2024کی مہابھارتکے لیے طبل ِجنگ

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

کیا راہل اور کھرگے کی جوڑی پارٹی کی ڈوبتی نیّا پار لگائے گی؟
کانگریس پارٹی کا صدارتی انتخاب فی الحال میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان میں آبو روڈ کا دورہ کیااور وہاں پر گجرات کے ترنگا جانے والی ریل گاڑی پروجکٹ کا سنگ بنیاد رکھا لیکن درمیان کے دو مندروں میں پوجا پاٹ اور مہاآرتی میں شرکت کے سبب جلسہ گاہ پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر ہوگئی۔ اس طرح رات کے لیے دس بج گئے تو وزیراعظم نے شہری قوانین کا احترام کرتے ہوئے مائیک استعمال کرنے یعنی خطاب کرنے سے انکار کردیا۔ عام آدمی کےلیے تقریر کرنا جس قدر مشکل ہوتا ہے مودی جیسے لوگوں کے لیے اس سے گریز اور بھی زیادہ پریشان کن ہو جاتا ہے کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے ان کا اہم ترین کام بھاشن بازی ہوکر رہ گیا ہے۔ کوئی سنے نہ سنے اور سمجھے نہ سمجھے ’’ دن رات من کی بات ‘‘ کرتے رہنا ان کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔ اس کے لیے ان کو کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا ۔ تقریرلکھنے کے لیے پی ایم اور ایک فوج تعینات ہے۔ دولت کے بل بوتے پرسامعین کو بی جے پی والے جمع کردیتے ہیں اور میڈیا اسے نمک مرچ لگا کر نشر کردیتا ہے اس لیے انہیں کے بقول ’’جھوٹ بولو، اور جھوٹ بولو ، بولے چلے جاو‘‘ کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ ایسے مقررین پر غلام محمد قاصر کا یہ مشہور شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
کروں گا کیا جو خطابت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
راجستھان کے شہر آبومیں اپنی تاخیر کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئےمودی جی وہاں موجود عوام کے سامنے تین بار سر بسجود ہوئے۔ اس کے بعد اپنے کو نظم وضبط کا پابند ثابت کرتے ہوئے کہا کہ’’ میری روح قوانین کی خلاف ورزی گوارا نہیں کرتی ‘‘۔ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کرکے بے شمار بے قصور لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دینے والے وزیر اعظم کی زبان سے یہ جملہ سن کر بے ساختہ ’’مچھر چھانٹنا اور اونٹ نگل جانا ‘‘ والی ضرب المثل یاد آگئی۔ وزیر اعظم نے وہاں موجود’ مودی مودی‘ کا فلک شگاف نعرہ لگانے والوں سے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ پھر آوں گا اور سود سمیت آپ کا پیار لوٹا دوں گا‘‘۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قدر طمطراق سے کیا جانے والے ڈرامہ بھی ذرائع ابلاغ میں خاطر خواہ جگہ نہیں پاسکا کیونکہ گودی میڈیا کی ساری دلچسپی سچن پائلٹ ، اشوک گہلوت اور کانگریس پارٹی کے الیکشن کی جانب مرکوز تھی۔ یار دوست توقع کررہے تھے کہ راجستھان کی سرکار اب گرنے ہی والی ہے۔ کانگریس کو ملنے والی اس غیر متوقع شہرت پر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کا یہ مشہور شعر یاد آتا ہے؎
