جہاد فی سبیل اللہ کا قرآنی نصاب

ابتلاء وآزمائش میں ثابت قدمی، اہل ایمان کی پہچان

ڈاکٹر ساجد عباسی

قوت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو توقیام عدل ممکن
اسلام میں جہاد کی حقیقت ومعنویت کو سمجھنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کے قرآنی نصاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ پچھلے مضمون (فروری، شمارہ نمبر 6) میں مقاصدِ جہاد سے متعلق آیات و اسباق پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ ذیل میں اس سے آگے کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔
اہلِ ایمان کی آزمائش لازمی ہے
۱۵۔أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّهِ قَرِيبٌ۔ پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمہیں مِل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتٰی کہ وقت کا رسول اور اس کےساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔۔ اس وقت انھیں تسلّی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ سورۃ البقرۃ ۲۱۴۔
جنت بہت ہی قیمتی جگہ ہے جہاں کی نعمتیں ہمارے تصورسے ماوراء ہیں ۔ایسی جنت کے مستحق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو ایمان کی سخت آزمائش میں پورے اترنے والے ہوں ۔جتنی آزمائش بڑی ہوگی اسی قدر انعام بڑا ہوگا۔اہل ِ ایمان ہمیشہ ایسے مواقع کے لیے تیاررہیں کہ ان پرکسی بھی وقت سخت حالات پیش آسکتے ہیں جس طرح پچھلے انبیاءا ور ان کے ماننے والوں پر آئے تھے۔
۱۶۔ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ۝ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہےکہ سچے کون ہیں اور جھُوٹے کون۔سورۃ العنکبوت ۲، ۳۔
۱۷۔أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللهُ الَّذِينَ جَاهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ ۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔ سورۃ آل عمران ۱۴۲۔
جنگی حالات اس لیے بھی پیش آتے ہیں تا کہ لوگوں کی آزمائش ہو جس سے یہ معلوم ہوکہ کون صادق الایمان ہے اور کون دعوائے ایمان میں جھوٹا ہے۔
۱۸۔مَّا كَانَ اللهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىَ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاء فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ۔ اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کرکے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کردے۔غیب کی باتیں بتانے کے لیے تووہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے، لہٰذا( اُمورِ غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔ سورۃ آل عمران ۱۷۹۔
اہلِ ایمان پر سخت حالات پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے ممیزکرنے کے لیے لائے جاتے ہیں ۔پاک لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل نفاق کے مرض سے پاک ہوں۔
۱۹۔وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَى لَهُمْ ۔جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی(جس میں جنگ کو حکم دیا جائے)۔ مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھاگئ ہو۔افسوس ان کے حال پر۔سورۃ محمد۲۰۔
۲۰۔أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَهُ أَضْغَانَهُمْ۔ کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا؟
سورۃ محمد ۲۹۔
۲۱۔وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ۔ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں سورۃ محمد ۳۱۔
جنگ کےحالات پیداکرکے اور جنگ کے احکام نازل کرکے اللہ تعالیٰ ضعیف الایمان اور منافقین کے کھوٹ کو ظاہر کرکے رہتا ہے۔
قتال فرض ِ عین بھی ہے اور فرض ِ کفایہ بھی
۲۲۔كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ۔ تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ سورۃ البقرۃ ۲۱۶۔
