’ قرآن نے زندگی کی کایا پلٹ دی۔زکوٰۃ نے حقیقی خوشی سے روشناس کیا‘
رمضان سے ایک ہفتہ پہلے میں بہت بے چین تھی۔ میرا قلب مطمئن نہیں تھا۔ تبھی میرے والد صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا بیٹا رمضان قریب ہے بازار میں بہت اچھی کھجوریں آئی ہیں، جاو اور میرے لیے لے آؤ۔ اچانک میرا بے چین ذہن لفظ ’رمضان‘ کی طرف متوجہ ہوا۔ میرے ذہن میں بہت سے سوالات نے جنم لیا۔ واقعی! رمضان کیسا ہو گا؟ مسلمان اتنی سختی سے روزہ کیسے رکھتے ہیں؟ رمضان کے تعلق سے میرا اشتیاق مزید بڑھ گیا۔ میں جس روزہ (اپواس) سے واقف تھی اس میں تو کچھ چیزیں کھانے پینے کی آزادی تھی۔ جس پر میں ہمیشہ اپنی ماں سے سوالات کرتی رہتی تھی۔ میری رائے میں روزے کا مطلب ہے اپنی مرضی پر قابو پانا اور بھوک کا احساس کرنا کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کئی کئی دن بھوکے رہتے ہیں۔ ان کی بھوک کو محسوس کرنا۔ اس سوچ اور فکر کے ساتھ میں نے انٹرنیٹ کے ذریعے رمضان المبارک کے روزوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی شروع کی اور میرے بے چین ذہن کو جیسے قرار آ گیا۔ یہ پڑھ کر میرے ذہن میں روزے کی تعریف واضح ہو گئی۔ اس کے علاوہ میری نظر ایک قرآن پر پڑی جو مجھے کسی نے دی تھی۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔
مجھے یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس سوچ کے ساتھ کہ اگر میں روزہ رکھوں گی تو مجھے خدا ملے گا۔ یہ کیسا ہوگا اس تجسس کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ میں روزہ رکھوں گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ مخمصہ پیدا ہو گیا کہ کیا میں پورے 30 دن روزہ رکھ سکوں گی۔ کیونکہ بہت سارے مسائل ہیں۔ سسر روزے رکھنے دیں گے یا نہیں؟ کالج کے ساتھی کیا کہیں گے؟ لیکن میرا ذہن اس مسئلے کو ثانوی اہمیت دے رہا تھا اور ایک روحانی الہام کی طرف کھینچ رہا تھا۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے۔ رمضان کے روزے کو صحیح طریقے سے اداکرنا سیکھنا تھا۔ رمضان سے دو دن پہلے میں کھجوریں لا کر ایک ریک میں چھپا دیتی تھی تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ چونکہ مجھے وقت کا علم نہیں تھا، اس لیے میں نے قریبی مسجد کے باہر لگے اوقاتِ نماز کی تصویر کھینچ لی۔ رمضان شروع ہو گیا۔ اپنے پہلے دن میں نے صبح اٹھ کر غسل کیا، دو کھجوریں اور بہت سا پانی پیا، چہل قدمی کی اور فجر کی نماز کی تیاری کی۔ میں نے اپنی زبان میں نماز ادا کی۔ کیونکہ میں صرف اتنا جانتی تھی کہ خدا اس زبان کو نہیں دیکھتا جس میں آپ دعا کرتے ہیں، وہ یہ دیکھتا ہے کہ آپ اسے کتنے خلوص سے پکارتے ہیں۔ پھر میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا۔ اگرچہ میں نے پہلے بھی قرآن کے چند سورتیں پڑھی تھیں لیکن رمضان کا پہلا دن مجھے قرآن سے متعارف کرا رہا تھا۔ میں قرآن پڑھ رہی تھی کہ کافر ومنافق کا ذکر آگیا پڑھتے ہوئے اچانک میرا دماغ کھٹکا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں جس بُت کی پوجا کر رہی تھی وہ خدا نہیں تھا، میں ایک چھوٹی بچی کی طرح رو رہی تھی، روتے ہوئے خدا کے آگے سر جھکا رہی تھی، یہ خدا ہے! میں نے آپ کو ابھی تک نہیں پہچانا۔ میرے خیالات خدائی تعلیمات کو مسلسل ٹال رہے تھے، میرے اعمال خدا کی نافرمانی کر رہے تھے، لیکن خدا مجھے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولا۔ خدا واقعی کتنا مہربان ہے۔ میں نے دعا کی اے اللہ! میرا دل بدل دے اور مجھے اپنا سیدھا راستہ دکھا‘‘۔
