امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کی

نئی دہلی، فروری 26: جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں جے آئی ایچ صدر نے کہا ’’ہم یوکرین میں فوجی کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا ابھی کووڈ 19 وبائی امراض کے اثرات سے باہر آرہی ہے۔ روس کی طرف سے ان فوجی کارروائیوں کے مکمل پیمانے پر جنگ میں تبدیل ہونے کا واضح امکان ہے، جس کے بعد صورت حال کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔ ہم ایک مہذب دنیا میں رہتے ہیں، جہاں قوموں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو سفارت کاری، گفت و شنید اور بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ فوجی کارروائی اور قبضہ ملکوں کے درمیان بقایا مسائل کو حل کرنے کا راستہ نہیں ہے۔‘‘

امیر جماعت نے تحمل، فوری جنگ بندی اور تنازع کے خاتمے کے لیے سفارتی عمل شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

انھوں نے کہا ’’جماعت اسلامی ہند حکومت ہند پر زور دیتی ہے کہ وہ اس تنازعہ میں مثبت سفارتی کردار ادا کرے اور جنگجوؤں کو جنگ روکنے اور تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔‘‘

انھوں نے حکومت ہند پر اس کے لیے بھی زور دیا کہ وہ یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کو ہندوستان واپس لانے کے لیے پوری کوشش کرے۔ ’’ہم خاص طور پر حکومت سے گذارش کرتے ہیں کہ یوکرین میں 20,000 سے زیادہ ہندوستانی طلبا کو فوری طور پر، تمام ممکنہ زمینی اور ہوائی راستوں کا استعمال کرتے ہوئے مفت میں واپس لایا جائے۔ ایئر انڈیا کی نجکاری کے بعد ہوائی کرایوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ غریب طلبا کے لیے گھر واپس آنا مشکل ہوگا، اس لیے لاجسٹک اور مالی مدد دونوں کے ذریعے حکومتی مداخلت کی ضرورت ہے۔ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے اور ہندوستانیوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔‘‘

جماعت اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ تنازعہ نے ایک بار پھر بڑی طاقتوں کی منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ وہی ممالک جنھوں نے عراق، افغانستان اور دوسرے بہت سے ممالک کو تباہ کیا تھا، اب روسی اقدامات پر رونا رو رہے ہیں۔ طاقتور ممالک کے یہ دوہرے معیار دنیا بھر میں تشدد کی بڑی وجہ ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز کو جمہوری اور انسانی اصولوں پر دوبارہ منظم کیا جائے اور دنیا جارح اور جارحیت کے ’’کیمپوں‘‘ سے قطع نظر ایک متفقہ اصولی پوزیشن کی طرف بڑھے۔