!جوائنٹ فیملی سسٹم یا نیوکلئیر خاندانی نظام

اسلامی نظامِ معاشرتایک کامیاب سوسائٹی کا ضامن

حمیرا علیم

بیوی پر سسرال کی خدمت واجب نہیں لیکن شوہر کی اطاعت لازمی ہے
ایشیا کے چند ممالک میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا رواج ہے یعنی والدین اور شادی شدہ بچے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔جہاں اس سسٹم کے کچھ فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں۔اگر خاندان کے بزرگ سمجھ دار ہوں اور بچوں کو جوڑ کر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو مسائل کم ہوتے ہیں۔جوائنٹ فیملی میں گھر کے کام بانٹ کر کیے جاتے ہیں یوں خواتین اور مردوں پر کام کا بوجھ کم ہو جاتا ہے ایسے ہی اخراجات بھی کم ہوتے ہیں ۔بڑوں کی موجودگی میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں آسانی ہوتی ہے۔ کام کرنے والے والدین بچوں کو رشتے داروں کے پاس چھوڑ کر بے فکری سے جاب کر سکتے ہیں یوں ڈے کیئر کا خرچہ بھی بچ جاتا ہے۔لیکن جہاں خاندان کے بزرگ نا سمجھی سے کام لیتے ہیں تب تو یہی گھر سازشوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔بچے کسی قسم کی تربیت کی بجائے غلط اقدار و افعال سیکھنے لگتے ہیں۔اخراجات اور ذمہ داریوں کی مناسب اور منصفانہ تقسیم نہ ہونے کے باعث لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیں۔اور سب سے بڑی بات بچے کسی قریبی رشتے دار کے جسمانی استحصال کا شکار ہو کر کئی قسم کے کمپلیکسز کا شکار ہو جاتے ہیں۔
چونکہ ایک مسلمان کے لیے اسلام نے ہر کام میں رہنمائی کر دی ہے اور ہمارا یقین ہے کہ اسلامی طرز زندگی میں ہی ہماری بقاء و آسانی ہے اس لیے آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام میں جوائنٹ فیملی سسٹم کی کیا حیثیت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے شوہر کے ان رشتہ داروں سے تنبیہ کی ہے جو بیوی کے لیے نا محرم ہیں۔ عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عورتوں کے پاس جانے سے بچو“۔ انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ دیورکا کیا ہوگا؟ آپ نے کہا: ’دیور موت ہے۔‘ (بخاری)
عورت کے لیے اپنے سسرال میں سے کسی کے ساتھ تنہا رہنا جائز نہیں سوائے ان کے جو اس قدر کم عمر ہوں کہ اس کو اس بات کا خوف نہ ہو کہ وہ اس کو فتنہ میں ڈالیں گے یا اس کے لالچ میں آئیں گے۔شوہر کو اپنی بیوی کو ایسی رہائش فراہم کرنا چاہیے جو اسے نا محرم کی نظروں سے چھپائے رکھے جہاں وہ خود مختار ہو. جو اسے گرم اور سرد موسم سے بچائے۔شوہر کی استطاعت کے مطابقت یہ کرائے کا یا خریدا گیا ایک کمرے ، کچن باتھ روم کا اپارٹمنٹ بھی ہو سکتا ہے اور گھر بھی، الا یہ کہ بیوی نے نکاح نامے میں کسی بڑے گھر کی شرط لکھوائی ہو جس پر مرد راضی ہو چکا ہو۔ مرد کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے یا کھانے پینے پر مجبور کرے۔کیونکہ ازواج مطہرات کے حجرے کی لمبائی چوڑائی چھ سات ہاتھ یعنی 150 فیٹ سے زیادہ نہ تھی۔
ابن حزمؒ نے فرمایا:اسے اس کی وسعت کے مطابق رہائش فراہم کرنی ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:انہیں (طلاق شدہ عورتوں) کو جہاں تم رہتے ہو، اپنی وسعت کے مطابق رکھو” (الطلاق 65:6)
ابن قدامہؒ نے کہا:وہ (بیوی) رہائش کی حقدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”انہیں رہائش مہیا کرو۔” (الطلاق 65:6)
غور کریں کہ اگر مطلقہ بیوی کے لیے قیام و طعام واجب ہے تو اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ شادی شدہ کے لیے رہائش فراہم کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور ان کے ساتھ عزت کے ساتھ زندگی بسر کرو۔‘‘( النساء 19 )
