فلک سے پیغام، آج کے مسلمان کے نام

جواب شکوہ از ڈاکٹر جاوید جمیل، منگلورو

درج تاریخ میں اک شکوہ ہوا تھا پرسوز
آیا پھر خطبہ جوابی تھا بصیرت افروز
درد تھا شکوے میں، خفگی بھی تھی بے باک بھی تھا
اور خطبہ کی فصاحت تھی نصیحت آموز

آج پھر آیا فلک سے ہے نیا اک پیغام
فکر انگیز ہے، اس میں ہے مقدر کی زمام
پہلا خطبہ تھا اسی وقت کی امّت کو جواب
اب سنو کیا ہے پیام آج کے مسلم کے نام

روح کے حق میں تھا برہان جوابِ اول
کہکشاں جیسا وہ پرنور تھا، مثلِ مشعل
مضطرب شکوے کو سن کر جو تھے سب اہلِ فلک
مطمئن ہو گئے سب، رک گئی ساری ہلچل

مضطرب رہنے لگے پھر سے ہیں لیکن افلاک
ان کو لگتا ہے سوئے نار چلا بندۂ خاک
ان کی خواہش ہے مسلمانوں سے پھر سے ہو خطاب
تاکہ ایماں ہی نہیں، چست ہو ان میں ادراک

ڈرتے ہیں پھر نہ ہو گستاخیٔ شکوہ کوئی
اور کرو اپنی خطاؤں پہ بہانہ جوئی

وہ سمجھتے ہیں بشر پہلے ہو تم پھر مسلم
اور عادت کہاں انساں کی رہی حق گوئی

شکوہ "خاکم بدہن” ہو کہ ہو بے باک کلام
چشمِ عالم میں نہیں بندے کا ہرگز یہ مقام
اپنی کمیوں پہ ہو نادم، رکھے امیدِ کرم
اور دعاؤں میں خشیت ہو، اطاعت میں دوام

آج پھر سوچا تخاطب کروں کچھ بات کہوں
آج کل کیسے ہیں بدلے ہوئے حالات کہوں
تم کھڑے ہو کہاں میدانِ عمل میں بولوں
اور کیسے ہیں زمانے کے خیالات کہوں

خوش ہوں بدلے ہوئے لگتے ہیں تمہارے اطوار
ہیں مساجد کو بھی پہلے سے زیادہ دیدار
نوجوانوں کے لہو میں بھی روانی آئی
قلب بھی، ذہن بھی لگنے لگے کافی بیدار

سرخ تحریک کا اب زور بہت ہی کم ہے
اور آزاد پسندی کی بھی لو مدھم ہے
فتنہ جو پھیل رہا تھا کبھی دہریت کا
لاش کی طرح وہ کونے میں پڑا بے دم ہے

روس و امریکہ بھی بھاگے، ہوئے آزاد افغان
شاہ بھی ملک سے نکلا، ہوا مسلم ایران
شام کے حال ہیں بہتر، ہوا پرامن عراق
اب فلسطین کے بھی جاگ اٹھے ہیں ارمان

گونجنے پھر سے لگی آج اذانِ توحید
جاگنے پھر سے لگی قوم کے اندر امید
کچھ علاقے ہیں جو قبضے میں ہیں غیروں کےابھی
چند قلعے ہیں جنھیں ہونا ہے مسمار مزید

عزم زندہ ہے مگر نظم کا فقدان بھی ہے
اور تحقیق کا سویا ہوا رجحان بھی ہے
وقت کے کیا ہیں تقاضے یہ سمجھتے کم ہو
اب جو درکار ہے کم یاب وہ سامان بھی ہے

زورِ قوت بھی ہو دشمن کی جفا کی خاطر
اور تجارت بھی ضروری ہے غنا کی خاطر
یاد رکھنا یہ مگر ہو نہ کبھی فعلِ حرام
شرعِ اسلام ہے انساں کی بقا کی خاطر

