ترکی میں بھی ہیں مشہور عثمانی صوفی شاعر ’غالب دادا‘

نام اور تخلص دونوں میں مرزا غالب سے مماثلت

افروز عالم ساحل

3 جنوری 2021۔۔۔ میں ترکی کے استنبول شہر میں ہوں، لیکن غالب کے ایک دم قریب ہوں۔ استنبول کے غلاطہ علاقے میں ’غالب دادا اسٹریٹ‘ پر چل رہا ہوں۔ غالب دادا کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر ان کی قبر کو حیران آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ پاس میں چند لوگ کھڑے ہوکر کچھ گنگنا رہے ہیں، کوئی نظم یا مرثیہ ہے، شاید غالب دادا کا ہی لکھا ہوا۔ پورے ماحول میں غالب دادا کی یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں میرا دل و دماغ پرانی دہلی کی پیچیدہ دلیلوں سی گلیوں میں بھٹک رہا ہے۔ ذہن میں یہ سوال ہے کہ پرانی دہلی کے بلیماران میں غالب کی حویلی اور استنبول میں موجود غالب دادا کے اس قبر کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ چچا غالب تو کبھی ترکی آئے نہیں اور نہ کبھی غالب دادا ہندوستان گئے، پر نام سے لے کر احساسات تک سب کچھ ایک سا کیوں ہے؟ یہ کون سا رشتہ ہے، جس کی تاریخ کہیں درج نہیں ہے۔ میرا دل ان سوالوں کو لے کر وہاں موجود لوگوں سے بات کرنے کو چاہتا ہے، لیکن ان کی زبان مجھ سے الگ ہے، پھر بھی میں ان سے اپنی ٹوٹی پھوٹی ترکی زبان میں بات چیت کرنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر کوئی تہہ ملتی ہے، نہ سمجھ۔

ترکی کے غالب دادا اور ہندوستان کے چچا غالب کے درمیان کا رشتہ دھیرے دھیرے میرے ذہن میں بیٹھنے لگتا ہے۔ آپ جان کر حیران ہوں گے کہ ترکی میں بھی ایک غالب ہوئے ہیں۔ جس طرح سے پورے ہندوستان میں غالب کے دیوانوں کا ایک جہان ہے، اسی طرح غالب دادا کے دیوانوں کی بھی اپنی ایک دنیا ہے۔ میں ان دونوں ہی دنیاؤں کے بیچ شاید کسی ایک پل پر کھڑا ہوں اور یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کہیں یہ غالب دادا اپنے چچا غالب کے رشتہ دار تو نہیں ہیں۔ آخر چچا غالب کے آبا و اجداد بھی تو ترک ہی تھے اور یہ بھی سچ ہے کہ چچا غالب کو ترکی زبان میں بھی مہارت حاصل تھی۔ کیا پتہ کہیں ترکی کے یہ غالب دادا ہمارے چچا غالب سے انسپائر رہے ہوں، لیکن جیسے ہی میں نے ان کی یوم وفات کی تاریخ دیکھی، میرے ذہن کے یہ خیال بدل گئے۔ اب جو اگلا خیال تھا وہ یہ تھا کہ کہیں چچا غالب ترکی کے غالب دادا سے تو متاثر نہیں تھے۔ عجیب کشمکش میں تھا۔ اس طرح کے کئی سوال میرے ذہن میں گھومنے لگے تھے۔ ان سوالوں کی تلاش میں اب میں ان کے مقبرے سے باہر آچکا تھا۔ ان کی قبر پیچھے چھوٹ چکی تھی، مگر ان کا عکس ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے تھا۔    