اس کے ایک حصے کا مطلب ہے کہ انہیں رہائش فراہم کی جائے، کیونکہ وہ مناسب رہائش کے بغیر اسے لوگوں کی نظروں سے چھپانے کے لیے نہیں کر سکتا تاکہ وہ اپنے کاروبار میں آگے بڑھے، آرام کر سکے اور اپنا سامان درست رکھے۔
کاسانیؒ نے فرمایا: "اگر شوہر اسے کسی شریک بیوی یا اس کے سسرال جیسے اس کی ماں یا بہن یا بیٹی کسی یا کسی رشتہ دار کے ساتھ رکھنا چاہتا ہے اور وہ اسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو اسے اس کی رہائش فراہم کرنا ہوگی۔ لیکن اگر وہ اسے گھر کے کسی ایسے کمرے میں ٹھیرائے جس کا اپنا دروازہ ہو تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور اسے اس سے متبادل رہائش نہیں مانگنی چاہیے، کیونکہ اس کے سامان کے نقصان اور سکون سے نہ رہ سکنے کا خوف ہوتا ہے۔ ”
ابن قدامہ نے بھی کہا:مرد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو بیویوں کو ان کی رضامندی کے بغیر ایک ہی گھر میں رہنے کے لیے کہے خواہ گھر بڑا ہو یا چھوٹا کیونکہ اس سے ان کے درمیان دشمنی اور حسد کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچے گا۔ ان کو اکٹھے رہنے پر مجبور کرنا تنازعہ کا باعث بنے گا اور ان میں سے ہر ایک اسے دوسری کے ساتھ دیکھ سکے گی جب شوہر دوسری کے ساتھ وقت گزارے گا۔ اگر وہ دونوں راضی ہیں ایک گھر میں اکٹھے رہنے کے لیے تو یہ جائز ہے کیونکہ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود مختار رہائش طلب کریں، یا وہ اس حق کو ترک کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔”
اس کا مطلب یہ نہیں کہ شوہر کے لیے ایک کے ساتھ ازدواجی تعلقات رکھنا درست ہے جہاں دوسرا اسے دیکھ اور سن سکتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے ایک گھر میں رہنا جائز ہے جہاں شوہر رات کو ان میں سے ہر ایک کے پاس گھر میں ایسی جگہ آسکتا ہے جہاں دوسرا اسے نہ دیکھ سکے۔اگر وہ ہر بیوی کو گھر کا ایک حصہ یا کمرہ دے سکتا ہے ایک بیڈروم، باتھ روم اور کچن کے ساتھ تو یہ کافی ہو جائے گا۔ اسی طرح وہ ہر بیوی کو الگ گھر یا اپارٹمنٹ دے ۔
حنفیہ میں سے ایک حنفی کہتے ہیں: اسی طرح وہ گھر میں ایسی جگہ کی حقدار ہے جو اس کے اہل و عیال کے لیے ان کی وسعت کے مطابق خالی ہو، جیسا کہ کھانے اور لباس کا معاملہ ہے۔ گھر کا ایک علیحدہ حصہ جس کا اپنا دروازہ ہو اور باتھ روم اور کچن جیسی سہولیات مطلوبہ مقصد کے لیے کافی ہوں گی۔”
ابن عابدین نے کہا:
"باتھ روم اور کچن” سے کیا مراد ہے باتھ روم کی سہولتیں اور کھانا پکانے کی جگہ جو کمرے کے اندر ہو یا ایسی جگہ ہو جس میں خاندان کے کسی دوسرے فرد کے اشتراک سے نہ ہو۔”
"گھر” سے کیا مراد ہےایک کمرہ ہے، کاسانیؒ کہتے ہیں کہ اگر گھر میں کمرے ہیں، اس کے لیے ایک کمرہ مختص کر کے اس کا اپنا دروازہ دیا جائے اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس سے متبادل رہائش مانگے۔”
اس بنا پر شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ آپ کو گھر کے کسی ایسے کمرے میں ٹھیرائے جس کی اپنی سہولتیں ہوں، بشرطیکہ بلوغت کو پہنچنے والے کسی غیر محرم کے ساتھ فتنہ یا خلوت نہ ہو۔ شوہر کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ بیوی کو گھر میں سب کے لیے کام کرنے یا ان کے ساتھ کھانے پینے پر مجبور کرے۔ اگر وہ آپ کو اپنے خاندان سے بالکل الگ رہائش فراہم کرنے کے قابل ہے تو یہ بہتر ہوگا، لیکن اگر اس کے والدین بوڑھے ہیں اور انہیں اس کی ضرورت ہے، اور ان کے پاس ان کی خدمت کرنے کے لیے کوئی اور نہیں ہے اور وہ واحد طریقہ ہے کہ وہ خدمت کرسکتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ رہ کر تو پھر اسے یہ کرنا ہے۔اس صورت میں بیوی صبر سے کام لے اور اپنے شوہر کو خوش کرنے کی کوشش کرے اور اس کی عزت اور اس کے خاندان کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں حتی الامکان مدد کرے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو کوئی راستہ نہ دے دے۔ اس صورت میں اسے دیور جیٹھ نندوئی، ان کے بیٹوں اور تمام نا محرم رشتے داروں سے ملنے جلنے ان کے سامنے جانے سے پرہیز کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ شائستگی سے ڈیل کرنا چاہیے۔