یہ تو تسلیم، ہو ایمان سے تھوڑے مضبوط
لیکن اسلام تمہارا نہیں اتنا مربوط
حق ہے مومن کا، ہمیشہ رہے جنت کا سرور
یاد لیکن رہے ایماں ہے عمل سے مشروط

طرزِ افکار تمہارا بھی تھا بہکا پہلے
اور انداز ِ تمدن بھی تھا بدلا پہلے
کچھ میں تھی روس نوازی تو کچھ امریکہ نواز
تھا نظریات نے اغیار کی جکڑا پہلے

عمر لگتی ہے اداروں کی بھی کم سن اب بھی
ڈستی ذہنوں کو ہے شبہات کی ناگن اب بھی
غیروں کی شہہ پہ تم آپس میں لڑا کرتے ہو
فرقہ بندی میں ہے ڈوبا ہوا باطن اب بھی

بے رخی اصل مسائل سے ابھی ہے بیحد
اب بھی آپس میں تعاون کی کمی ہے بیحد
بھائی چارہ جو ضروری ہے نہیں ہے موجود
آپسی رشتوں میں تقسیم بڑھی ہے بیحد

جس جنوں کا ہے تقاضا وہ ابھی نادر ہے
حق شناسی کے طریقوں سے بھی دل قاصر ہے
تجزیہ اسکا ضروری ہے کہ تم آج ہو کیا
شان ِ ماضی پہ مگر آج بھی دل فاخر ہے

آخری فتح مگر ہو نہیں سکتی حاصل
سارے میدانوں میں جب تک نہیں ہوگے کامل
کرنا سر ہے نئے تحقیق کے میدانوں کو
درس میں کردو جو نافع ہو ہر اک فن شامل

حال حاضر کو بس اب حال گذشتہ کر دو
اپنے ہر کام کو مانندِ فرشتہ کر دو
سن لو یہ خوب، ہے تدبیر کی تابع تقدیر
وجہِ نقصان ہو جو قطع وہ رشتہ کر دو

نظمِ نو کیا ہے فقط قوت و ثروت کا حصول
اور مفادات کی خاطر ہے ہر اک فعل قبول
صرف ہنگامہ ہے، تشہیر ہے جھوٹی ہر سو
محض دعوے ہیں، دکھاوا ہے، دلائل ہیں فضول

جس کو کہتے ہیں وہ موڈرن وہ وحشت ہے فقط
امن کا نام ہے اور اصل میں دہشت ہے فقط
جس کو کہتے ہیں وہ فریڈم وہ ہے بے راہ روی
ان کی نظروں میں ہدف حاصلِ دولت ہے فقط

پہلے اسبابِ مسائل کی تجارت ہوگی
پھر مسائل کے کسی حل کی وکالت ہوگی
خوب سگرٹ بھی، شرابیں بھی بکیں گی پہلے
پھر شفاخانوں میں بھی بارشِ دولت ہوگی

نام آزادئِ نسواں کا لیا جائے گا
اور پھر حسن کو نیلام کیا جائے گا
عورتوں کو یہ سبق یاد کرا ڈالا ہے
ہونگی عریاں تبھی انعام دیا جائے گا

ان کے گھر میں جو عذاب آیا دکھاتے ہی نہیں
لاکھوں مرتے ہیں نشے سے یہ بتاتے ہی نہیں
رحم ِ مادر میں جو بچوں کا کیا جاتا ہے قتل
اس کی روداد زمانے کو سناتے ہی نہیں

عالمی جنگوں میں جن کی رہی حصّے داری
ہیں وہ ایوان ِ ممالک کے بڑے درباری
یوں بظاہر نظر آتی ہے رقابت ان میں
بانٹ کے کھاتے ہیں دنیا کی وہ فصلیں ساری