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
عصر حاضر میں سیاسی جماعتیں چونکہ مٹھی بھر ا فراد کی موروثی تجارت میں تبدیل ہوچکی ہیں اس لیے ان کے صدارتی انتخاب کو اندرونِ خانہ سرگرمی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال سماجوادی پارٹی کا لکھنو میں منعقد ہونے والا قومی اجلاس ہے ۔ وہاں پر اکھلیش یادو کو تیسری مرتبہ اتفاق رائے سے قومی صدر منتخب کیا گیا۔ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی اور وہ خبر بھی نہیں بنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ انتخاب میں اکھلیش یادو ہی اکلوتے امیدوار تھے اب اگر وہ کامیاب نہیں ہوتے تو کون ہوتا؟ اس کے برعکس اگر ان کے چچا شیوپال یادو اپنی پارٹی کو ایس پی میں ضم کرکے صدارت پر دعویٰ ٹھونک دیتے تو یقیناً میڈیا کی اور عوام کی اس میں دلچسپی بڑھ جاتی ۔ ٹیلی ویژن چینلس پر خوب بحث و مباحثہ یا قیاس آرائیاں شروع ہوجاتیں ۔ ذرائع ابلاغ کو ان باتوں میں دلچسپی نہیں ہوتی جو توقع کے مطابق ہو بلکہ وہ تو ایسی خبروں کو تلاش کرتا پھرتا ہے جو انہونی ہوں ۔اب کیا ہوگا ؟ کا تجسس خبر کو دلچسپ اور مقبولِ عام بناتا ہے۔ کانگریس کی صدارت کے لیے بھی اگر سونیا گاندھی اپنے کاغذات نامزدگی داخل کردیتیں تو کس کی مجال تھی جو انہیں چیلنج کر کے اپنا سر اوکھلی میں دیتا؟ اگر دیتا بھی تو اسے جیتندر پرساد کی مانند 7448 کے مقابلے صرف 94 ووٹ ملتےاور غالب کا یہ گھسا پٹا شعرپھر سے اخبارات کی زینت بن جاتا؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
بی جے پی کا کانگریس پر سب سے بڑ ا الزام ہے کہ وہ ایک موروثی سیاسی جماعت ہے۔ ابھی حال میں جے پی نڈا نے کہا تھا کہ یہ بھائی بہن کی پارٹی ایک خاندان کا اقتدارقائم کرنا چاہتی ہے۔اس حقیقت کے باوجود جیسے مودی بی جے پی کی ناگزیر ضرورت ہیں اسی طرح راہل گاندھی کانگریس کی مجبوری ہیں ۔ کانگریس نے بڑی ہوشیاری سے ’ بھارت جوڑو یاترا‘ کی خاطرراہل گاندھی کو سڑک پر اتار کر پارٹی کی کمان غیر گاندھی کو سونپنے کا منصوبہ بنایا تاکہ موروثیت کے الزام کو کسی نہ کسی حد تک کمزور کیا جاسکے ۔ یاترا کی مانند یہ تیر بھی نشانے پر بیٹھا ۔ سونیا گاندھی نے ابتداء میں اعلان کیا تھا کہ صدارتی انتخاب غیر جانبدارانہ ہوں اور اس میں وہ کوئی مداخلت نہیں کریں گی لیکن وہ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہ سکیں ۔ اس بابت یہ سوچنے والے کہ ان کا تعلق مسولینی کے اٹلی سے ہے اس لیے وہ ایساکررہی ہیں غلطی پر ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ فسطائیت کے میدان میں مودی کا ہندوستان مسولینی کے اٹلی کو بہت پیچھے چھوڑ چکا نیز یہ تو کانگریس کی قدیم روایت ہے جس اندرا گاندھی ہی نہیں بلکہ مہاتما گاندھی بھی کاربند رہے ہیں ۔ گاندھی بھگتوں کو یہ بات ناگوار ہوگی لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔
کانگریس کے صدارتی انتخابات کو گاندھی گری نے دو مرتبہ بری طرح متاثر کیا۔ سبھاش چندر بوس سے گاندھی کے اختلافات جگ ظاہر ہیں ۔ اس کے باوجود کانگریس میں سبھاش چندر بوس اس قدر مقبول تھے کہ وہ بلا مقابلہ 1938 کا انتخاب جیت گئے۔ 1939 میں بوس نے دوسری مرتبہ اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے تو گاندھی جی نے ان کے خلاف مولانا آزاد کو میدان میں اتارنے کی کوشش کی مگر یہ حربہ کامیاب نہیں رہا کیونکہ مولانا نے معذرت چاہ لی۔ پنڈت نہرو کو تیار کرنے کی کوشش کی گئی وہ بھی راضی نہیں ہوئے۔بالآخر پٹاّبی سیتارامیا کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا اور وہ تیار ہوگئے ۔ گاندھی جی کی پیروکار کانگریس کی مجلس عاملہ نے سبھاش چندر بوس پر نام واپس لینے کے لیے دباو ڈالا مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ رائے شماری ہوئی توسبھاش چندر بوس کے حق میں 1580 ووٹ پڑے اور پٹاّ بی سیتا رمیاّ 1377 ووٹ حاصل کرکے ہار گئے۔ گاندھی جی نے اس ہار کو اپنی شکست کے طور پرلیا اور نیتا جی بوس کو مجلس عاملہ تشکیل دینے کے لیے کہا۔
اس دوران مجلس عاملہ اور صدر کے درمیان حکمت عملی کے حوالے سے شدید اختلافات ابھر کر سامنے آگئے یہاں تک کہ سردار پٹیل نے گاندھی جی سے شکایت کی کہ بوس کے ساتھ کام کرنا مشکل ہے۔ وہ آزادی کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں یعنی مجلس عاملہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس کے بعد گاندھی جی کی حامی مجلس عاملہ کے 15میں سے 13؍ارکان نے استعفی دے دیا۔ ایک ماہ بعد ہونے والے اجلاس میں علالت کے باوجود بوس نے شرکت کی مگر گاندھی جی غیر حاضر رہے۔ استعفیٰ دینے والے مجلس کے سارے ارکان نے سبھاش چندر بوس کو گاندھی جی کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی تجویز پیش کی جو ان کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی۔ اس دباو کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجلسِ عاملہ تشکیل دینے میں ناکامی کا حوالہ دے کر بوس نے نہ صرف صدارت بلکہ کانگریس سے استعفیٰ دے کر فارورڈ بلاک نامی نئی پارٹی بنا لی۔ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ کس طرح گاندھی جی نے پارٹی کے صدارتی امور میں مداخلت کرکے منتخبہ صدر کو راستہ ناپنے پر مجبور کردیا۔
سبھاش چندر بوس کے بعد 6؍سالوں تک مولانا ابوالکلام آزاد نے صدر کی حیثیت سے پارٹی کو چلانے کا کام کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی کا سورج نکلنے والا تھا اور کانگریس کے صدر کا وزیر اعظم بننا طے تھا ایسے میں مولانا نے پھر سے پارٹی کی صدارت کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا لیکن گاندھی جی نے پنڈت جواہر لال نہرو کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ۔ اس وقت صدر کے انتخاب میں علاقائی کمیٹیوں کے ارکان حصہ لیتے تھے ۔ کانگریس کی 15میں سے 12 کمیٹیاں سردار ولبھ بھائی پٹیل کو صدر اور مستقبل کا وزیر اعظم بنانا چاہتی تھیں اور ایک بھی کمیٹی پنڈت نہرو کی حامی نہیں تھی ۔ کانگریس کی مجلس عاملہ کے جن ارکان نے پنڈت نہرو کے نام کی حمایت کی تھی ان کو صدارت کے انتخاب میں عمل دخل کا حق ہی حاصل نہیں تھا۔ ایسے میں گاندھی جی نےپنڈت نہرو کو دوسرے نمبر کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے تو پٹیل کو نام واپس لینے کے لیے یہ دباو ڈال کر وزیراعظم کا عہدہ ان سے چھین لیا۔ اس مداخلت نے پنڈت نہرو کو وزیر اعظم بنا دیا۔