غالب دادا کے مقبرے کے قریب ہی ’غلاطہ مولوی لاج میوزیم‘ ہے۔ عثمانی دور میں یہ درویش لاج ہوا کرتا تھا۔ غالب دادا کے دور میں اس کو Galip Dede Tekke یعنی غالب دادا درویش لاج کہا جاتا تھا۔ یہ 1491 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس درویش لاج کے بند ہونے کے بعد 1925 میں اس کا استعمال ایک کمیونٹی سنٹر اور پرائمری اسکول کے طور پر کیا جانے لگا۔ 27 دسمبر 1975 کو اسے ’دیوان لٹریچر میوزیم‘ کے طور پر زائرین کے لیے کھولا گیا، لیکن 30 ستمبر 2007 کو اس کا نام تبدیل کرکے ’غلاطہ مولوی لاج میوزیم‘ رکھ دیا گیا۔ اس طرح سے اس میوزیم کو دوبارہ منظم کیا گیا اور 11 نومبر 2011 میں اسے پھر سے زائرین کے لئے کھول دیا گیا۔ یہ جگہ درویش رقص کے لئے بھی مشہور ہے۔ غورطلب رہے کہ ترک جمہوریہ کے ابتدائی دنوں میں درویشوں کے رقص پر پابندی لگا دی گئی تھی، اگرچہ پابندی ہٹا لی گئی، لیکن استنبول میں صرف چند درویش لاج باقی رہ گئے ہیں، ان میں سے سب سے مشہور لاج یعنی Whirling-Dervish Hall یہی ہے۔ یہاں ہر اتوار کو درویشوں کا رقص کا پروگرام یعنی Whirling Dervishes پرفارمنس ہوا کرتا ہے، لیکن کووڈ کی وجہ سے ابھی یہ پروگرام بند ہے۔

اس ’غلاطہ مولوی لاج میوزیم‘ میں ترکی کے شاعروں، فنکاروں اور ’مولوی ثقافت‘ سے تعلق رکھنے والی اشیاء کی نمائش کی گئی ہے۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی سلطان عبدالمجید اول کے دور میں کی گئی تزئین و آرائش کے بارے میں ایک تحریر نظر آتی ہے۔ یہاں عثمانی آرمی بینڈ اور موسیقی کے آلات کی نمائش بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ ایک بیحد دلچسپ میوزیم ہے۔ یہاں دیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے، لیکن میری نظریں صرف دادا غالب کو تلاش رہی تھیں۔

میں بار بار یہی سوچ رہا تھا کہ کاش! غالب دادا سے جڑی کچھ جانکاری یہاں مل جاتی۔ تبھی میری نظر اس درویش لاج کی لکھی تواریخ پر پڑھی، اس میں کئی نام درج تھے۔ 23 ویں نمبر پر غالب دادا کا نام تھا۔ جس میں لکھا گیا ہے، ’غلاطہ مولوی ہاؤس‘ کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا جب قونیہ درویش لاج کے شیخ، حاجی محمد ایمن چلابی نے 11 جون 1791 کو غالب دادا کو شیخ مقرر کیا۔ اس وقت یہ ہاؤس کافی خستہ حال تھا۔ شیخ غالب نے سلطان سلیم (iii) کو اس ہاؤس کی بہتری کے لیے خط لکھا، جس کے نتیجے میں سلطان کے حکم پر لاج کی وسیع پیمانے پر مرمت کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ غالب کو سلطان سلیم (iii) کی بیٹی بیہان سلطان سے محبت تھی۔‘  حالانکہ غالب دادا پر کام کرنے والے لوگوں نے اسے افواہ قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان کی نظموں سے اندازہ ہوتا ہے، شیخ غالب کو بیہان سلطان کے لیے محبت کے بجائے گہری عزت، احترام اور تعریف تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بیہان سلطان کی خاص طور پر ان کے اچھے کاموں کے لئے تعریف کی، اس کی اہل دانش اور اسی طرح کے مذہبی پہلوؤں کی حمایت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘

میوزیم میں آگے بڑھنے پر غالب دادا کا ذکر ایک جگہ اور نظر آتا ہے۔ یہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ ’شیخ غالب دادا نے اس ہاؤس کی خدمت شیخ کی حیثیت سے اپنی وفات تک کی۔ محض 42 سال کی عمر میں ان کی موت ہوگئی۔ انہوں نے 1782 میں دیوان ادب کی اہم ترین تصانیف میں سے ایک Hüsn-ü Aşk لکھا تھا۔ شکریہ سلطان سلیم کے ساتھ ان قریبی دوستی کو، جس نے 1791-92 میں غلاطہ مولوی ہاؤس کی تجدید کی۔‘