وقت آیا ہے کرو ان سے تم اب عقل کی جنگ
فکر و دانش میں دکھا ڈالو تم اب اپنے رنگ
آئنہ تلخ حقیقت کا دکھادو انکو
شعبہِ نشر و اشاعت میں بھی ہو جاؤ دبنگ

عالمِ نو کو بتا دو کہ فراغت کیا ہے
امن کیا شے ہے، فسادات سے فرصت کیا ہے
ان سے کہہ دو کہ گناہوں کی تجارت سے گریز
ان کو آگاہ کرو اصل معیشت کیا ہے

ان پہ واضح کرو اسلام کا کیا ہے مقصد
امن عالم میں، ہر اک گھر میں سکوں کی آمد
جتنے بھی کام مضر ہیں سبھی ہونگے ممنوع
جنگ سے دور ہو ہر ملک کی ہر اک سرحد

کب ہے انعامِ عمل صرف بہشتوں کا سرور
وعدہِ حور نہیں صرف، نہ ہی جامِ طہور
ارض پر ہو گیا مضبوط اگر حق کا نظام
ہوگا دنیا میں ہی جنت کی سی جنت کا ظہور

مستقیم ایک ہے رہ جس پہ سفر ہو پیہم
راہ "انعمت علیھم” کے رہے جس پہ قدم
ساری دنیا کو محبت سے بلانا ہے قریب
تب ہی لہرائے گا کل ارض پہ حق کا پرچم

وقت اب دور نہیں، ہوگا ہر اک سو اسلام
دشت و صحرا میں بھی گونجیگا محبت کا پیام
کوئی تفریق کہیں بھی نہ رہے گی باقی
ہر طرف پھیلے گا انصاف کا مضبوط نظام

قتل ہوگا، نہ زنا ہوگا، نہ چوری ہوگی
ظلم کا نام و نشاں تک نہ رہے گا باقی
حکمراں یاد رکھیں گے کہ ہیں رحمان کے عبد
عام شہری کا خیال ان پہ رہے گا طاری

قہر برسیے گا ا نہ آئیں گے زمیں پر سیلاب
کوئی پیاسا نہ رہے گا سبھی ہوں گے سیراب
کوئی چھوٹا نہ بڑا، سب کو میسر روزی
کوئی بھی چیز جو اچھی ہے نہ ہوگی نایاب

یہ سمجھنا ہے تمہیں دیں کی ضرورت کیا ہے
اور اس دیں سے مسلمان کی نسبت کیا ہے
کسکو کہتے ہیں اقامت، کسے کہتے ہیں ثبات
عبد کے فرض ہیں کیا، حسنِ عبادت کیا ہے

مقصدِ زیست سمجھ جاؤ تو حاصل جنت
ہر طرف فرحت ِ پرکیف، ہر اک سو رحمت
کوئی تکلیف نہیں اور نہ کوئی موت کا خوف
کوئی بھی ڈر، نہ مصیبت، نہ کوئی بھی زحمت

دیکھو قرآن نہیں صرف شریعت کی کتاب
اس میں موجود ہیں کتنے ہی نئے علم کے باب
ہوں وہ آیاتِ سماوات کہ ہو ارض کا ذکر
ان میں مل جائے گا پر امن ترقی کا نصاب

یاد رکھنا کہ نہیں چھوڑنی راہِ توحید
اور محمد ﷺکے طریقے سے ہی رکھنا امید
منتظر تم ہو جو مہدی کے تو کچھ حرج نہیں
ایک دن ہوگی ہر اک گھر میں، ہر اک ملک میں عید

سہل الفاظ میں سمجھادی ہے ہر کام کی بات
ایک امید کے ساتھ آیا ہے سامانِ نجات
یاد کر ڈالو سبق اور عمل تیز کرو
پاس ہے صبح، بہت جلد گزر جائے گی رات

سر جسے کر نہ سکو ایسا کوئی طور نہیں
عزم محکم ہو تو منزل پہ قدم دور نہیں