مولانا آزاد نے اپنی سوانح حیات میں سردار پٹیل کی حمایت نہ کرنے کو اپنی سب سے بڑی سیاسی غلطی بتایا۔ وہ لکھتے ہیں کہ پٹیل نے جواہر لال نہرو جیسی غلطی کبھی نہیں کی ہوتی ۔ یہ سوچ کر میں کبھی خودکو معاف نہیں کرسکتا کہ اگر میں نے یہ غلطی نہیں کی ہوتی پچھلے دس سالوں کی تاریخ مختلف ہوتی۔گاندھی جی کے اس کردار کی روشنی میں اگر سونیا گاندھی کا اشوک گہلوت اور دگ وجئے سنگھ کے ساتھ اختیار کیے جانے والےرویہ کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ بھی مختلف نظر نہیں آتا۔ یہ تو کانگریس کی پرانی روایت ہے جس کو سونیا گاندھی آگے بڑھا رہی ہیں ۔اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس میں کم از کم انتخاب تو منعقد ہورہا ہے۔ اس کے برعکس دیگرسیاسی جماعتوں میں اس کا نام و نشان نہیں ہے ۔ بی جے پی میں آمریت اس قدر بڑھ گئی کہ مودی جی جس کے سر پر ہاتھ رکھ دیں ، کس کی مجال ہے کہ اس کے سوا کسی اور کے بارے میں سوچے ؟ایسے میں مصنوعی اتفاق رائے ہی جبر کی علامت بن جاتی ہے۔
کانگریس کے اندر گزشتہ دو سالوں سے جی نامی گروہ 23نے سونیا گاندھی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے۔ اس میں سے دو رہنما کپل سبل اور غلام نبی آزاد توپارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ اس بار جب ششی تھرور کا نام سامنے آیا تو انہیں باغی گروہ کا نمائندہ سمجھا گیا ۔ ششی تھرور کے بعد جب اشوک گہلوت میدان میں اترےتو اچانک انتخابی گہما گہمی میں تیزی آگئی۔ اشوک گہلوت کانگریس کے وہ وزیر اعلیٰ ہیں جن کو ہٹانے میں بی جے پی ناکام ہوچکی ہے۔ وہ بھگوائیوں کے داو پیچ سے خوب واقف ہیں لیکن اپنی عوامی مقبولیت کےسبب سونیا اور راہل کے لیے ایک خطرہ بھی ہو سکتے تھے ۔ اشوک گہلوت کو توقع رہی ہوگی کہ صدر بننے کے بعد وہ اپنے وفادار کو راجستھان کا وزیر اعلیٰ نامزد کردیں گے لیکن سونیا گاندھی نے اشوک گہلوت کا کانٹا نکالنے کے لیے ان کے بعد حریف اول سچن پائلٹ کو وزیر اعلیٰ بنانے کی تجویز رکھ دی ۔
یہ وہی حکمت عملی ہے جس کو اختیار کرکے وزیر اعظم نرسمہا راو نے شرد پوا رکو وزیر دفاع سے ہٹا کر مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ بننے پر مجبور کردیا تھا ۔ اشوک گہلوت نے اپنی مقبولیت کا مظاہرہ کرنے کے لیے 92؍ارکان اسمبلی سے استعفیٰ پیش کروا دیا ۔ سونیا گاندھی کوامید نہیں تھی اس طرح کا سخت ردعمل سامنے آئے گا اور ایک عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوجائےگئی جس میں دونوں پھنس جائیں گے ۔ ایسے میں اگر سونیا اصرار کرتیں تو راجستھان بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ۔ اس لیے درمیان کا راستہ نکالا گیا جس میں اشوک گہلوت کی کرسی تو محفوظ رہی مگر صدارت کی دوڑ سے وہ باہر ہوگئے ۔ اشوک گہلوت نے جاتے جاتے سونیا گاندھی سے معافی تو مانگی لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ ان کے ساتھ 102 اور سچن پائلٹ کے پاس صرف 18؍ ارکان اسمبلی کی حمایت ہے نیز پائلٹ کےامیت شاہ سے ملاقات کے سارے ثبوت بھی پیش کردیے۔ آگے چل کر انہوں نے ہائی کمان سے یہ تحقیق کرنے کی گزارش کی کہ آخر کس چیزنے اتنی بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کو اپنا اجتماعی استعفیٰ اسپیکر کو سونپنے پر مجبور کردیا۔ اس اٹھا پٹخ سے یہ ثابت ہوگیا کہ اشوک گہلوت کی طرح سونیا گاندھی بھی اب ایک گھاگ سیاستداں میں تبدیل ہوچکی ہیں اور جو بھی پارٹی کا صدر بنے گا وہ انہیں نظر انداز نہیں کرسکے گا۔ اس حقیقت کا اعتراف تو اب ششی تھرور نے بھی کرلیا ہے۔
اس کہانی میں دوسرا موڑ دگ وجئے سنگھ کی انٹری سے آیا۔ ان کی آمد پر لوگوں نے سمجھ لیا کہ وہ سونیا گاندھی کے آشیرواد سے میدان میں اترے ہیں اور صدارت کا تاج انہیں کے سر پر سجے گا لیکن پھر نہ جانے کس سمجھدار آدمی نے یہ مشورہ دے دیا کہ دگ وجئے سنگھ کے بیانات تو بی جے پی کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوں گے۔ ماضی میں منی شنکر ائیر اور دگ وجئے سنگھ نے بی جے پی کا جتنا بھلا کیاتھا اتنا تو کوئی آرایس ایس کا رہنما بھی نہیں کرسکا ہے۔دگ وجئے کے بعد اس کہانی کے اندر ملک ارجن کھرگے شامل ہوئے ۔ ان کے صدارت کی دوڑ میں شامل ہونے سے ایک نہایت دلچسپ موڑ آگیا۔ کھرگے کی گاندھی خاندان سے قربت جگ ظاہر ہے اس لیے ان کو سونیا گاندھی کا کٹھ پتلی بتایا گیا لیکن مزے کی بات یہ ہے جس وقت وہ اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے لیے پہنچے تو ان کے ساتھ جی 23؍ منیش تیواری اور دیگر لوگ بھی موجود تھے ۔ اس طرح گویا ملک ارجن کھرگے دونوں متحارب گروہوں کے مشترکہ امیدوار بن گئے اور کانگریس کے اندر جو دراڑ پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی۔
ملک ارجن کھرگے کی شخصیت ایسی مقبولِ عام ہے کہ ان کا سبھی نے استقبال کیا۔ اشوک گہلوت تو دور ششی تھرور نے بھی ان کے لیے کلماتِ خیرادا کیےحالانکہ اس نئی صورتحال میں وہ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں ؟ وہ اب کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ پرانی کانگریس چاہتے ہیں وہ کھرگے کو ووٹ دیں اور جو تبدیلی کے خواہاں ہیں انہیں ان کے حق میں رائے دینی چاہیے۔کانگریس کے حق میں یہ خوش آئند بات ہے کہ لوگوں کو اپنی پسند کے انتخاب کا موقع دیا جارہا ہےلیکن مخالف امیدواروں کے درمیان نہ تو کوئی تلخی ہے اور نہ پارٹی کے اندر کسی قسم کا فکری انتشار پایا جاتا ہے۔ فی الحال قوی امکان ہے کہ ملک ارجن کھرگے پارٹی کے صدر منتخب ہوجائیں۔ اس سے پارٹی کے اندر اتحاد بڑھے گا لیکن اس کے ساتھ تقسیم کار بھی ہوگی۔ عوام میں بیداری پیدا کرنے اور تحریک چلانے کا کام تو راہل گاندھی کے ذمہ ہوگا مگر تنظیمی امور ملک ارجن کھرگے دیکھیں گے اور ان کا وسیع تجربہ پارٹی کے مسائل حل کرنے میں کارگر ثابت ہوگا۔
