اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں ہندوتوا ہجوم نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا، امام پر حملہ کیا

نئی دہلی، اپریل 4: اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں پیر کو ہندوتوا ہجوم نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور ایک امام پر حملہ کیا۔

یہ خلل تقریباً 8.30 بجے سرنا کوٹھی میں پیش آیا، جو ہندوؤں کے زیر اثر علاقہ ہے۔

ایک وکیل ظفر صدیق کے گھر کے اندر گھس کر ہندوتوا تنظیم بجرنگ دل کے تقریباً 50 سے 60 آدمیوں نے تراویح میں خلل ڈالا۔

ظفر صدیقی نے بتایا کہ ہجوم نے امام کو تھپڑ مارا اور ایک اور نمازی پر بھی حملہ کیا، جس کو چوٹیں آئیں۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے مجھ پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے انھیں بتایا کہ میں ایک وکیل ہوں تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حملے کے دوران پولیس اہلکار موجود تھے اور انتظامیہ پر الزام لگایا کہ وہ ہجوم کی حمایت کر رہا تھا، جس کی قیادت مقامی ہندوتوا لیڈر مکیش بھٹ کر رہے تھے۔

نینی تال کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پنکج بھٹ نے کہا کہ مسلمانوں کی شکایت کی بنیاد پر تعزیرات ہند کی دفعہ 147 (فساد)، 323 (چوٹ پہنچانا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) کے تحت نماز کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

بھٹ نے کہا ’’ہم نے زخمیوں ک طبی معائنہ [طبی قانونی رسمی کارروائیاں] کی ہیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ کر لیا ہے اور اس کے مطابق مزید کارروائی کی جائے گی۔‘‘

ہلدوانی کے ایک رہائشی نے بتایا کہ حملے کی خبر شہر میں پھیلتے ہی مسلمانوں کا ایک ہجوم تھانے کے باہر جمع ہوا اور مظاہرہ کیا۔

ہنگامہ آرائی سے ایک دن پہلے مقامی پولیس نے ظفر صدیق کو فون پر کہا تھا کہ حکام کو نماز کے بارے میں شکایات موصول ہوئی ہیں اور انھیں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سے ملنے کو کہا گیا۔

بھٹ نے کہا کہ اس کے بعد سٹی مجسٹریٹ نے صدیق کی ملکیت والی عمارت کے تین کمروں کو سیل کر دیا اور یہ الزام لگایا کہ یہ ڈھانچہ ’’نزول زمین‘‘ پر بنایا گیا ہے۔

نزول اراضی ایک قسم کی جائیداد ہے جس کی ملکیت ریاست کے پاس واپس آ جاتی (مثال کے طور پر کسی مالک کا بغیر کسی قانونی وارث کے انتقال ہو جانا)، جسے وہ پھر لیز پر دے سکتا ہے۔

لیکن صدیق نے ان دعوؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کے مسلمان پچھلے 20 سالوں سے ان کے احاطے میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ وکیل نے مزید کہا کہ اس عمارت کا تہہ خانہ ایک مسجد ہے جہاں ہم سال بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں۔

ظفر صدیق نے بتایا کہ پانچ سال پہلے بھی کچھ لوگوں نے نماز پر اعتراض کیا تھا لیکن پولیس نے مداخلت کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ نماز بغیر کسی پریشانی کے جاری رہے۔ انھوں نے کہا کہ حکام نے انھیں نماز کے لیے ایک کمرہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

گذشتہ ماہ رمضان کے آغاز سے لے کر اب تک یہ چوتھا واقعہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں نماز میں خلل ڈالا گیا ہے۔

24 مارچ کو بجرنگ دل کے ارکان کے ایک گروپ نے مراد آباد میں ایک تجارتی عمارت کے تہہ خانے پر دھاوا بول دیا تھا، جہاں تقریباً دو درجن مسلمان نماز تراویح کے لیے جمع تھے۔

پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بجرنگ دل نے ایک شکایت درج کرائی جس کے بعد پولیس نے علاقے کے مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں میں تنہا یا مذہبی مقامات پر نماز ادا کریں۔

پولیس نے ذاکر حسین کو بھی نوٹس جاری کیا، جس نے اپنے گودام میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا تھا، جس میں پوچھا گیا ہے کہ کیوں نہ اس پر علاقے میں ’’امن کو خراب کرنے‘‘ کے جرم میں 5 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے۔

اسی دن نوئیڈا کے سیکٹر 137 میں ایکوسیٹی اپارٹمنٹ کے رہائشیوں نے اپارٹمنٹ کمپلیکس میں نماز ادا کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے پولیس کو فون کیا، جس کے بعد سیکٹر 142 تھانے کی ایک ٹیم نے پہنچ کر نماز کو روک دیا۔

26 مارچ کو گریٹر نوئیڈا کے سپرٹیک ایکو ولیج II اپارٹمنٹ کمپلیکس میں بھی تقریباً 60-70 ہندو باشندوں کی طرف سے نماز کی مخالفت کے بعد مسلمان نماز ادا نہیں کر سکے۔