جہاد و قتال دراصل امن و انصاف قائم کرنے کا ایک ضروری ذریعہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے فرض کے درجے میں حکم دیا ہے جو ناگوار ضرور ہے مگر اسی میں اہل ِ ایمان کی بقا ہے۔اللہ تعالیٰ کا منشایہ ہے کہ قوت و شوکت ظالموں اور شر پسندوں کے ہاتھوں میں نہ رہے جس سے دنیا میں فتنہ وفساد برپا ہوگا۔اہلِ ایمان کے ہاتھ میں قوت ہو توعدل و انصاف قائم ہوگا۔ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو بھی عدل و انصاف ملے گا اور ان کو بھی امن نصیب ہوگاجبکہ ایک ظالم شرپسند ریاست میں مسلم و غیر مسلم دونوں بھی عدل و انصاف سے محروم رہیں گے ۔اس لیے امت ِ مسلمہ کی بقاکے لیے عسکری طاقت کا حصول لازم ہوجاتا ہے جس سے شرپسند ملکوں کے خلاف قتال کیا جاسکے۔دوسری طرف آرام وآسائشیں ہر ایک کے لیےیقیناً راحت بخش ہوتی ہیں لیکن یہ امت ِ مسلمہ کو لاحق خطرات سے غفلت میں مبتلا کردیتیں ہیں جس سے اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔
۲۳۔وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللهُ إِحْدَى الطَّائِفَتِيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللهُ أَن يُحِقَّ الحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ ۔یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا۔تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔سورۃ الانفال ۷۔
۲۴۔لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ۔ تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطِل باطِل ہو کر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ سورۃ الانفال ۸۔
جنگِ بدر کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے تجارتی قافلہ سے نمٹنے کے بجائے لشکر سے مقابلہ کرنے کی ہدایت دی۔اللہ کا یہ فیصلہ بعض اہل ِ ایمان کو خوفناک محسوس ہونے لگا جیسےکہ وہ موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ قافلہ کے مقابلے میں لشکر سے نمٹنا گویا آسان ہدف کے مقابلے میں پر خطر ہدف کو اختیارکرنا تھا جوناگوارضرورتھا لیکن یہی اللہ کا فیصلہ اسلامی فتوحات کا نقطۂ آغازثابت ہوا ۔اللہ تعالیٰ کا منشایہ ہے کہ طاقت اہل ِ حق کے ہاتھ میں رہےتاکہ دنیامیں امن و انصاف قائم ہوچاہے مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوارہو۔
۲۵۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ ۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دُنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ سورۃ التوبہ ۳۸۔
مدینہ میں اہل ِایمان کے ساتھ منافقین بھی تھےجن کو شرم دلائی جارہی ہے کہ جب قتال فرض عین ہوجائے تو تم دنیا کو آخرت پر ترجیع دے کر زمین سے چمٹ کر رہ جاتے ہو۔غزوۂ تبوک کے موقعہ پر جہاد فرضِ عین ہوچکا تھا اس لیے ہر ایک بالغ مرد کو جہاد کے لیے نکلنے پر ابھارا گیا ہے۔اس موقعہ پر جہاد سے جی چرانا دلوں کے نفاق کو ظاہر کرنے کا ذریعہ بن گیا تھا۔
۲۶۔إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلاَ تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔ تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا،اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اُٹھائے گا،اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ سورۃ التوبہ ۳۹۔
جہادوقتال پر نہ نکلنے کی صورت میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے بزدل لوگوں کو ہٹاکر دوسری قوم کو لے آئیگا۔
۲۷۔إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں،اللہ اُس کی مدد اُس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ”غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔ اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون ِقلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبر دست اور دانا و بینا ہے۔ سورۃ التوبہ ۴۰۔
اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ کس طرح اللہ اپنے رسول ؐ کی مددکرنے پر قادرتھا جب ہجرت کے موقعہ پر دشمن آپؐ کو تلاش کررہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدد کرنے پر قادرہے جو اس کے بھروسے پر قتال کرتے ہیں ۔
۲۸۔انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ سورۃ التوبہ ۴۱۔
ہلکے ہو یا بوجھل یعنی تیاری ہو یانہ ہو ہر حال میں قتال کے لیے نکلیں جب نکلناناگزیرہوجائے (جب قتال فرضِ عین ہو) ۔ جب دشمن کے کسی وقت بھی حملہ کرنے کا نازک مرحلہ درپیش ہوتو اس صورت میں قتال فرضِ عین بن جاتا ہے ۔ایسی صورت میں چاہےتیاری ہویانہ ہوہر حال میں قتال کے لیے نکلنے کا حکم دیا گیا ۔
