بنگال سے مہاراشٹر تک، ملک کے کئی حصوں میں رام نومی کے جلوسوں کے دوران تشدد، 20 سے زیادہ زخمی

نئی دہلی، مارچ 31: بدھ اور جمعرات کی رات رام نومی کے جلوسوں کے دوران ملک کے کئی شہروں میں فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں 20 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔

ملک کے مختلف حصوں میں کم از کم 54 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق مہاراشٹر، مغربی بنگال، دہلی، گجرات، تلنگانہ اور اتر پردیش میں جھڑپوں کی اطلاع ملی ہے۔

تشدد ان واقعات کا اعادہ ہے جو پچھلے سال رام نومی کے موقع پر کئی ریاستوں میں رپورٹ ہوئے تھے۔ گذشتہ سال ان واقعات کے بعد حکام نے مسلمانوں کی ملکیتی دکانوں اور عمارتوں کو مسمار کر دیا تھا۔

اسی طرح کے خطوط پر اس سال زیادہ تر جھڑپیں رام نومی کے جلوسوں کے بعد شروع ہوئیں، جب جلوس لاؤڈ اسپیکر پر اشتعال انگیز گانے بجاتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقوں سے گزرے۔

مغربی بنگال کے ہاوڑہ ضلع میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کے بعد کئی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا، پتھر پھینکے گئے اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ پتھر پھینک رہے ہیں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ سیکیورٹی اہلکاروں کو ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے زور دے کر کہا کہ تشدد کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ میں فساد پھیلانے والوں کی حمایت نہیں کرتی اور انھیں ملک کا دشمن سمجھتی ہوں۔ بنرجی نے کہا ’’بی جے پی نے ہمیشہ ہاوڑہ کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کے لیے دوسرے اہداف پارک سرکس اور اسلام پور ہیں۔ ہر ایک کو اپنے علاقوں میں چوکنا رہنا چاہیے۔‘‘

بی جے پی لیڈر سووندو ادھیکاری نے ان الزامات کی تردید کی اور تشدد کے لیے ترنمول کانگریس حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

ایک ویڈیوز میں شمالی 24 پرگنہ کے بھاٹپارہ شہر میں ہندوؤں کو ایک مسجد کے باہر تلواریں لہراتے اور زعفرانی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا گیا۔

وہیں گجرات کے وڈودرا میں رام نومی کے دو الگ الگ جلوسوں کے دوران مسجدوں اور مسلمانوں کے گھروں پر پتھر پھینکے گئے اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی۔

وہاں اس معاملے میں ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

پولیس کے ڈپٹی کمشنر یشپال جگنیا نے بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جلوس ایک مسجد کے قریب پہنچا اور لوگ موقع پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ انھوں نے کہا ’’یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہے۔ ہم نے ہجوم کو منتشر کیا اور جلوس بھی اپنے راستے پر آگے بڑھ گیا۔ شہر میں ایسے تمام جلوسوں کو پہلے ہی پولیس تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔‘‘

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر کے چھترپتی سمبھاجی نگر، جو پہلے اورنگ آباد کے نام سے جانا جاتا تھا، میں بھی رام نومی کی ریلی میں مبینہ طور پر قابل اعتراض نعروں پر دو گروپوں کے درمیان جھگڑے کے بعد اسی طرح کی جھڑپیں ہوئیں۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ موٹر سائیکل پر سوار نوجوانوں کے ایک گروپ نے نعرے لگائے جن پر دوسرے گروپ نے حملہ کیا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق جھگڑے نے تشدد کو جنم دیا، جس میں 10 پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد زخمی ہوئے۔

اورنگ آباد کے پولس کمشنر نکھل گپتا نے کہا ’’ہم نے مقامی پولیس ٹیم کو روانہ کیا۔ "کچھ دیر بعد ایک گروہ اس جگہ سے چلا گیا اور پولیس جلد ہی جائے وقوع پر پہنچ گئی۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک ہجوم وہاں جمع ہوا، جو پتھر اور پیٹرول سے بھری بوتلیں ساتھ لے کر آیا، جو انھوں نے پولیس اہلکاروں پر پھینکے۔‘‘

ایم پی امتیاز جلیل کو بھی معمولی چوٹیں آئیں جب انہوں نے مبینہ طور پر ہجوم کو پرتشدد ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔

ممبئی کے ملاڈ علاقے میں بھی رام نومی کے جلوس کے دوران مسلمانوں اور ہندوؤں میں جھڑپ ہوئی۔

اے این آئی کے مطابق ڈپٹی کمیشن آف پولیس اجے بنسل نے کہا کہ تشدد میں ایک شخص زخمی ہوا ہے اور حالات قابو میں ہیں۔

پولیس نے 20 افراد کو حراست میں لیا ہے اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کی ہے۔

وہیں ایک ویڈیو میں ناگپور ضلع کے واڑی قصبے میں ایک شخص کو پولیس کی موجودگی میں درگاہ حاجی عبدالرحیم ملنگ شاہ کے احاطے کے اندر بھگوا جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور لوگوں کا ایک ہجوم درگاہ میں ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگا رہا ہے۔

دی کوئنٹ کی خبر کے مطابق حیدرآباد میں بھی رام نومی کے جلوس کے دوران بی جے پی کے معطل لیڈر ٹی راجہ سنگھ کو نفرت انگیز تقریر کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

سنگھ نے جلوس کو ایک مسجد کے سامنے روکا اور اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ’’ہندو راشٹر‘‘ بن جائے گا تو کوئی گائے نہیں مرے گی اور ’’جہادیوں‘‘ کو ہندوستان سے نکال دیا جائے گا۔

ریلی میں شرکت کرنے والوں کو موہن داس کرم چند گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی تصویریں لہراتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

اتر پردیش کے متھرا میں لوگوں کے ایک ہجوم نے رام نومی کے جلوس کے دوران جامع مسجد کے قریب دکانوں کی چھتوں پر زعفرانی جھنڈے لہرئے۔

ایک اور ویڈیو میں ایک شخص کو مسجد کی حدود کے اوپر دیکھا جا سکتا ہے جب وہ زعفرانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان افراد کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مسلم اور ہندو برادری کے نمائندوں سے بات کرنے کے بعد صورت حال پر قابو پالیا گیا ہے۔

دریں اثنا دہلی میں بھی رام نومی کا جلوس نکالے جانے کے بعد جہانگیر پوری علاقے میں حالات کشیدہ رہے۔ اس علاقے میں 16 اپریل کو ہنومان جینتی کی تقریبات کے دوران فرقہ وارانہ تشدد دیکھا گیا تھا۔

پولیس نے کہا کہ انھوں نے رام نومی کے جلوس کے ساتھ ساتھ اجتماعی عبادت کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم پھر پولیس نے 5 کلومیٹر طویل جلوس کو سخت سیکیورٹی کے درمیان نکالنے کی اجازت دی جو علاقے کے ایک پارک تک محدود تھا۔