اکیسویں صدی کے طلباء کے لیے مطلوب صلاحیتیں

طلباء کو مسابقت کی دنیا میں اختراع، تنقیدی نقطہ نظر، اشتراک اور رابطے کا ہنر پیدا کرنے کی ضرورت

سید تنویر احمد

اکیسویں صدی کی جن صلاحیتوں کو شہریوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اس تصور کی طرف واپسی کا اشارہ دیتی ہیں کہ پورا انسانی معاشرہ ایک کنبہ ہے۔ لیکن ایک جانب انسانوں کو ایک ساتھ لانے میں کارپوریٹ کا ہاتھ ہے تو دوسری جانب دنیا کو سرحدوں میں تقسیم کرکے مختلف ممالک کے برسر اقتدار افراد اور جماعتوں کی باگ ڈور اپنے کنٹرول میں رکھنا بھی بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے مقاصد میں شامل ہے۔
اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیں، امریکہ کی مشہور یونیورسٹی ’’میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ (ایم آئی ٹی) اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے مل کر چند ایسے ہنر اور صلاحیتوں کی نشان دہی کی ہے جنہیں طلباء میں پیدا کرنا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ یہ صلاحیتیں طلباء کو بدلتی دنیا اور سماج میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔ ان صلاحیتوں کو اسکولوں میں اور عملی تدریس کے دوران سکھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس تجویز کو قبول کیا گیا ہے اور ملک کے تعلیمی اداروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مختلف تدریسی وغیر تدریسی ذرائع استعمال کر کے ان صلاحیتوں کو طلباء کے اندر پیدا کریں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ وہ طلباء کو ایسی تعلیم دے گی کہ طلباء بین الاقوامی شہری (Global Citizen) بن سکیں۔ اکیسویں صدی کی جن صلاحیتوں کا ذکر آج دنیا بھر میں ہو رہا ہے ان کا مقصد بھی نئی نسل کو بین الاقوامی شہری (global citizen) بنانا ہے۔
بین الاقوامی شہری کا نظریہ بنیادی طور پر اسلامی نظریہ ہے۔ ایک حیثیت سے تمام انسان اللہ کا کنبہ ہیں اور تمام زمین اللہ کی ملکیت ہے۔ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دنیا میں کسی بھی خطے پر آباد ہو سکتا اور اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ زمین کے اندر، زمین کے اوپر اور سمندروں میں موجود قدرت کے خزانے انسانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہیں۔ ملک، سرحد، شہریت، پاسپورٹ اور ویزا نئے زمانے کی دین ہیں اور اس نظام (System) کے پیچھے انسانوں کی فلاح و بہبود سے زیادہ اقتدار کی خواہش اور مادہ پرستی کار فرما ہے۔
اکیسویں صدی کی جن صلاحیتوں کو شہریوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ اس تصور کی طرف واپسی کا اشارہ دیتی ہیں کہ پورا انسانی معاشرہ ایک کنبہ ہے۔ لیکن ایک جانب انسانوں کو ایک ساتھ لانے میں کارپوریٹ کا ہاتھ ہے، تو دوسری جانب دنیا کو سرحدوں میں تقسیم کرکے مختلف ممالک کے برسر اقتدار افراد اور جماعتوں کی باگ ڈور اپنے کنٹرول میں رکھنا بھی بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے مقاصد میں شامل ہے۔
