حکومت آسام کا مدارس کے نصاب پر اثرانداز ہونے کا منصوبہ!

(دعوت نیوز نیٹ ورک)

منہدم شدہ مدرسوں کو اسکول میں تبدیل کرنے کی کوشش۔اقلیتوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی
اترپردیش اور اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حکومتوں نے غیر سرکاری مدرسوں کا سروے شروع کر دیا ہے۔ مدرسوں کا انتظامیہ احتجاج اور ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اس سروے میں تعاون کر رہا ہے۔ سروے کے کیا نتائج آئیں گے اور اس کے بعد حکومت کے اقدامات کیا ہوں گے اس پر ابھی قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔تاہم آسام میں ہیمنت بسوا سرما کی زیر قیادت بی جے پی حکومت لگاتار ایسے اقدامات کر رہی ہے جن سے آئین کی دفعہ 30 کی پامالی ہو رہی ہے۔ سرکاری مدرسوں کے خاتمے، چار مدرسوں پر بلڈوزر چلانے اور مدرسوں کا دہشت گردی سے رشتہ جوڑنے کے بعد اب آسام حکومت نے غیر سرکاری مدرسوں کے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا ہے، اس کے لیے حکومت ایک سرکاری پورٹل بنائے گی۔
اگست میں بونگائیگاؤں، بارپیٹا اور موریگاؤں میں تین مدرسوں پر دہشت گردی کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں بلڈوزر چلا دیا گیا۔ ائمہ اور مدرسے کے اساتذہ سمیت 37 افراد کو انصار اللہ بنگلہ ٹیم کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ آسام میں مسلمانوں کے عطیات سے چلنے والے مدرسوں کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے۔ جن تین مدرسوں کو منہدم کر دیا گیا جن کے متعلق ہیمنت بسوا سرما نے کہا تھا کہ ’’یہ ادارے مدرسوں کے طور پر نہیں چل رہے تھے بلکہ دہشت گردی کے مراکز اور القاعدہ کے تربیتی کیمپ کے طور پر چل رہے تھے‘‘ مگر ان مدرسوں کو منہدم کرنے کے وقت جو نوٹس دی گئی وہ بسوا سرما کے دعوؤں کی پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ انتظامیہ نے مویرابری مدرسہ کو غیر قانونی بجلی کنکشن کے لیے انہدام کی نوٹس جاری کی اور کہا کہ یہ ایک چھوٹی عمارت ہے، جب کہ ضلع بارپیٹا کے مدرسے پر سرکاری اراضی پر غیر قانونی تعمیر کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ 31 اگست کو بونگائیگاؤں کے مرکز المعارف، قرآنیہ مدرسہ کو جو نوٹس دی گئی اس میں کہا گیا تھا کہ مدرسے کی عمارت کی ساخت کمزور اور انسانی رہائش کے لیے غیر محفوظ ہے۔ دو منزلہ عمارت تعمیری اصولوں کے مطابق نہیں بنائی گئی ہے۔ مدرسوں کے بارے میں جس طریقے سے پروپیگنڈا کیا گیا اس سے متاثر ہو کر ضلع گولپارہ کے عوام نے خود مدرسے کو منہدم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
مدرسوں کے انہدام کے بعد ضلع انتظامیہ منہدم شدہ مدرسوں کو اسکولوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 4 ستمبر کو ڈپٹی کمشنر اور ایس پی نے مدارس کے صدور اور سکریٹریوں کو ہدایت دی کہ انتظامیہ ان جگہوں پر ماڈل اسکولوں کی تعمیر چاہتی ہے اور اس معاملے میں کسی تنظیم یا مذہبی لابی کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
5 ستمبر کو آسام پولس کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی) بھاسکر جیوتی مہانتا نے اسلامی اسکالرز اور مذہبی رہنماؤں کی میٹنگ بلائی جس میں جمعیت علمائے اسلام، اہل حدیث، اہل سنت اور ندوہ کی تنظیم کے نمائندے بھی شامل تھے۔ میٹنگ میں حالیہ دنوں میں ہونے والی کارروائیوں سے متعلق آگاہ کیا گیا۔ میٹنگ کے بعد آفیشیل فیس بک پیج پر آسام کی پولیس نے لکھا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مدرسہ ہے جس کا آسام اور مستقبل میں قومی سلامتی پر اہم اثر پڑے گا۔ ڈی جی پی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آسام کے ہر مدرسے میں ایک مقررہ اصول پر عمل کیا جائے۔ جن نوڈل باڈیز کے تحت یہ مدارس چلائے جارہے ہیں انہیں بھی فعال طور پر ہر مدرسے میں ان قواعد کی پابندی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر مدرسے کو جلد فعال کرنے کے لیے ایک آن لائن پورٹل پر رجسٹر ہونا ضروری ہے۔ مزید برآں، مدارس کو ریاضی، سائنس وغیرہ جیسے مضامین کو شامل کرنا ضرری ہو گا۔ پولیس چیف نے مزید کہا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ تمام مدارس کو کچھ بنیادی ہدایات پر لازمی طور پر عمل کرنا ہو گا جن میں زمین کی تفصیلات، مدارس کے اساتذہ کی تعداد، حکومت کے طے کردہ نصاب پر عمل درآمد، مالی تفصیلات، انتظامی کمیٹی کی تفصیلات اور کسی بھی تسلیم شدہ ادارے سے وابستگی، اس کے علاوہ ریاست کے باہر سے آنے والے تمام اساتذہ کی پولیس کی جانب سے تصدیق وغیرہ شامل ہیں۔ ڈی جی پی نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر اہل مدارس کو یقین دلایا ہے کہ کسی کے بھی خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی اور صرف غیر قانونی کارروائی میں ملوث افراد کی ہی تحقیقات کی جائیں گی اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
آسام کی سابقہ بی جے پی حکومت جس میں ہیمنت بسوا سرما وزیر تعلیم تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے 2018ء میں ریاستی مدرسہ تعلیمی بورڈ کی تشکیل کی تھی اور اسی کے ذریعہ سے مدرسوں کے نصاب میں ترمیم کی گئی تھی۔ 1977ء میں آخری مرتبہ مدرسہ کے نصاب میں ترمیم کی گئی تھی۔ مدرسوں کے نصاب میں ترمیم کے محض دو سال بعد 2020ء میں حکومت نے سلسلہ واراحکامات جاری کیے جس میں صوبائی مدارس کو عام تعلیمی اداروں میں تبدیل کر دیا گیا اور مذہبی نصاب پر مبنی تعلیمات کو واپس لے لیا گیا تھا۔ آسام اسمبلی نے آسام مدرسہ تعلیم ایکٹ 1995ء اور آسام مدرسہ تعلیم ایکٹ 2018 کو منسوخ کر دیا۔ اس فیصلے سے حکومت کے زیر انتظام چلنے والے 401 پری سینئر مدارس، سینئر مدارس، عربی کالجز اور ٹائٹل مدارس متاثر ہوئے۔
آرٹیکل 30 اور 30 اے کے مطابق جہاں اقلیتوں کو اپنے من پسند تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کے نصاب کو مرتب کرنے کا حق دیا گیا ہے وہیں میونسپلٹی اور صحت سے متعلق کہا گیا کہ اس معاملے میں انہیں ملکی قوانین پر عمل کرنا ہو گا۔ ان کی رو سے عمارتوں کی ساخت اور ہاسٹلوں میں طلبا کی رہائش یا مدرسوں کے ذرائع آمدنی پر حکومت کی مداخلت کی گنجائش تو نکلتی ہے مگر وہ آئین کی دفعات کو نظر انداز کرتے ہوئے نصاب پر حاوی ہونا چاہتی ہے۔ آسام میں سرکاری مدرسوں کو اسکولوں میں تبدیل کرنے کے خلاف معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ حکومت کے فیصلے کے خلاف عدالت میں پیروی کرنے والے سنتوش ہیگڑی نے سپریم کورٹ میں جو دلائل پیش کیے ہیں ان کے مطابق آرٹیکل 25، 26، 29 اور 30 کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری مدرسوں کو اسکول میں تبدیل کرنے کا عمل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آرٹیکل 29 اور 30 اقلیتوں کو چار الگ الگ حقوق عطا کرتے ہیں۔ آرٹیکل 29(1) کے تحت اقلیتوں کو اپنی زبان، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ آرٹیکل 30 (1) تمام مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 30 (2) کے تحت کسی بھی تعلیمی ادارے سے صرف اس بنیاد پر ریاستی امداد کے معاملے میں امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مذہبی یا لسانی اقلیت کے زیر انتظام چلتے ہیں۔ آرٹیکل 29(2) اسی طرح کسی بھی شہری کو مذہب، ذات، نسل اور زبان کی بنیاد پر کسی بھی سرکاری تعلیمی ادارہ یا امداد یافتہ اداروں میں داخلہ دینے سے محروم نہیں کر سکتے ہیں۔

 

***

 آسام میں مسلمانوں کے عطیات سے چلنے والے مدرسوں کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے۔ جن تین مدرسوں کو منہدم کر دیا گیا جن کے متعلق ہیمنت بسوا سرما نے کہا تھا کہ ’’یہ ادارے مدرسوں کے طور پر نہیں چل رہے تھے بلکہ دہشت گردی کے مراکز اور القاعدہ کے تربیتی کیمپ کے طور پر چل رہے تھے‘‘ مگر ان مدرسوں کو منہدم کرنے کے وقت جو نوٹس دی گئی وہ بسوا سرما کے دعوؤں کی پول کھولنے کے لیے کافی ہے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2022