جہاد فی سبیل اللہ کا قرآنی نصاب

استقلال کے ساتھ دعوت الی اللہ کے کام پر اللہ کی مدد کا وعدہ

ڈاکٹر ساجد عباسی

باطل کے مقابلہ میں اہلِ ایمان کی اصل کامیابی صبر و استقامت میں مضمر ہے
اسلام میں صلح کا تصور
۵۶۔فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ ۔
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو۔تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہر گز ضائع نہ کریگا۔ (سورۃ محمد۳۵)
جب اسلامی ریاست کمزورہوتو اس وقت صلح کی درخواست نہ کریں جس سے دشمن پر اسلامی ریاست کی کمزوری ظاہر ہو جائے گی۔
۵۷۔وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔
اور اے نبیؐ ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہو تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے۔(سورۃالانفال ۶۱)
جب اسلامی ریاست مضبوط ہوجائے اور دشمن صلح کی درخواست کرے یا صلح پر آمادہ ہوجائے تو اس وقت صلح کریں اگرچیکہ اس بات کا خطرہ ہوکہ دشمن اس صلح کو جنگی چال کے طورپر استعمال کرے ۔
۵۸۔وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ۔
اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لیے اللہ کافی ہے۔وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی۔ (سورۃالانفال ۶۲)
یعنی دشمن کی بدنیتی کی صورت میں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کافی ہے۔
۵۹۔إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا
اے نبیؐ ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی۔(سورۃ الفتح۱)
صلح حدیبیہ کو فتح مبین سے تعبیر کیا گیا ۔یہ ایسی صلح تھی جس کے شرائط بظاہر دل شکستہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو فتح مبین کہا ہے اس لیے کہ اس صلح کے بعد امن کے ایسے مواقع فراہم ہوئے جس کے نتیجہ میں اسلام تیزی سے جزیرہ عرب میں پھیلا۔ امن ہر حال میں مطلوب ہے لیکن جنگ جب ناگزیر ہوجائے تو پھر جنگ ہی سے امن قائم ہو سکتا ہے۔
اسلام کے نظریۂ جہاد پر معترضین کے اعتراض کا جواب
کفارو مشرکین نے سورۃ التوبہ کی آیت ۵ کو اسلام کو بدنام کرنے کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔یہ آیت اس طرح ہے:
۶۰۔فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔
پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو انہیں چھوڑ دو۔اللہ درگزر کرنے والااور رحم فرمانے والا ہے۔ (سورۃ التوبہ۵)
یہ آیت ان خاص مشرکین کے لیے ہے جنہوں نےمسلمانوں کو مکہ سے ان کے گھروں سے نکالا اور ان کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور بیس سال تک مسلمانوں سے دشمنی کی اورجب دس سالہ امن معاہدہ ہوا تو اس کی بد عہدی کی تھی۔ ان کو چار مہینوں کا وقت دیا گیا کہ وہ اپنی پوزیشن پر غورکریں یا تو وہ ایمان لائیں یا پھر مکہ کی سرزمین چھوڑ دیں ۔
۶۱۔وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلاَمَ اللهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَعْلَمُونَ ۔
اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے ( تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچا دو، یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ (سورۃ التوبہ۶)
پھر فرمایا گیا کہ اس مدت کے بعد اورجلاوطن ہونے کے بعدبھی اگر وہ تمہاری پناہ میں آنا چاہیں تو انہیں پناہ دو اور ان کو پر امن جگہ پر پہنچا دو۔بد نیت معترضین سورہ التوبہ کی آیت ۵ کے کچھ حصے کو لے کر قرآن پر یہ الزام لگاتے ہیں قرآن ہر کافر کو قتل کرنے کی تعلیم دیتا ہےجبکہ یہ آیت خاص سباق میں آئی ہے کہ جن مشرکین نےصلح حدیبیہ کے معاہدہ توڑا تھا ان کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے ۔اس کے بعد وہ اگر اسلامی ریاست میں پائے جائیں تو ان کو مارا جائے گا۔یہ بدعہدی کی سزا ہے جو ان کی سنائی گئی۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے صاف طورپر فرمایا کہ وہ کفار ومشرکین جنہوں نے اہلِ ایمان کے ساتھ جنگ نہیں کی اور نہ ان کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کیا جائے ۔
۶۲۔لَا يَنْهَاكُمُ اللَهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ۔
اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہےاور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الممتحنہ ۸)
۶۳۔مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا۔۔
اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھاکہ ”جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانون کو قتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی“۔(سورۃالمائدہ ۳۲)
اس آیت میں واضح کردیا گیا ہے کہ عام کفارومشرکین سے نیکی اور انصاف کو برتاؤ کیا جائے۔اسلام تو ناحق قتل کو ساری انسانیت کا قتل قراردیتا ہے۔ اور ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کو بچانا ہے۔
اللہ کی راہ میں جان قربان کرنا بہترین تجارت اور سودا ہے
۶۴۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جان اور مال جنت کے بدلے خریدلیے ہیں ۔یہ سب سے بہترین تجارت ہے جس کے بدلے اللہ تعالیٰ دردناک عذاب سے محفوظ رکھے گا اور نعمت بھری جنت عطاکرے گا ۔ (سورۃ الصف ۱۰)
۶۵۔إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناواپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ (سورۃ التوبہ ۱۱۱)
چونکہ انسان تجارت، منافع، خرید و فروخت میں بہت دل چسپی رکھتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی استعارہ میں مومنین سے خطاب فرمایا کہ جنت جیسی قیمتی نعمت کا سودا یہ ہے کہ اس کے بدلے مومنین اپنی جان و مال کے تصرف کے اختیارکو اللہ کے ہاتھ فروخت کردیں جس کا اعلیٰ ترین مظہر یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان لٹانے کےلیے تیار رہیں ۔
اسلامی ریاست میں جہاد و قتال زندگی کی معمولات میں شامل تھے
۶۶۔ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔
اے نبیؐ ، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے ، اسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں،اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰةدو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاو گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ (سورۃ المزمل ۲۰)
اہل ایمان رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں رات میں قیام (تہجد)کرتے ہیں اور دن میں رزق تلاش کرتے ہیں اور جہاد قتال کے لیے ہمیشہ تیاررہتے ۔ اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دورِ نبوت و دورِ صحابہ میں جیسے رزق کمانا معمولاتِ زندگی تھا اسی طرح جہاد وقتال بھی معمولاتِ زندگی میں شامل تھا۔ جہادی شعور اصحابِ رسول میں اتنا پختہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ امت کی بقا جہاد فی سبیل اللہ ہی میں ہے ۔
ظالموں کی ناکامی اوراہل ایمان کی اصل کامیابی اہل ایمان کی استقامت میں ہے
جہاد کا ایک عنوان یہ بھی ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہا جائے چاہے اس کے نتیجہ میں جان کو شدید خطرہ لاحق ہو۔ ظالم کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی صورت مسلم ملک میں بھی پیش آسکتی ہے جہاں حکم راں ظالم ہو اور یہ صورت حال اس وقت بھی پیش آسکتی ہے جب مسلمان غیر مسلم اکثریت کے درمیان رہتے ہوں اور دعوت الی اللہ کا فرض انجام دینا خطرہ کا باعث ہو۔ یقیناً انبیائی طرزِ دعوت ہی اصل دعوت ہےجس کے نتیجے میں آزمائش وابتلا کے حالات پیدا ہوں گے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ انسان جابر حاکم یاظالم امیر کے سامنے حق و انصاف کا کلمہ کہہ گزرے۔‘‘
اہل حق مستکبرین کی طرف سے سخت سزاؤوں کا اعلان کرنے کے بعد بھی حق پر ثابت قدمی سے جمے رہتے ہیں۔ یہی ثابت قدمی دراصل اہل ایمان کی حقیقی کامیابی ہے۔ ظالم اہل حق کو مار تو سکتے ہیں لیکن جھکا نہیں سکتے۔ اہل حق کی اسی استقامت میں ظالموں کی شکست ہے۔قرآن میں اس قسم کے جہاد کی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں :
۶۷۔قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ ۝ قَالُوا لَا ضَيْرَ إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ ۝ إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا أَن كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِين
َ فرعون نے کہا ”تم موسیٰؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے، میں تمہارے ہاتھ پاوں مخالف سمتوں سے کٹواوں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا“ انہوں نے جواب دیا "کچھ پروا نہیں ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں۔“ (سورۃ الشعراء۴۹، ۵۰، ۵۱)
موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کے درمیان مقابلے کے بعد جادوگر ایمان لائے۔ ان کے ایمان لانے کے بعد فرعون نے اپنی خفت کو مٹانے کے لیے جادوگروں کو ڈرانے کے لیے دردناک سزاکا اعلان کیا۔ اس کی دھمکی کے جواب میں جادوگروں نے عزیمت کا مظاہرہ کیا اور ایسا مثالی جواب دیا جو استقامت کی اعلیٰ نظیر بن گیا۔ اس استقامت ہی میں فرعون کی شکست تھی کہ وہ ان کو قتل تو کر سکا لیکن جھکا نہ سکا۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر اس طرح پیش کیا گیا :
۶۸۔فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔
تو جو کچھ کرنا چاہے کرلے تو زیادہ سے زیادہ بس اسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے (سورۃ طہ ۷۲)
جب بھی ظالم حکم راں دلیل کی دنیا میں ناکام ہوجاتے ہیں تو وہ ظلم سے حق کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔اصحاب الاخدود نے بھی اسی استقامت کا مظاہرہ کیا تھا جس کا ذکر سورہ بروج میں ہے ترجمہ: ’’قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے، اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے (اس گڑھے والے) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی جبکہ وہ اس گڑھے کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے۔ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقیناً اُن کے لیے جہنّم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جَلائے جانے کی سزا ہے۔‘‘
۷۰۔إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ۔
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے،یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ”نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہو جاو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (حم السجدہ ۳۰)
جب اللہ کے بندے ثابت قدمی سے دعوت و عزیمت اور جہاد کے سفر پر گامزن رہتے ہیں تو اللہ فرشتوں کے ذریعے ان کی ہمت بندھاتا ہے۔ یہ فرشتے موت سے پہلے غیر محسوس طریقے سے سکینت کا ذریعہ بنتے ہیں ۔یا موت کے وقت اپنی اصلی حالت میں آکر ثابت قدم اہلِ ایمان کو جنت کی بشارت دیتے ہیں ۔
جہاں دعوت الی اللہ کے فرض کو ادا کرتے ہوئے جان خطرہ میں محسوس ہو، وہیں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ دعوت الی اللہ کی برکت سے اللہ کی حفاظت ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
۷۱۔يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔ (سورۃ المائدہ ۶۷)
اللہ کی نصرت سے کیا مراد ہے؟
۷۲۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ۔
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ (سورۃمحمد۷)
اللہ بے نیاز ہستی ہے۔ ہر مخلوق اس کی حاجت مند ہے اور وہ کسی کا حاجت مند نہیں ہے۔پھر اللہ کی مدد کرنے کا کیا مطلب ہے۔ یہ اللہ کا کام تھا کہ اللہ کے بندوں کو اس بات سے خبردار کیا جائے کہ یہ دنیا امتحان کے لیے ہے اور مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ان کا حساب لیا جائے گا۔اس خبر کو پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا ۔ختمِ نبوت کے بعد یہ ذمہ داری امتِ مسلمہ پر عائد ہوگئی ہے۔اب امتِ مسلمہ کے ایک ایک فرد سے فرمایا جا رہا ہے کہ حق بات کو ساری دنیا تک پہنچانے کا فرض انجام دیا جائے۔ اسی کو نصرت سے تعبیر کیا گیا ہے۔اللہ کے دین کو ساری انسانیت تک پہنچانا، نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا اور انفرادی و اجتماعی طور پر دینِ حق کا نمونہ انسانیت کے سامنے پیش کرنا یہ ایسے کام ہیں جس کو اللہ کی مدد کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جب یہ فرض ادا کیا جائے گا تو پھر اللہ کی مدد بھی مومنین کے شامل حال ہوگی، یعنی اللہ کی مدد مشروط ہے اور اللہ کی مدد اس طرح ہوگی کہ اس دنیا میں مومنین کو کفار پر غلبہ عطا ہوگا اور ان کے وجود کو استحکام حاصل ہوگا۔ اہلِ ایمان اللہ کے راستے میں اللہ کے دین کو اور اسلامی ریاست کو مستحکم کرنے میں جتنا زور لگائیں گے اسی قدر اللہ تعالی اہل ایمان کی نصرت فرمائے گا۔ ہر نبی کو دعوت الی اللہ کے کام میں ساتھیوں کی ضرورت رہی ہے۔ چنانچہ عیسی علیہ السلام عظیم معجزات رکھتے ہوئے بھی ان کو اللہ کی نصرت کے کاموں میں لوگوں کی شراکت کے لیے آواز لگانی پڑی ۔