اقتدار کا Fevicolاپنے آپ لوگوں کو پارٹی سے جوڑے رکھتا ہے لیکن سرکار کے ہاتھ سے نکل جانے پر پیدا ہونے والی مایوسی تنظیم کو کمزور کردیتی ہے۔ ایسے میں تنظیم کو متحد و متحرک رکھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ بی جے پی میں مودی اور شاہ جو کام کرتے ہیں اب وہ کام کانگریس کے اندر راہل اور کھرگے کی جوڑی کرےگی ۔یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ جئے اور ویرو کی یہ جوڑی گبر اور سانبھا کو کیسا سبق سکھاتی ہے؟ پچھلے نو سالوں میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ قومی انتخاب ہو یا صوبائی الیکشن ،مہم کاآغاز ہمیشہ بی جے پی کی جانب سے ہوتا ہے لیکن اب یہ ترتیب بدل رہی ہے۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا دراصل 2024؍ کی تیاری ہے۔ راہل گاندھی جیسا غیر سنجیدہ سیاستداں کبھی پانچ ماہ کی’’ پدیاترا‘‘(پیدل جلوس) پر نکلے گا یہ بات سنگھ پریوار کے خواب و خیال میں نہیں تھی۔ وہ لوگ جس رہنما کوشہزادہ کہہ کر مذاق اڑاتے تھے وہ کنٹینر میں سوئے گا یہ بھی کسی نے سوچا نہیں تھا ۔
نفرت چھوڑ واور بھارت جوڑو مہم کا آغاز 2؍ اکتوبر سے ہونا تھا مگر وہ پچیس دن قبل سات ستمبر سے شروع ہوگئی اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ گاندھی جینتی کے آنے تک یہ نعرہ زبان زدِ خاص و عام ہوگیا۔ اس بارپورے ملک میں مختلف سیاسی و سماجی و تنظیموں نے گاندھی جینتی بہت جوش و خروش کے ساتھ یہ نعرہ لگا کر منائی ۔کرناٹک میں راہل گاندھی کا استقبال ڈھائی لاکھ کے جم غفیر نے کیا۔ ملک ارجن کھرگے کو ابھی سے کانگریس کا بھیشم پتاما کہا جانے لگا ہے ۔ وہ اگر کانگریس کے صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو ان کے ساتھ ارجن کا کردار راہل گاندھی ادا کریں گے ۔ اس بار کی مہا بھارت میں پانڈو جیتیں گے یا پھر سے کورو فاتح ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بی جے پی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ در پردہ انتخابی تیاری میں مشغول رہتی ہے فی الحال حیران و پریشان ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کو کیسے توڑا جائے۔ اس بار راہل گاندھی کے اقدامی تیور پر بزرگ شاعر شوکت واسطی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
تم نے چھپ کر محاذ کھولا ہے
تم سے کھل کر مقابلہ ہوگا
***

 

***

 کانگریس کے حق میں یہ خوش آئند بات ہے کہ لوگوں کو اپنی پسند کے انتخاب کا موقع دیا جارہا ہےلیکن مخالف امیدواروں کے درمیان نہ تو کوئی تلخی ہے اور نہ پارٹی کے اندر کسی قسم کا فکری انتشار پایا جاتا ہے۔ فی الحال قوی امکان ہے کہ ملک ارجن کھرگے پارٹی کے صدر منتخب ہوجائیں۔ اس سے پارٹی کے اندر اتحاد بڑھے گا لیکن اس کے ساتھ تقسیم کار بھی ہوگی۔ عوام میں بیداری پیدا کرنے اور تحریک چلانے کا کام تو راہل گاندھی کے ذمہ ہوگا مگر تنظیمی امور ملک ارجن کھرگے دیکھیں گے اور ان کا وسیع تجربہ پارٹی کے مسائل حل کرنے میں کارگر ثابت ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022