۲۹۔فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللّهِ وَكَرِهُواْ أَن يُجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ۔ جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ "اس سخت گرمی میں نہ نکلو” ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ سورۃ التوبہ ۸۱۔
جب قتال فرضِ عین بن جائے تو اسلامی ریاست کے ہر بالغ مرد پر جہاد فرض ہوجاتا ہے ۔اس وقت کسی کو گھر پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی سکتی ۔گھر میں بیٹھنے والے منافق قرار پائیں گےجن کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب کا اظہارفرمایا ہے ۔
۳۰۔لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا ۔مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سےبہت زیادہ ہے۔ سورۃ النساء۹۵۔
قتال فرض ِ کفایہ اس وقت ہوتا ہے جب اسلامی ریاست کے وجودکو فوری خطرہ لاحق نہ ہوتوایسی صورت میں اسلامی ریاست میں متعین فوج (standing army) کی ذمداری ہوتی ہے کہ وہ قتال کرے ۔اس صورت میں جہاد کے لیے رضا کاروں volunteersکی بھرتی ان لوگوں کے لیے کفایت کرے گی جو جہاد پر نہیں نکلتے ۔ایسی صورت میں گھر پر بیٹھنا جرم نہیں ہوگالیکن قتال کرنے والوں کے درجات گھرپر بیٹھنے والوں سے بلندتر ہونگے۔ اسلامی ریاست کا سربراہ ہی فیصلہ کرے گا کہ کس موقعہ پر قتال فرضِ عین ہے اورکس موقعہ پر فرضِ کفایہ ہے۔
اللہ کی مددہی سے مومنین کو فتح حاصل ہوگی
۳۱۔۔ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِينَ۔ (بار ہا ایسا ہوا ہے کہ) ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔سورۃ البقرۃ ۲۴۹۔
۳۲۔وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلاَّ بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ۔یہ بات اللہ نے تمہیں اس لیے بتا دی ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں فتح و نصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے جو بڑی قوت والا اور دانا و بینا ہے۔ سورۃ آل عمران۱۲۶۔
جب بھی مومنین کوفتح ونصرت ملتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے۔مومنین کو اس زعم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی تدبیر، ان کی بہادری وشجاعت اور ہتھیاروں کے بل پر فتح حاصل ہوئی ہے۔
۳۳۔إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُرْدِفِينَ ۔اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ سورۃ الانفال ۹
اللہ تعالیٰ نے جنگ ِ بدرکے موقعہ پر ۱۰۰۰فرشتوں سے مددکا وعدہ کیا ۔ آج بھی ایساایمان پیداہوتو فرشتوں کے ذریعے اللہ مومنین کی مددکرنے پر قادرہے۔
فضائے بدرپیداکرفرشتے تیری نصرت کو ٭٭اترسکتے ہیں گردوں سے قطاراندرقطاراب بھی
۳۴۔وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔( یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ) تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔ سورۃ الانفال ۱۰
۳۵۔إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّن السَّمَاء مَاء لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأَقْدَامَ ۔
اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا،اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمہاری ہمّت بندھائے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے قدم جمادے۔ سورۃ الانفال ۱۱۔
غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد سکینت ،غنودگی ، بارش اور فرشتوں کے ذریعے فرمائی ہے۔
۳۶۔فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ۔پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تُو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا ( اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے ، یقیناً اللہ سُننے اور جاننے والا ہے۔ سورۃ الانفال ۱۷۔
فتح کو اپنی کاوش کا نتیجہ سمجھنا غلط ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے دشمنوں کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا ( فرشتوں کو بھیج کر) ۔تم نے انکی طرف مٹھی بھر مٹی نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی جس سے میدانِ جنگ میں کفارومشرکین کے بصارت سلب ہوئی۔(جاری)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024