کتنے اور کون سے مسلمانوں سے ہندووں کے لیے کافر کا لفظ سنا۔ سات آٹھ دہائیوں پہلے آریہ سماجیوں نے اپنی اٹھان کے زمانے میں یہ شوشہ چھوڑا تھا، اسے ایشو بنایا تھا لیکن وہ زیادہ چلا نہیں، وہیں ختم ہو گیا تھا۔ اب موہن بھاگوت نے اسے ازسر نو اٹھایا ہے، تو سب سے پہلا سوال ان سے یہی ہے کہ ان مسلمانوں کی نشان دہی کریں جو ہندوؤں کو کافر غلط ارادے سے یا لڑنے جھگڑے کے لیے کہتے ہیں۔
اسے موقع سمجھیے
غرض لفظ کافر کے استعمال کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے جتنا سنگھ کے سربراہ اور ان کے ہم خیال لوگ سمجھتے ہیں۔ کفر کے فتوے تو مسلمان بھی ایک دوسرے کو دیتے رہے ہیں۔ ہماری صفوں میں ایک جماعت ہے جو عشق رسول میں نہایت مبالغہ کرتی ہے اور اپنے عقیدہ کے خلاف عقیدہ رکھنے والوں کو کافر کہتی ہے۔ ایک زمانے میں تو اس کا بہت چلن تھا۔ خدا خدا کر کے اب ختم ہوا ہے۔ کہیں سے کوئی ہلکی پھلکی آواز کبھی کبھی آجاتی ہے۔ آر ایس ایس یا کسی اور گروپ یا فرد کو اسے مسئلہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ مسلمان بھی غیر مسلم برادران وطن کے سامنے حسب ضرورت اس کی وضاحت کریں۔ ہر خطرہ ایک موقع ہوتا ہے جسے استعمال کیا جانا چاہیے اور پھر جس حلقے نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور کیوں اٹھایا ہے اسے تو سبھی جانتے ہیں۔ ابھی اور نہ جانے کون کون سی مشکلات مسلمانان ہند کے سامنے کھڑی کی جائیں۔ امت مسلمہ تاریخ کے ایک اور نازک دور سے گزر رہی ہے۔ سابقہ ادوار کی طرح یہ دور بھی ان شاء اللہ جلد ختم ہو جائے گا۔ ہر دور کی سختی کو امت سمجھتی رہی ہے اور موقع سمجھ کر استعمال بھی کرتی رہی ہے۔ اس بار بھی یہی ہونا چاہیے۔
یہ سادہ مسئلہ ہے
اس موضوع پر کسی حد تک بحث بھی چھڑ چکی ہے۔ انگریزی میں بھی تبصرے آئے ہیں۔ 18 اکتوبر کے روز نامہ ہند میں ایک مسلم رائٹر کا مضمون آیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ نہ تو ہندو کافر ہیں نہ مسلمان جہادی ہیں۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے اور وہ تاریخ تو بالکل درست نہیں جس سے بحث کرتے ہوئے مضمون نگار نے بتایا کہ مسلم دور حکومت میں مسلم علما اور حکمرانوں نے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں کو کافر کہنے کا رواج ڈالا تھا۔ لفظ کافر کا مسئلہ بالکل سیدھا سادہ اور صاف ہے یہ لفظ کفر سے بنا ہے اور کفر کے معنی ہوتے ہیں انکار کے۔ جو لوگ اللہ کے وجود اور رسولؐ کی دعوت سے انکار کرتے تھے انہیں کافر کہا جاتا تھا۔ پوزیشن آج بھی یہی ہے لیکن فی زمانہ لفظ کافر کا استعمال زیادہ نہیں ہے۔ جو لوگ دین اسلام کے منکر ہیں، انہیں بھی کافر نہیں کہا جاتا۔ بعض علما کا موقف یہ ہے کہ جو لوگ صاف انکار کرتے ہیں انہیں بھی کافر نہ کہا جائے بعید نہیں کہ انہیں بھی دین و ایمان کی توفیق ہو جائے۔ ایمان کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے کس کو کب اور کس بات پر ایمان نصیب ہو جائے کہا نہیں جا سکتا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022