۷۳۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ فَآَمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آَمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ ۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مدد گار بنو، جس طرح عیسٰی ابنِ مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: ”کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مدد گار“؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا ”ہم ہیں اللہ کے مددگار“۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے۔(سورۃ الصف ۱۴)
اہل کتاب جنگ میں مقابلہ کی ہمت نہیں رکھتے
۷۴۔لَن يَضُرُّوكُمْ إِلاَّ أَذًى وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الأَدُبَارَ ثُمَّ لاَ يُنصَرُونَ ۔
یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی۔
(سورۃ آل عمران ۱۱۱)
۷۵۔لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاء جُدُرٍ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ ۔
یہ کبھی اکٹھے ہو کر (کھلے میدان میں) تمہارا مقابلہ نہ کریں گے، لڑیں گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر۔ یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں۔ تم اِنہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ حال اِس لیے ہے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔ (سورۃ الحشر۱۴)
یہودونصاری ٰکے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایذا پہنچائیں گے لیکن ان میں میدان میں مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ مقابلہ کی صورت میں وہ پیٹھ دکھائیں گے۔ یہ پیشین گوئی آج بھی پوری ہو رہی ہے۔یہ لوگ فضائی حملے کرکے معصوم عوام پر بمباری کرسکتے ہیں لیکن زمینی جنگ میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اہل کفر کو جان پیاری ہوتی ہے اس لیے وہ سرفروشی کے ساتھ نہیں لڑسکتے ۔اگر وہ لڑتے بھی ہیں تو اپنی جان بچاتے ہوئے لڑتے ہیں ۔ چونکہ یہ دنیا کے طالب ہوتے ہیں اس لیے ان کے دلوں میں وہ یکجہتی پیدا نہیں ہو سکتی جو جنت کے حصول کے لیے لڑنے والوں میں ہوتی ہے ۔ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔وہ ذہنی امراض کا شکار ہوکر اپنی ہی فوج پر گولیاں چلاتے ہیں۔
دو مسلم ملک اگر آپس میں لڑپڑیں ۔۔
۷۶۔ وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِن فَاءتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ۔
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑجائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الحجرات ۹)
جب دو مسلم ممالک آپس میں لڑ پڑیں تو مسلم اتحاد کو چاہیے کہ دونوں میں صلح کروائیں۔اگرصلح جوئی کا یہ کام نہ کیا گیا تو کوئی غیر مسلم طاقت و رملک اس جھگڑے سے فائدہ اٹھائے گا۔ اگر دو ملکوں میں سے ایک ملک زیادتی کرے اور صلح کی شرائط پرآمادہ نہ ہو تو مسلم اتحاد کا کام یہ ہے کہ وہ زیادتی کرنے ملک سے لڑے اور اس کو عدل و انصاف پر مجبور کیا جائے۔
فتح سے قبل اورما بعد انفاق اور قتال
۷۷۔ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کی ہے۔ تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (سورۃ الحدید ۱۰)
جب اسلام کو خطرات لاحق ہوں تو اس وقت جو اسلام قبول کریں اور اسلام پر قائم رہنے کے لیے اور اسلامی ریاست کی بقاکے لیے جان کی بازی لگائیں ان کی اللہ تعالیٰ نے قدر فرمائی ہے اور فرمایا کہ ان کے درجات بہت بلند ہیں۔ان درجات کو وہ لوگ ہرگز نہیں پہنچ سکتے جو اس وقت ایمان لائیں جب اسلامی فتوحات کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ میں سابقون الاولوں ہی اولوالامر رہے اور خلافتِ راشدہ، ملوکیت میں اس وقت تبدیل ہوگئی جب ان لوگوں کے ہاتھ میں زمامِ کار آگئی جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے۔
(ختم شد)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024