کرناٹک نے قانون ساز کونسل میں تبدیلی مذہب مخالف بل پیش کیا

نئی دہلی، ستمبر 15: اے این آئی کی خبر کے مطابق کرناٹک حکومت نے جمعرات کو ریاستی قانون ساز کونسل میں مذہب کی تبدیلی کے خلاف ایک بل پیش کیا۔

کرناٹک قانون ساز اسمبلی میں مذہبی آزادی کے حق کے تحفظ کا بل 2021 دسمبر میں منظور کیا گیا تھا۔ تاہم اسے قانون ساز کونسل میں پیش نہیں کیا گیا تھا، کیوں کہ اس وقت بی جے پی کے پاس قانون ساز کونسل میں 32 نشستیں تھیں، اکثریت کے نشان سے چھ کم۔

پارٹی کے اب ایوان بالا میں 41 ارکان ہیں۔

اس کے بعد کرناٹک کابینہ نے بل کو منظوری دیننے کے لیے ایک آرڈیننس پاس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آرڈیننس ایک عارضی قانون ہے جو صدر یا گورنر کے ذریعہ اس وقت منظور کیا جاتا ہے جب پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوتا ہے۔

اس آرڈیننس کو کرناٹک کے گورنر تھاورچند گہلوت نے 17 ستمبر کو منظوری دی تھی۔ اس کے بعد اسے چھ ماہ کے اندر اسمبلی سے منظور کرنا ضروری تھا ورنہ اس کا اثر ختم ہو جائے گا۔

کرناٹک تبدیلی مذہب مخالف بل کہتا ہے کہ ’’غلط بیانی، زبردستی، دھوکہ دہی، غیر ضروری اثر و رسوخ، جبر، رغبت یا شادی کے ذریعہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں تبدیلی‘‘ ممنوع ہے۔

اس بل کے تحت جو شخص ’’زبردستی مذہب کی تبدیلی‘‘ میں ملوث ہو گا اسے تین سے پانچ سال قید کی سزا دی جائے گی۔ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے ارکان کا مذہب زبردستی تبدیل کرنے پر تین سے دس سال کی قید اور 50,000 روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

حالیہ برسوں میں بی جے پی کی حکومت والی کئی دیگر ریاستیں جیسے کہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور گجرات نے جبری تبدیلی مذہب پر پابندی کے قوانین منظور کیے ہیں۔

کرناٹک میں یہ بل اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے بل سے زیادہ سخت ہے جس میں کم از کم ایک سال قید کی سزا ہے۔

جمعرات کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے سی ٹی روی نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ بل قانون ساز کونسل میں منظور ہو جائے گا۔

کانگریس نے تاہم سوال کیا کہ ریاستی حکومت بل کو پاس کرنے کی جلدی میں کیوں ہے۔

کانگریس ایم ایل سی ناگراج نے کہا کہ ’’یہ بدقسمتی کی بات ہے کیوں کہ ریاست میں بارش کے بعد بہت سارے مسائل ہیں۔ ایسے کام کرنے کی کیا جلدی ہے؟ وہ [بی جے پی] پولرائز کرنا چاہتے ہیں… یہ لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ وہ بھائی چارے کی فضا میں رہنا چاہتے ہیں۔‘‘