شام کو افطار کیا اور مغرب اور عشاء کی نمازیں چھپ کر ادا کیں۔ اس طرح پہلا روزہ مکمل ہوا لیکن اس پہلے روزے کے دوران گویا میرا دوبارہ جنم ہوا۔ روزے کے دوسرے دن میرا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا اور میرا دماغ جسم اور روح بھوک اور پیاس کی پروا کیے بغیر خدا کے قریب ہونے کی جستجو میں تھے۔ ایک طرف مجھے افسوس تھا کہ میں نے اب تک نہ جانے کتنے گناہ کیے ہیں اور ساتھ ہی مجھے خوشی بھی تھی کہ میں نے خدا کو پہچان لیا ہے۔ میں نے خدا سے معافی مانگی اور دل میں فیصلہ کیا کہ میں جس راستے کی تلاش میں تھی اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ قرآن نے میری زندگی کا رخ موڑ دیا اور مجھے احساس ہوا کہ میں تیس روزے رکھوں گی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے نبی تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت قبول کرنے والوں کو خوب جانتا ہے‘‘ پہلے تین دن آرام سے گزرے لیکن پھر آہستہ آہستہ سب مجھے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے۔ میری ساس کا چہرہ سوال کر رہا تھا لیکن اس میں پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ روزہ گھر والوں کے لیے باطل تھا۔ ایک موقع پر میری ساس اور میرے شوہر نے جان بوجھ کر میرے لیے میرا پسندیدہ کھانا لے آئے اور مجھے زبردستی روزہ توڑنے پر مجبور کیا، لیکن میں سختی سے انکار کر رہی تھی اور دل ہی دل میں اللہ سے دعا مانگ رہی تھی۔ گھر کے بعد کالج میں بحران شروع ہو گیا۔ میرے ساتھی مجھ سے مسلسل پوچھ رہے تھے کہ تم روزہ کیوں رکھتی ہو؟ میں نے پورے حوصلے سے جواب دیا خدا کے لیے! میرا روحانی حوصلہ مجھے اتنا مضبوط کر رہا تھا کہ میں ان کے لا تعداد سوالوں کے جواب دے رہی تھی اور وہ لا جواب ہوتے جا رہے تھے۔ گویا خدا پیار سے میرا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہا تھا کہ میں نے تمہیں چنا ہے، ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں۔
آفتیں آتی رہتی تھیں لیکن آسانی سے ٹل جاتی تھیں۔ گویا ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا آیا اور پل بھر میں چلا گیا۔ ایک بار ایسا ہی چھٹی کا دن تھا۔ میرے شوہر نے جان بوجھ کر ستیہ نارائن پوجا کا اہتمام کیا اور میری ساس نے مہمانوں کو وہاں کھانے پر مدعو کیا اور میرے شوہر نے اصرار کیا کہ مجھے پوجا کے لیے بیٹھنا چاہیے۔ یہ میرے لیے سب سے مشکل لمحہ تھا۔ میرے سوکھے ہونٹ پانی نہیں مانگ رہے تھے، لیکن یہ سوچ کر خدا سے فریاد کر رہے تھے،’’خدایا! میرا روزہ نہ توڑنا، مجھے اپنے راستے سے نہ ہٹانا‘‘۔ دیکھنے والوں کو یہ صورتحال بہت مشکل لگ رہی تھی لیکن میرے لیے یہ ثانوی تھی۔ کیونکہ سب میرے خلاف تھے لیکن وہ مجھ پر حملہ نہیں کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے لگا کہ خدا کے فرشتے میری حفاظت کر رہے ہیں۔ روزے کے ساتھ ساتھ میں نماز کی مشق کر رہی تھی۔ مجھے ہر نماز چھپ کر پڑھنی پڑتی تھی۔ کالج میں ایک بار میں ہاتھ میں اسکارف لیے جمعہ کی نماز پڑھنے خواتین کے کمرے میں گئی۔ میری ایک ساتھی نے میرا پیچھا کیا اس نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور چند ہی لمحوں میں اس نے پورے کالج میں یہ خبر پھیلا دی کہ سیما دیش پانڈے روزے سے ہے، نتیجتاً سبھی مجھے شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ لیکن میں ان سے بات چیت کر رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب اللہ آپ کے ساتھ ہو تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور جب اللہ آپ کو چھوڑ دے تو کوئی آپ کو بچا نہیں سکتا۔ میرے ان تجربات نے مجھے خدا کے معجزے سے آگاہ کیا جس نے خدا کے ساتھ میرا رشتہ مضبوط کیا۔ میں نے سوچا کہ ہر لمحہ قابل قدر ہے، میں کیا کروں تاکہ میں خدا کا دل جیت سکوں؟ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ عصر کی اذان ہو گئی لیکن کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں میں نمازِ عصر پڑھ سکتی تھی۔ میں کسی کے سامنے نماز نہیں پڑھ سکتی تھی۔ اس ڈر سے کہ وہ مجھے مکمل روزہ نہیں رکھنے دیں گے۔ میرے کانوں میں قرآن کے الفاظ گونج رہے تھے کہ نماز قائم کرو۔ مجبوری کے تحت میں نے غسل خانے میں نماز پڑھی۔ کہا جاتا ہے کہ چلچلاتی گرمی کے بعد بارش ہوتی ہے لیکن وہ ویسے ہی آتی ہے۔ رمضان المبارک کی پندرہویں تاریخ کو خدا نے میرا پورا منظر نامہ ہی بدل دیا۔ میرے رب نے ہر اس شخص کی سوچ بدل دی۔ میری ساس جو روزہ توڑنے کی سازش کر رہی تھیں اب میرے لیے افطار کے لیے تیاری کرنے لگیں۔ انہوں نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا لیکن وہ خاموش تھیں۔ گویا خدا نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔ وہاں کالج میں میرے ساتھیوں نے ناراض ہوئے بغیر میرے کام میں میری مدد کی۔ بے شک اللہ قرآن میں فرماتا ہے "جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے”
درحقیقت قرآن ایک دوست کی مانند ہے اور جتنا زیادہ وقت اس کے ساتھ گزاریں گے اتنا ہی اس کے راز افشا ہوتے جائیں گے۔ یہ رمضان المبارک کا پندرہواں دن تھا۔ اس دن کالج میں ایک خاتون اپنی بیٹی کی فیس ادا کرنے کے لیے منگل سوتر بیچنے گئی تھیں۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ خدا نے قرآن میں محتاجوں کو زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے اسے 5000 روپے دے دیے۔ میں اس وقت اس سے زیادہ خوش تھی۔ اس احساس کے ساتھ کہ میں نے یہ عطیہ خدا کے لیے دیا ہے اور یہ دیکھ کر میرا اللہ مجھ سے بہت خوش ہوا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے بہت سے یتیم خانوں کو چندہ دیا، ملازماؤں کو نئے کپڑے دیے، غریبوں کو کھانا دیا۔ میں سب کچھ خدا کے لیے کر رہی تھی اور مجھے بہت اطمینان محسوس ہوا کہ مجھ میں خیر کے کام کرنے کی بھوک تھی۔ آخر کار خدا کے فضل سے میں نے 30 روزے پورے کیے اور عید کے دن میں نے اللہ سے وعدہ کیا کہ میں مرتے دم تک بتوں کی پوجا نہیں کروں گی۔ میرے لیے یہ پہلا رمضان ایک نایاب پھول جیسا محسوس ہوا جس میں پھول صرف ایک بار کھلتا ہے لیکن اس کی خوشبو سال بھر مچی رہتی ہے۔
خدا سے میری صرف یہی دعا ہے کہ وہ مجھے زندگی اپنے بتائے ہوئے طریقے پر گزارنے کی توفیق دے اور مجھے ایک اچھا مومن بننے کی صلاحیت عطا کرے۔ آمین!
(ترجمہ : ڈاکٹرمحمد کلیم محی الدین )
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اپریل 2022