بتادیں کہ Hüsn-ü Aşk دو محبت کرنے والوں کی کہانی سناتا ہے۔ Hüsn مطلب ’خوبصورتی‘ اور Aşk کا ’محبت‘ سے ہے۔ اس کہانی کے مطابق، Hüsn اور Aşk ایک ہی رات کو ایک ہی قبیلے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے پیار کرنے لگے۔ لیکن جب Aşk قبیلے کے بزرگوں سے شادی میں Hüsn کا ہاتھ مانگتا ہے، تو گاؤں کے بزرگوں نے اس کا مذاق اڑایا اور قلب (دل) کی سرزمین سے کیمیا (کیمسٹری) لانے کو کہا۔ وہ Hüsn کے ساتھ رہنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسلئے Aşk اپنے نوکر Gayret "استقامت” کے ساتھ سرزمین قلب کے سفر کے لیے روانہ ہوا۔ Aşk اور Gayret کو اپنے سفر کے دوران بے شمار خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر میں، Aşk کو جن تمام آزمائشوں سے گزرنا پڑا وہ اس کے یقین کی وجہ سے تھے کہ Hüsn ایک مختلف شخص تھا جب کہ اصل میں Aşk اور Hüsn ایک ہی ہیں۔ اس کہانی میں استعمال کیے گئے تمام نام، بشمول کرداروں اور مقامات کے نام، صوفی اصطلاحات ہیں۔ کہانی علامتوں سے بھری ہوئی ہے اور اس کا مقصد اس کے لغوی معنی کے لیے نہیں بلکہ اس کے علامتی اور باطنی معنی کے لیے ہے۔ خدا کی طرف سفر جہاں آخر میں انسان دیکھتا ہے کہ وہ خود خدا کا عکس ہے، اس لئے خدا کے ساتھ ایک ہے کیونکہ خدا کے سوا کوئی وجود نہیں ہے۔ Hüsn-ü Aşk میں انسانیت پرستی بہت کم ہے۔ سب کچھ ایک باصلاحیت نوجوان صوفی کے تجریدی خوابوں اور غور و فکر کے بارے میں ہے۔ اور یہ پوری کہانی شاعری کی شکل میں ہے۔ اس میں کل 2101 شعر ہیں۔ ان کی یہ کتاب ترکی کی زیادہ تر لائبریریوں میں موجود ہے۔ استنبول زائم یونیورسٹی کی لائبریری میں اسے ریئر کلیکشن میں رکھا گیا ہے۔  وہیں سلیمانی لائبریری میں شیخ غالب کی اپنی ہینڈ رائٹنگ میں لکھی گئی کتاب موجود ہے۔ بتادیں یہ ترکی ادب کی یہ اہم کتاب غالب دادا نے محض 26 سال کی عمر میں لکھی تھی اور اسے ترک ادب میں مثنوی کی سب سے کامیاب تصنیف میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ 

دراصل، غالب دادا ترکی کے سب سے مشہور عثمانی ترک صوفی شاعر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالب دادا جدید ترک شاعری کے پیشرو تھے یا انہیں عثمانی شاعری کا آخری سربراہ بھی کہا جاتا ہے۔ کلاسیکی شاعری میں غالب دادا جس مقام پر پہنچے تھے، اس مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکا ہے۔ ان کا اصل نام محمد اسد تھا۔ لیکن یہ ترکی میں ’غالب دادا‘ کے نام سے مشہور ہوئے، انہیں شیخ غالب بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش 1757 میں ترکی کے استنبول میں ہوئی۔ ان کے والد اور دادا مولوی تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد راشد آفندی سےحاصل کی، جو کہ شاعر اور اسکالر تھے۔ پھر اس کے بعد انہوں نے مختلف اساتذہ سے عربی اور فارسی سیکھی۔ آپکو کم عمری میں ہی ایک بااثر شاعر اور وسیع ثقافت کے حامل دانشور کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ صرف 24 سال کی عمر میں غالب دادا نے اپنا "دیوان” لکھ ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شاعری میں ہمیشہ کچھ نیاپن تلاش کیا۔ شیخ غالب کو موسیقی کا ذوق بھی تھا اور وہ گانے بھی ترتیب دیتے تھے جو ترکی کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔

1794 میں والدہ ایمن خاتون اور پھر 1796 میں ان کے ایک شاگرد اسرار کی موت ہوگئی۔ اسرار ان کے شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ  انتہائی قریبی دوست بھی تھے۔ جن کی وجہ سے غالب دادا صدمے میں بیمار پڑے اور 3 جنوری 1799 (کہیں کہیں یہ سال 1798  بھی ہے) کو اس دنیا کو ہمشیہ کے لئے الوداع کہہ کر چلے گئے۔

غالب دادا کی موت سے صرف ایک سال 6 دن پہلے یعنی 27 دسمبر 1797 کو مرزا اسد اللہ خان غالب پیدا ہوئے۔ دونوں کے اصل نام میں بھی ’اسد‘ کا ہونا محض ایک اتفاق ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ غالب دادا نے بھی پہلے ’اسد‘ نام سے شاعری کی، پھر جب انہیں لگا کہ اسد نام سے مزید کئی شاعر ہیں تو انہوں نے اپنا قلمی نام ’غالب‘ رکھا اور یہی نام ان کا تخلص بن گیا۔ یہی کہانی اپنے چچا غالب کی بھی ہے۔ ان کا بھی اولین تخلص اسد تھا لیکن بعد ازاں اُنہوں نے ایک اور شاعر میر اَمانی اسد سے کلام کی مشابہت کے بعد اپنا تخلص ’غالب‘ اختیار کر لیا تھا۔ یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ غالب دادا کو Sebk-i Hindi یعنی ہندوستانی طرز کا شاعر مانا جاتا ہے۔

اتنی مساوات، اتنی نزدیکی، اتنا اپناپن اور تواریخ میں کہیں ذکر ہی نہیں۔ ہندوستان میں ادب کے چاہنے والوں کو ترکی کے غالب دادا کے بارے میں کوئی اطلاع ہی نہیں۔ ترکی کے لوگ تو اپنے چچا غالب کے دیوانے ہیں، ان کی نظمیں و غزلیں ترکی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ یہاں کی میڈیا میں چچا غالب کا ہمیشہ چرچا رہتا ہے۔ لیکن ہمارے وطن ہندوستان میں ترکی کے غالب دادا کو جاننے والا شاید ہی کوئی ملے۔ یہ معاملہ میرے دل و دماغ کو پریشان کئے جا رہا تھا۔ شاید ایک دن ایسا ہونا تھا کہ 32 سال کے ایک لڑکے کو 4534 کلومیٹر دور ہندوستان سے چل کر اس زمین پر یہی تلاشنے آنا تھا۔ شاید یہ میری ہی قسمت میں تھا کہ میں یہاں آکر دنیا کی دو عظیم ثقافتوں کے دو عظیم علامتوں کے درمیان ٹوٹے ہوئے پل کو جوڑنے کی کوشش کروں۔ شاید یہ ذمہ داری میرے ہی کاندھوں پر رہی ہو، شاید قدرت نے مجھے یہی سوچ کر ہندوستان سے اتنی دور بھیجا ہو تاکہ ترک زمین کے اس ہیرے کی چمک کو ہندوستان کی فضاؤں میں بکھیر سکوں۔ اگر میں ایسا کر سکا، غالب دادا سے ہندوستان کے چند لوگ بھی روبرو ہو سکے تو یہ اس عظیم شاعر کو ہم ہندوستانیوں کی جانب سے ایک سچی خراج عقیدت ہوگی۔ امید ہے کہ آگے ہم اردو والے بھی غالب دادا کو مزید جانیں گے۔ 

***

 

***

 دراصل، غالب دادا ترکی کے سب سے مشہور عثمانی ترک صوفی شاعر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالب دادا جدید ترک شاعری کے پیشرو تھے یا انہیں عثمانی شاعری کا آخری سربراہ بھی کہا جاتا ہے۔ کلاسیکی شاعری میں غالب دادا جس مقام پر پہنچے تھے، اس مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکا ہے۔ ان کا اصل نام محمد اسد تھا۔ لیکن یہ ترکی میں ’غالب دادا‘ کے نام سے مشہور ہوئے، انہیں شیخ غالب بھی کہا جاتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022