جن صلاحیتوں کو سکھانے اور پروان چڑھانے کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ان میں بھی کسی نہ کسی درجے میں کارپوریٹ کے مقاصد کارفرما ہیں۔ انسانوں کو دنیا میں منافع بخش سرگرمیوں میں مصروف کرنا موجودہ مادی نظام کا نظریہ (theory) ہے۔ اس نے انسانوں کو انسان کے بجائے انسانی وسائل (human resources) قرار دے کر کسی زمانے میں اس انسانی وسیلے کو منفعت بخش سرگرمیوں میں ملوث کرنے کے لیے ہاتھوں کے ہنر یا جسمانی ہنر سے آراستہ ہونے کی ترغیب دی، بعد میں جسمانی ہنر کے ساتھ ذہنی صلاحیتوں کی بھی ضرورت پیش آرہی تھی اور اب جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ چند ایسی صلاحیتیں درکار ہیں، جن کے ذریعے انسان ایک بہترین وسیلہ (ریسورس) بننے کے قابل ہو سکے۔ انہی صلاحیتوں کو اکیسویں صدی کے لیے ضروری ہنر (21st Century Skills) کہا جا رہا ہے۔ یہ صلاحیتیں اسلامی نقطۂ نظر سے قریب بھی ہیں اور اگر ان صلاحیتوں کو اسلامی نظر و فکرسے جوڑ دیا جائے تو یہ صلاحیتیں مسلم نوجوانوں کو مسلم امت کا ایک بہترین فرد بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گی۔ لہٰذا ان صلاحیتوں کو سیکھنے کا عمل ملت کے چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں جاری کیا جانا چاہیے۔ ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے تدریسی و غیر تدریسی اعمال اختیار کیا جا سکتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی صلاحیتوں کو طلباء میں اجاگر کرنے کے لیے ریاستوں کو مشورہ دیا گیا ہے۔ مختلف ریاستوں کے سرکاری شعبۂ تعلیمات اب اس سلسلے میں ٹریننگ کا کام شروع کر چکے ہیں۔ ملت کی جانب سے قائم کردہ چھوٹے بڑے اسکولوں کو اپنے طلباء میں ان صلاحیتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان صلاحیتوں کو اسلامی تعلیمات و تصورات کی روشنی میں بروئے کار لایا جائے تو دوہرے مقاصد حاصل ہوں گے۔ اسکول کے طلباء کو بین الاقوامی شہری بننے کی تربیت ملے گی اور امت کا ایک بہترین فرد بننےکا ملکہ بھی پیدا ہوگا۔ آئیے اب ہم ان صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنہیں اکیسویں صدی کی صلاحیتیں کہا جا رہا ہے۔ ان صلاحیتوں کی تین قسمیں ہیں۔
(الف) سیکھنے کی مہارتیں (Learning skill)
(ب) خواندگی کی مہارتیں (Literacy Skills)
(ج) سماجی مہارتیں (Social skills)
ان تینوں مہارتوں کے ضمن میں مزید کچھ مہارتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
1- سیکھنے کی مہارتیں (learing skills) یا وہ مہارتیں جو سیکھی جا سکتی ہیں انہیں چار سیز (Four Cs) کہا گیا ہے، یعنی وہ انگریزی کے حرف C سے شروع ہوتے ہیں۔
اختراعی صلاحیت Creativity
تنقیدی نقطہ نظر Critical thinking
اشتراک Collaboration
رابطہ Communication
پہلی C ہے اختراعی صلاحیت (creativity) جو تعلیم کے میدان میں سب سے اونچا مقام رکھتی ہے۔ سیکھنے کے عمل میں بلوم کی ٹیکسانومی (bloom’s taxonomy) کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور فی زمانہ تعلیمی نظام نے تعلیم کے اس ہرم (pyramid) کو تسلیم کیا ہے۔ ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں بھی اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بلوم ٹیکسانومی کے چھ درجات ہیں۔ اول درجہ واقفیت (Knowing) ہے اس کے ذریعے سے کسی چیز کی بنیادی آگہی حاصل کی جاتی ہے۔ واقفیت صرف معلومات کی حد تک ہوتی ہے۔ دوسرا مرحلہ تفہیم (Understanding) کا ہے۔ تیسرا مرحلہ نفاذ (Applying) یعنی عملی زندگی میں اس کا نفاذ ہے۔اس میں یہ بھی طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ علم کس قدر انسانیت کے لیے مفید اور کار آمد ہے۔ اسی مرحلے میں یہ جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ طالب علم نے جو علم حاصل کیا ہے وہ علم نافع ہے یا علم غیر نافع۔ ہم جو علم حاصل کر رہے ہیں وہ معلومات (information) کی سطح سے سمجھ (understanding) کی سطح میں جاتا ہے، اس کے بعد ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نافع ہے یا غیر نافع۔ علم کے ان تین مراحل کو بنجامن بلوم (Benjamin Bloom) نے زیریں سطح کی سوچ سے تعبیر کیا ہے یعنی فکر یا علمی سفر کا اولین مرحلہ لوور آرڈر تھنکنگ (Lower order thinking) کسی زمانے میں ایل او ٹی ہی علم کا آخری مرحلہ تصور کیا جاتا تھا لیکن گزشتہ سالوں میں ان تین مرحلوں کے علاوہ مزید تین مرحلوں کا اضافہ ہوا ہے، جنہیں ہاٹ کہا جاتا ہے یعنی ہایئر آرڈر تھنکنگ (Higher order thinking) اونچے درجے کی علمی یا فکری صلاحیت۔ ہاٹ کے تین مراحل ہیں، علم کے عملی نفاذ کے بعد ایک طالب علم، علم کے اونچے درجے میں داخل ہو جاتا ہے اور اس مرحلے کا پہلا درجہ ہے تجزیہ(Analyzing) یعنی جو معلومات فرد کے پاس ہیں یا فرد نے حاصل کی ہیں انہیں وہ مختلف حصوں اور ٹکڑوں میں بانٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان کا تجزیہ کرتا ہے یعنی ان معلومات کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے وہ انفارمیشن کے ہر حصے کو الگ الگ کرتا ہے، وہ کُل کو تقسیم کرتا ہے۔ وہ ان کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے ان حصوں کی تشخیص (Evaluation) کرتا ہے۔تشخیص دراصل ہایئر آرڈر تھنکنگ کا دوسرا مرحلہ ہے، گویا جن حصوں کو اس نے تقسیم کیا ہے ان کا وہ جائزہ لے رہا ہے، ان کا باریک بینی سے مطالعہ کر رہا ہے اور معلومات کے ان چھوٹے حصوں کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ علم کے حصول کا پانچواں حصہ ہے، چھٹا اور سب سے اونچا حصہ تجزیہ تحلیل و تشخیص کے بعد کسی چیز کو ایجاد کرنا (Innovation) ہے۔ علم کے پانچ مراحل کو جب طالب علم طے کر لیتا ہے تو آخری مرحلہ ایجاد و اختراع کا ہوتا ہے۔ اختراع مختلف طرح کی ہو سکتی ہے۔ اس کی عام فہم مثال یہ ہے کہ پانچویں جماعت کے طالب علم کو استاد نے پودوں کی غذا حاصل کرنے کے شعاعی عمل (photosynthesis) کے سلسلے میں بتایا پھر اس سے کہا کہ اسے بیان کرو۔ طالب علم کا جواب دو طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ شعاعی عمل کی جو تعریف استاد نے بیان کی ہے اسے محض اپنی یادداشت کی بنا پر انہی الفاظ کو دہرا دیتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ طالب علم اس عمل کو سمجھتا ہے، اس کا پورا ادراک کرتا ہے اور پھر اسے اپنے جملوں میں بیان کرتا ہے یا پھر اس عمل کو کلاس روم میں اپنے ساتھیوں کے سامنے سمجھانے کے لیے کوئی اختراعی طریقہ ایجاد کرلیتا ہے۔ اس دوسرے طریقے کو ہم اختراعی عمل کہیں گے ۔جو طلباء آگے چل کر اعلی تعلیم کی سطح تک پہنچتے ہیں، انہیں اسی عمل کے تحت معلومات کو جمع کرنا ہوتا ہے ان کا تحلیل و تجزیہ کرنا ہوتا ہے، پھر تشخیص کے بعد اس کا نتیجہ پیش کیا جاتا ہے۔ اختراعی عمل چھوٹے درجوں میں بھی ممکن ہے اور اس کے انتہائی منازل بھی موجود ہیں۔ اختراعی عمل ہر سطح پر ممکن ہے۔ ہم اپنے اطراف و اکناف میں بعض پڑھے لکھے اور غیر پڑھے لکھے افراد کے ذریعے ظاہر ہونے والے اختراعی اعمال کو دیکھتے رہتے ہیں۔ اختراعی عمل کی ایک اور عام فہم مثال یوں ہے:
بچوں کے مشہور ماہر نفسیات جین پیاجے (Jean Piaget) لکھتے ہیں کہ بچہ جب بولنے اور سوچنے لگتا ہے تو اس کا اختراعی عمل بھی رفتہ رفتہ نشو ونما پاتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں بچہ جب بلی کو دیکھتا ہے تو اس کے ارد گرد موجود ماں باپ یا بھائی اسے سکھاتے ہیں کہ یہ بلی ہے۔ پھر بچہ بلی دیکھنے کے چند دنوں بعد کتے کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے اختراعی عمل کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے ذہن میں موجود خاکے (schema) کو استعمال میں لاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بڑی بلی ہے۔ انسان فطری طور پر اپنے اختراعی عمل کو استعمال میں لاتا ہے۔ اس کی اور بھی مثالیں ہیں، جو آپ اور ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ کارپوریٹ میدان میں آج اختراع کی بڑی اہمیت ہے۔ اب یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہوگا کہ کوئی فرد کسی کام کو روایتی انداز میں کرتا رہے بلکہ اب یہ دیکھا جائے گا کہ ایک فرد ایک کام کو غیر روایتی انداز میں بہتر طریقے سے انجام دے کر مطلوبہ نتیجہ کتنی سرعت کے ساتھ احسن طریقے سے بہ کثرت نکال رہا ہے۔ گزشتہ دنوں راقم کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جس کا تعلق ایس آئی او سے ہے اور وہ انجینئرنگ کے آخری سال کا طالب علم ہے۔ وہ اپنی اختراعی صلاحیت استعمال کر کے ایک ایسی کلائی گھڑی بنانے کی تیاری کر رہا ہے جو پہننے والے کو قبل از وقت ہارٹ اٹیک سے باخبر کر دے گی، یعنی اگر اسے کوئی شخص پہنتا ہے اور اس کے دل کی حرکت میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے تو گھڑی کے ذریعے ایک آواز آئے گی اور پہننے والے کو آگاہ کر دے گی۔ یوں تو ایسی گھڑی (apple) کمپنی نے تیار کی ہے لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے جب کہ مذکورہ طالب علم جو گھڑی بنا رہا ہے اس کی قیمت دس ہزار روپے سے کم ہوگی۔ یہ اختراع (creativity) کا نمونہ ہے۔ گزشتہ دنوں ہفت روزہ ریڈینس میں ہبلی (کرناٹک) کی ایک طالبہ کی کہانی شائع ہوئی تھی۔ اس طالبہ نے ایک ایسا چشمہ تیار کیا ہے جسے ڈرائیور پہن لے تو دوران سفر اگر اسے نیند کا غلبہ ہوگا اور آنکھ بند ہونے لگے گی تو یہ چشمہ پہننے والے کو فوری آگاہ (alert) کر دے گا اور اس سے آواز آنے لگے گی۔ یہ اختراعی عمل کے چند نمونے ہیں جن کی آج ضرورت ہے۔ یہ مثالیں تو سائنس کے میدان کی ہیں۔ اسی طرح کے اختراعی نمونے ہمیں سماجیات کے شعبے میں بھی تیار کرنے ہیں، مثلاً نوجوانوں میں منشیات کی بڑھتی ہوئی عادت کو کم کرنے کے طریقے وغیرہ۔اسی طرح تعلیم یافتہ نوجوانوں میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کرنے کی تدبیریں۔
(جاری)
***

 

***

 انسانوں کو دنیا میں منافع بخش سرگرمیوں میں مصروف کرنا موجودہ مادی نظام کا نظریہ (theory) ہے۔ اس نے انسانوں کو انسان کے بجائے انسانی وسائل (human resources) قرار دے کر کسی زمانے میں اس انسانی وسیلے کو منفعت بخش سرگرمیوں میں ملوث کرنے کے لیے ہاتھوں کے ہنر یا جسمانی ہنر سے آراستہ ہونے کی ترغیب دی، بعد میں جسمانی ہنر کے ساتھ ذہنی صلاحیتوں کی بھی ضرورت پیش آرہی تھی اور اب جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ چند ایسی صلاحیتیں درکار ہیں، جن کے ذریعے انسان ایک بہترین وسیلہ (ریسورس) بننے کے قابل ہو سکے۔ انہی صلاحیتوں کو اکیسویں صدی کے لیے ضروری ہنر (21st Century Skills) کہا جا رہا ہے۔ یہ صلاحیتیں اسلامی نقطۂ نظر سے قریب بھی ہیں اور اگر ان صلاحیتوں کو اسلامی نظر و فکرسے جوڑ دیا جائے تو یہ صلاحیتیں مسلم نوجوانوں کو مسلم امت کا ایک بہترین فرد بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گی۔ لہٰذا ان صلاحیتوں کو سیکھنے کا عمل ملت کے چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں جاری کیا جانا چاہیے۔ ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے تدریسی و غیر تدریسی اعمال اختیار کیا جا سکتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مئی تا 11 مئی 2024