لیکن خاندان کے مرد افراد، باپ، بھائی وغیرہ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں جب کہ عورتیں مل کر کھا سکتی ہیں، یا سب کو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ کھانا چاہیے۔ مختصر یہ کہ دوسرے بھائی کے گھر والوں کے ساتھ کھانے میں بھائیوں کا اختلاط جائز نہیں ہے۔ اگرچہ سسر اپنی بہوؤں کے لیے محرم ہے، لیکن بہو کے ساتھ باپ کا اختلاط اور بے تکلفی آج کل بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔ یہ حلال ہے بشرط یہ کہ شرعی حدود برقرار رہیں۔
شوہر کے بارے میں ضروری ہے کہ وہ ان امور میں اس کی اطاعت کرے جو صحیح اور مناسب ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”مرد عورتوں کے محافظ ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے کہ وہ اپنے وسائل سے خرچ کرتے ہیں۔(النساء 4:34)
ابن کثیرؒ نے بیوی پر شوہر کے حقوق کے بارے میں کہا:”اللہ تعالیٰ نے شوہر کو حقوق دیے ہیں اور بیوی کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ اس نے اسے اس کی نافرمانی سے منع کیا ہے کیونکہ وہ اس پر فضیلت رکھتا ہے اور اسے برقرار رکھتا ہے۔
بیوی کے سسرال میں سے کسی کے لیے اس کی اجازت کے بغیر اس کے کمرے میں داخل ہونا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:”اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو، جب تک کہ تم اجازت نہ لے لو اور ان کو سلام نہ کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم یاد رکھو”(النور 24:27)
اگر ان میں سے کوئی عورت کی اجازت سے اس کے کمرے میں داخل ہوتا ہے لیکن وہ اس کے محرموں میں سے نہیں ہے جیسے اس کے شوہر کا بھائی وغیرہ توایسی صورت میں عورت کے محرموں میں سے ایک موجود ہونا ضروری ہے، تاکہ ان کے درمیان کوئی حرام خلوت نہ ہو۔ عورت کو بھی مکمل شرعی حجاب کی پابندی کرنی چاہیے یوں فتنہ میں پڑنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ان تمام شرائط کے باوجود نامحرم کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ عورت کے کمرے میں داخل نہ ہو۔ یہ دل کے لیے زیادہ پاکیزہ اور شبہات سے سب سے زیادہ دور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔’’اور جب تم ان سے کچھ مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘(الاحزاب 33:53)
اس آیت سے یہ مراد تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ پردے کے پیچھے سے منہ اور ہاتھ نکال کر چیز لی جائے بلکہ صرف ہاتھ باہر نکال کر چیز لینے کا حکم ہے۔
امام نوویؒ نے کہا نبی ﷺ کے اس قول کے بارے میں کہ "دیور موت ہے”، اس کا مطلب یہ ہے کہ دیور اورجیٹھ کے بارے میں کسی اور سے زیادہ خوف رہتاہے، اور اس سے برائی کی توقع زیادہ کی جا سکتی ہے، اور فتنہ کے امکانات زیادہ رہتے ہیں۔ وہ عورت تک پہنچنے اور اس کے ساتھ اکیلے رہنے کے قابل ہے اور مواقع رکھتا ہے۔ اس کے برعکس جو ایک اجنبی ہے۔ یہاں دیور سے مراد اس کے والد، دادا اور بیٹوں، پوتوں کے علاوہ شوہر کے رشتہ دار ہیں۔ بیوی کے لیے باپ، دادا اور بیٹے، پوتے محرم ہیں۔بیٹے، پوتے اس کی بیوی کے محرم ہیں اور ان کے لیے اس کے ساتھ تنہا رہنا جائز ہے۔ یہاں لفظ موت ان کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ بلکہ اس سے مراد بھائی، بھائی کا بیٹا، پھوپھا، چچا وغیرہ ہیں، جو محرم نہیں ہیں۔ لوگ عموماً اس معاملے میں لاپروا ہوتے ہیں اور مرد اپنی بیوی کو اپنے بھائی کے ساتھ اکیلا رہنے دے سکتا ہے۔ یہ وہی ہے جسے موت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسے مذکورہ وجوہات کی بنا پر کسی اجنبی کے ساتھ تنہا رہنے سے زیادہ روکنا چاہیے۔ انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آپ کو ان چیزوں میں سے کوئی بھی کرنے پر مجبور کریں جیسے کہ کھانا پکانا، کس طرح کپڑے پہننا یا دوسری چیزیں جیسے کام کرنا اور پڑھانا وغیرہ، جب تک کہ وہ مشورے اور حسن سلوک سے نہ ہو۔ سسرال کے لیے اس میں دخل اندازی جائز نہیں۔
لیکن اگر شادی سے پہلے شوہر اور بیوی کے درمیان یہ طے پا جائے کہ وہ بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم رہے گا اور بیوی سسرال کے ساتھ اور بیوی اس پر راضی ہو تو صبر کرے اور ثواب حاصل کرے۔ شوہر کو اپنے والدین کی عزت کرنی چاہیے اور بیوی کو اس میں اس کی مدد کرنی چاہیے۔ تاکہ بیٹے کے اور ان کے درمیان پھوٹ کا سبب نہ بنے۔ اس کا اثر ان شاء اللہ وہ اپنے بچوں پر دیکھیں گے۔
شوہر کی اپنے والدین سے ملاقاتیں ضرورت کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔ اس کے والدین کے ساتھ کچھ ایسا ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے ان کے بیٹے کو ان کی عیادت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ بیماری وغیرہ شوہر کو اس پر توجہ دینا ہوگی۔ان کے لیے بیوی اور شوہر کے نجی معاملات میں دخل اندازی کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر وہ شوہر کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ سیر پر نہ نکلیں اور وہ بیوی کو گھر میں رہنے کو کہے تو اپنے شوہر کی بات مانیں صبر سے کام لیں اور ثواب حاصل کریں۔
بیوی کو اپنے خاندان سے ملنے کے لیے ان میں سے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ان کا حق نہیں ہے۔ اسے صرف اپنے شوہر سے اجازت لینا ہوگی، اور اگر وہ بیوی کو اجازت دے تو سسرال میں سے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
سسرال کو ازدواجی زندگی کی تفصیلات جاننے کا حق نہیں ہے، اور شوہر یا بیوی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ دونوں کے درمیان کسی نجی بات یا مباشرت کے بارے میں کسی اور کو بتائے۔
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:نبی ﷺ نےفرمایا” تین افراد ایک غار میں تھے اور غار کا دہانا ایک چٹان کے لڑھکنے سے بند ہوگیا اور تینوں اس میں پھنس گئے تھے، پھر انہوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کا ذکر کرکے دعا کی تو اللہ تعالی نے انہیں نجات عطا فرمادی تھی، ان میں ایک شخص کا عمل یہ تھا کہ وہ دن بھر بکریاں وغیرہ چرایا کرتا تھا اور شام میں گھر آکر ان کا دودھ دوہ کر پہلے اپنے والدین اور پھر بیوی بچوں کو پلایا کرتا تھا، ایک دن اسے واپسی میں تاخیر ہوگئی اور جب گھر پہنچا تو والدین انتظار کرتے کرتے سو چکے تھے، اس شخص نے ساری رات والدین کا انتظار کیا اور اپنے بچوں کو بھی دودھ نہ پلایا، اس عمل کے توسط سے اس نے دعا کی تو وہ دعا قبول ہوئی۔اسی طرح دیگر دونوں افراد اپنے بعض اعمال کے توسل سے دعا کی تو ان کی دعائیں بھی قبول ہوئیں اور غار سے چٹان ہٹ گئی، یوں اللہ تعالی نے ان تینوں کو نجات عطا فرمائی۔”( مسلم)
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرد یا عورت پر اپنے سسرال کی خدمت فرض نہیں۔ورنہ یہ شخص اپنے بیوی بچوں میں سے کسی کی یہ ڈیوٹی لگا کر خود سو جاتا کہ وہ اس کے والدین کے لیے پانی لے کر کھڑے رہیں۔
