ڈاکٹر وقار انور
داخلی وسائل پرانحصار، کرپشن کا خاتمہ اور تعلیم و ترقی کو ترجیح
دنیا کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہوسکتی ہے کہ اسلامی امارات افغانستان مالیاتی طور پر اپنی بقا کی اہل ثابت ہوئی ہے اور بیرونی امداد کے بغیر آگے بڑھنے کے اپنے اعلان کے ساتھ تیزگام ہے۔ درحقیقت امداد سے استفادہ نہ کرنا، افغان طالبان کی مرضی کا راستہ نہیں ہے بلکہ وہ اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے جائز قانونی فنڈس کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام کے ذریعہ سے عالمی طاقتیں امید کر رہی تھیں کہ نئے حکمراں ان کے دست نگر بن جائیں گے اور وہ ان کے سامنے کشکول پھیلائیں گے لیکن ایسا کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ افغان حکومت اپنے معاملات کو خود اپنے ذاتی وسائل کے ذریعے سے نمٹانے کے لیے پر عزم ہے۔ بین الاقوامی معاشیات میں یہ ایک اہم تبدیلی ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے وسائل بشمول محفوظات پر قدغن لگا دی گئی ہو، قابل اعتراض وجوہات کی بنا پر ان کا رخ موڑ دیا گیا ہو اور ان اقدامات کی وجہ سے جن کا بینکنگ سسٹم بری طرح متاثر ہوا ہو، وہ اس طرح کی سنگین صورتحال کو اپنے راستے کی رکاوٹ بننے نہیں دیں گے۔ اور اگر ایسا ہو جاتا تو یہ ڈالر کی اجارہ داری کے موجودہ مالیاتی نظام کے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ ہوتا۔
بیرونی امداد کے بغیر معاشی معاملات سے نمٹنے کا معاملہ خاص طور پر اس لیے بھی قابل توجہ ہے کہ یہ ایک ایسے ملک کی بات ہے جس کی جی ڈی پی میں چالیس فیصد حصہ بین الاقوامی امداد کا ہوا کرتا تھا اور اسی سے ان کے بجٹ کا 80 فیصد حصہ طے پاتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بجٹ کے حجم پر ضرور اثر پڑا ہے۔ گزشتہ سال بجٹ کا سائز شمسی سال 1400 کے لیے 473 بلین افغانی روپے تھا جس میں سے 311 بلین افغان روپے عمومی امور کے لیے اور 160 بلین افغانی روپے ترقی کے لیے مختص تھے۔ جبکہ شمسی سال 1401 کے لیے معلنہ نئے بجٹ کا حجم 231.4 بلین افغانی روپے ہے جس میں سے 203.5 بلین افغانی روپے عمومی بجٹ کے لیے اور ترقی کے لیے 27.9 بلین افغانی روپے مختص ہیں۔ گزشتہ سال سے اگر موازنہ کیا جائے تو بظاہر یہ نہایت ابتر محسوس ہوتا ہے لیکن اگر ہم اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ صرف بجٹ کا 20 فیصد حصہ مقامی مالیہ پر مشتمل ہو تو مقامی ذرائع سے حاصل ہونے والے مالیے کا اندازہ تقریباً 2.5 گنا زیادہ ہو گا۔ اگر اسے حاصل کر لیا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اسلامی امارات افغانستان اس ہدف کو مرکوزہ و سنجیدہ کوششوں کی بدولت قابل حصول تصور کرتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کرتے ہوئے مالیہ کی بربادی کو روکا جا سکتا ہے۔ معلنہ بجٹ کے مطابق اس میں 44 بلین افغانی روپے کی کمی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موثر مالیتی منصوبہ کے ذریعہ اس فرق کو پاٹ دیا جائے گا۔ وسائل کی تقسیم کا نہ تو برسر عام اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی میڈیا میں اس تعلق سے کوئی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ افغان حکومت کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی اس کی تلاش لاحاصل ہی ثابت ہوئی ہے تاہم بتایا گیا ہے کہ مختص کردہ بجٹ کا 88 فیصد معمول کے امور کے لیے ہو گا اور ہونے والے اخراجات میں سرکاری مصارف بشمول تنخواہوں کی ادائیگی شامل ہوگی جبکہ 12 فیصد تخصیصات غیر متواتر اور ترقیات سے متعلق مصارف کے لیے مقرر ہیں۔ ترقی کا جہاں تک تعلق ہے مجموعی تعلیم بشمول فنی و اعلیٰ تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہر کسی کو تعلیم کے لیے راستہ ہموار کرنے پر اس کی خاص توجہ ہو گی۔ ترقیاتی پراجکٹس میں ٹرانسپورٹ سے متعلق انفراسٹرکچر شامل ہے۔
ایک اور خاص پہلو جو نوٹ کرنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی مالیاتی منصوبہ بندی افغانستان میں افیون کی کاشت پر امتناع کے اعلان کے بعد کی گئی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کی جانب سے اگرچہ اس اعلان پر بہت شور مچایا گیا کہ اس سے ملک کی معیشت تباہ ہو جائے گی لیکن طالبان کی حکومت اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہی۔ اس طرح افیون کی کاشت سے آمدنی غیر ملکی امداد ہی کی طرح ممنوع قرار پائی ہے۔