ماریہ انعام کا کہنا ہے:”ہمارے ہاں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کے ذمے اپنے والدین کی خدمت کے حوالے سے شریعت کی طرف سے عائد کردہ حقوق ساقط ہو جاتے ہیں ۔اب وہ جس گھر کی بہو ہے وہاں کے والدین کو اپنے والدین کا درجہ دےان کی اسی طرح خدمت کرے اس کا شوہر بھی اس سے یہی تقاضا کرتا ہے اور معاشرہ بھی۔ اور تو اور والدین بھی اسے یہی تلقین و نصیحت کرتے ہیں کہ اب ہمارا حقوق و فرائض والا رشتہ تمام ہوا خوشی خوشی مہمان کی حیثیت سے آؤاور رخصت ہو
لیکن یاد رہے کہ جہاں تک شوہر کے والدین کی خدمت کا تعلق ہے براہِ راست یہ فرض عورت پر عائد نہیں ہوتا۔
دوسری طرف اگر ہم والدین کی خدمت کے حوالے سے اسلام کے احکام کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت نے والدین کی خدمت میں بیٹے اور بیٹی کی کوئی تخصیص نہیں رکھی یا کوئی ایسا حکم موجود ہو کہ شادی شدہ بیٹی کے اوپر سے والدین کی خدمت ساقط ہو جاتی ہے۔جیسا یہ فرض بیٹے پر عائد ہے ویسا ہی بیٹی پر بھی خواہ وہ شادی شدہ ہو یا نہ ہو ۔یہ اور بات ہے کہ بیٹی اور بیٹے کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بیٹے کے پاس اس سعادت کو حاصل کرنے کے مواقع بیٹی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ بیٹی شادی کے بعد اپنے شوہر کی اور اپنے گھریلو حالات کی پابند ہوتی ہے۔اور شریعت میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے
لیکن دوسری طرف یہ بات شوہر کے سوچنے والی ہے کہ میری بیوی میرے والدین کی خدمت میرے حکم کی اطاعت میں انجام دے رہی ہےاصلا ًاپنے والدین کی خدمت شوہر کی ذمہ داری ہے لیکن بیوی اس کی اطاعت میں دراصل اس کے فرائض کی نیابت کر رہی ہے تو اللہ کی طرف سے میری بیوی پر اس کے اپنے والدین کی خدمت کی جو ذمہ داری عائد ہے اس کی ادائیگی کے لیے میں اس کو سازگار حالات مہیا کروں۔اس کو موقع فراہم کروں کہ وہ بھی اپنے والدین کی خدمت اور دلجوئی کرسکے۔
اب یہ خدمت اور دلجوئی ہر عورت اپنے اپنے حالات کے مطابق کرے گی ۔اگروہ دوسرے ملک یا شہر میں رہتی ہے تو اس کے لیے روز روز آنا ممکن نہیں ہو گا ۔وہ اپنے والدین کو فون کر سکتی ہے۔اگر وہ ضرورت مندہیں تو ان کی مالی مدد کر سکتی ہے اپنے گھر بیٹھ کر ان کے کپڑے سی کر ان کو بھیج سکتی ہے ۔ان کی دوائیاں خرید سکتی ہے۔مختصر یہ کہ اپنے گھریلو حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے عورت کو اپنی یہ ذمہ داری کیسے ادا کرنی ہے یہ عورت کو خود سوچنا ہے اور اس کے لیے ساز گار حالات مہیا کرنا شوہرکی ذمہ داری ہے۔
والدین کی خدمت کے حوالے سے کچھ بیٹیاں شادی کے بعد خود بھی غافل ہو جاتی ہیں۔اپنے معاشرے کی عمومی سوچ کے زیرِ اثر ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بیٹوں کی ذمہ داری ہے ۔وہ اپنے والدین کے گھر سسرال کی تھکاوٹ اتارنے آتی ہیں۔اپنے لیے مہمانوں والا پروٹوکول چاہتی ہیں۔اپنے مسائل سنانے کے لیے انہیں ماں کی صورت میں ایک بہترین سامع چاہیے ہوتا ہے حالانکہ اگر وہ اس سوچ سے میکے آئیں کہ مجھے اپنے والدین کی خدمت کا موقع مل رہا ہے میں اس کو ضائع نہ کروں تو وہ اپنی ذمہ داری ادا کر سکتی ہیں۔والدین کے ہفتے بھر کے کپڑے استری کر کے رکھ دیں جو کھانے فریز ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کباب وغیرہ وہ بنا کر فریز کر دیں ان کے پاؤں دبا دیں۔عام طور پر اگر بھابھی والدین کے کام کر تی ہے تو کچھ ذمہ داری خود اٹھالیں۔یادرکھیں کہ والدین کی خدمت ایک سعادت ہے جس کو میسر آ گئی وہ خوش قسمت ہے۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ والدین کو عموماً بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے زیادہ جذباتی وابستگی محسوس ہوتی ہے۔تو بیٹیوں کو اپنے گھریلو حالات کو مد نظر رکھتے ہوئےاس حوالے سے اپنی ذمہ داری یاد رکھنا چاہیے۔کیونکہ قرآن پاک میں حکم ہے:
"اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024