وزارت مالیات کے ترجمان احمد ولی حقمال نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ترقیاتی پراجکٹس کے لیے مختص فنڈس ناکافی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ہم اپنے گھریلو وسائل سے مالیہ اکھٹا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارا ایقان ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں‘‘۔ قبل ازیں انہوں نے کہا تھا کہ ’’یہ ایک بہت چھوٹی سی رقم ہے لیکن فی الحال ہم یہی کرسکتے ہیں‘‘۔ احمد ولی نے مزید بتایا کہ مالیہ کسٹمس، وزارتوں اور کانکنیوں سے متعلق محکموں سے اکٹھا ہوتا ہے۔
شمسی سال 1401 کے لیے بجٹ کے اعلان میں دو ماہ کی تاخیر کی گئی ہے۔ یہ اعلان مالی سال کے آغاز کی تاریخ 21 مارچ 2022 سے قبل ہو جانا چاہیے تھا۔ یہ تاخیر بجٹ کے انتظام و انصرام اور مالیتی منصوبہ بندیوں سے متعلق کہانی بیان کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ افغانستان کا مالیتی نظم و نسق پختہ تر ہوگا اور بجٹ کی مدت کے آغاز سے قبل بجٹ کے اعلان اور منظوری کے اصول پر عمل ممکن ہو جائے گا۔ بجٹ کی پیشکشی سے پہلے کا یہ اصول بین الاقوامی طور پر مسلمہ و زیر عمل ہے اور منطقی طور پر منصفانہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں بجٹ فروری کے پہلے دن پیش کیا جاتا ہے حالانکہ مالی سال کا آغاز اپریل کے پہلے دن سے ہوتا ہے۔ ہندوستان میں بجٹ کی عبوری منظوری کا عمل فروری اور مارچ کے مہینوں میں مکمل کر لیا جاتا ہے تاکہ مالیہ کی ہر ذمہ داری کو مناسب طور پر تفویض کیا جاسکے۔
نئی افغان حکومت کو درپیش انتظامی مسائل قابل فہم ہیں تاہم اس امر کی ستائش کی جانی چاہیے کہ امارات نے اگست 2021 میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد قومی بجٹ کا پہلا مسودہ جاری کیا تھا جس میں مالیاتی سال کی عبوری مدت، ترقیاتی پراجکٹس بشمول ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر پر 4.7 بلین افغانی روپے کے اخراجات شامل تھے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مالیتی سال سے بہت پہلے بجٹ کے سابقہ مسودہ کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ان تمام باتوں میں یہ حقیقت سب سے زیادہ نمایاں رہے گی کہ اسلامی امارات افغانستان کا بجٹ بیرونی امداد پر کسی قسم کا انحصار کیے بغیر بنایا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیرونی امداد کا خیر مقدم نہیں ہو گا۔ اگر بیرونی امداد مل جاتی ہے تو وہ ان کے مالیاتی موقف کو مشکل دور سے باہر لے آئے گی۔ لہذا کئی ممالک بشمول ہندوستان سے ملنے والی فراخدلانہ امداد کو ممنونیت کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے لیکن نفسیاتی طور پر وہ وسائل کے اس طرح کے غیر گھریلو بہاو پر بھروسہ نہیں کرتے۔
افغانستان کے نئے حکمرانوں کے کئی اور پہلو ہیں جیسے مذہب کے بارے میں ان کی تشریح و تعبیر اور ثقافت و رواجات کے ساتھ ان کا تعلق، اس معاملے میں کوئی ان سے اختلاف رکھ سکتا ہے لیکن یہ نکتہ پوری طرح عیاں ہے کہ وہ جسمانی و ذہنی طور پر دب کر رہنے یا مغلوب ومحکوم بننے کے لیے ہرگز دستیاب نہیں ہیں۔ وہ کمانے اور حاصل شدہ آمدنی کا اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار و پرعزم ہیں۔ لہذا تجارت ان کا ذریعہ ہے اور پیام نہایت واضح ہے کہ وہ ’’سفید فاموں کے کندھوں پر بوجھ‘‘ نہیں ہیں۔
***
***
افغانستان کے نئے حکمرانوں کے کئی اور پہلو ہیں جیسے مذہب کے بارے میں ان کی تشریح و تعبیر اور ثقافت و رواجات کے ساتھ ان کا تعلق، اس معاملے میں کوئی ان سے اختلاف رکھ سکتا ہے لیکن یہ نکتہ پوری طرح عیاں ہے کہ وہ جسمانی و ذہنی طور پر دب کر رہنے یا مغلوب ومحکوم بننے کے لیے ہرگز دستیاب نہیں ہیں۔ وہ کمانے اور حاصل شدہ آمدنی کا اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار و پرعزم ہیں۔ لہذا تجارت ان کا ذریعہ ہے اور پیام نہایت واضح ہے کہ وہ ’’سفید فاموں کے کندھوں پر بوجھ‘‘ نہیں ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 جون تا 25 جون 2022