ایک معرکہ ہوا سر، جنگ ابھی باقی’آندولن جیوی‘ کسانوں نے کی تاریخ رقم

مودی سرکار کے ناقابل شکست ہونے کی شبیہ کو لگا دھکا۔ کیا ہو مستقبل کا لائحہ عمل؟

معین دین خالد

کیا حکومتِ ہند واقعی کسانوں کی ہمدرد ہے؟ کیا وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ذریعے انتہائی متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینے کے اعلان کے بعد کسانوں یا شعبہ زراعت کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا محض حکومت کے زبانی اعلان سے کسان تحریک اب اپنے مقصد کو حاصل کر چکی ہے اور اب اسے اپنے احتجاج کو سمیٹ لینا چاہیے؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں ’کرونولوجی‘ کو سمجھنا ہوگا کہ کن حالات اور کس پس منظر و پیش منظر میں وزیر اعظم کو کالے قوانین کو رد کرنے کا اعلان کرنا پڑا؟ معمول کے برخلاف مودی جی نے اس اعلان کے لیے صبح کے اوقات کو اور گروپورب یعنی سکھ مذہب کے بانی اور دس سکھ گروؤں میں سے پہلے گرو، گرو نانک جی کی سالگرہ تقریبات کے دن کو منتخب کیا۔ ظاہر ہے کہ پنجاب کے کسان ہی اس تحریک میں ہراول دستہ بنے ہوئے ہیں سو اگلے چند ماہ میں ہونے والے انتخابات کے لیے رام کرنے کے لیے ایک جذباتی و مذہبی موقع کی تلاش ایک ضرورت بن گئی تھی۔ دوسری جانب پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں حکم راں بی جے پی کی دال گلنے والی نہیں تھی جس کی زمینی رپورٹیں آر ایس ایس اور ان کی کسان تنظیموں کی جانب سے پی ایم او تک بالواسطہ یا بلا واسطہ پہنچ رہی ہوں گی۔ بلکہ اترپردیش میں سَنگھ کے لوگوں نے کسان پنچایتوں کا انعقاد کر کے اپنے قدموں تلے کھسکتی زمین کا اندازہ کر لیا تھا۔
مودی نے اسمبلیوں کی شکست کو سنجیدگی سے لیا اور وہ کسانوں کے مطالبات کے آگے جھک گئے۔ یہ معاملہ اتنا ہی نہیں ہے۔ ورنہ مختلف وزرا اور پارٹی لیڈر ایسے بیانات نہ دیتے کہ اسمبلی چناؤ کے بعد قوانین پھر آجائیں گے۔ البتہ بی جے پی کی انتخابی مشین بن چکی قیادت اور سازشی چانکیہ حکمت عملی اور تنظیمی و افرادی قوت کے بل بوتے کچھ بھی کر گزرنے کے زعم نے ان کی نا قابل شکست ہونے کی شبیہ بنا رکھی تھی جس کو اس بار بہت بڑا دھکا لگا ہے۔ ان حالات کو بعض تجزیہ نگار سلامتی امور کے مشیراجیت ڈوول کے متنازعہ بیان سے جوڑ کر بھی دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے لوگ ہمارے سلامتی امور کے مشیر اجیت ڈوول کے حالیہ تبصرے پر تشویش میں مبتلا ہیں تو وہ غلط بھی نہیں ہیں۔ حکومت کے ایک نہایت اعلیٰ اور مقتدر فرد کی جانب سے ایسا بیان عوام کے اندیشوں کو تقویت دینے کا کام کر گیا ہے۔ شہریوں کے احتجاج اور عوامی تحریکوں کو آج کی حکومت سیدھے "ملک دشمنی” اور "سلامتی کے لیے خطرہ” کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ فاشسٹ گروپوں کا جداگانہ عمل خیال کر کے ماب لنچنگ، غداری وطن کے مقدمات، حقوقِ انسانی کے کارکنوں کو زدوکوب کرنے نیز بعض ‘سیلیبرٹیز’ کے کندھوں پر بندوق رکھ کر جس طرح اندھا دھند لفظی فائرنگ کا سلسلہ روا رکھا جا رہا ہے اس سے ان مذکورہ بیانوں کے پس منظر و پیش منظر دونوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں کسان تحریک کی کمر توڑنے کے لیے آج ہی سے ملک کے سلامتی دستوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ ٢١/ نومبر کو ملک بھر سے آئے ڈی آئی جی سطح کے پولیس کے سربراہوں کا سالانہ اجلاس لکھنؤ میں اختتام پذیر ہوا جس سے خود وزیراعظم نے بھی خطاب کیا ہے لیکن اسے انتہائی پردہ راز میں رکھا گیا تھا۔ کیا فوج اور پولیس کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کا فاشسٹ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے؟ اگر موجودہ سیاسی قیادت ایسا کچھ بھی سوچ رہی ہے تو اس کو عالمی تاریخ کے اوراق از سرِ نو پڑھنے کی ضرورت ہے بلکہ خود بر صغیر ہندوپاک میں سابقہ دو چار صدیوں میں پیش آئے واقعات بھی شاہد ہوں گے۔ جن شہریوں سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد کرسی پر براجمان ہوئے ہیں آپ ان ہی کو توہین کی غرض سے”آندولن جیوی” جیسے القابات سے پکارتے ہو تو یہ ملک کی قربانیوں سے کمائی گئی آزادی و جمہوریت کی توہین ہے بلکہ تمام عوام کی رائے کے ساتھ سراسر بے ایمانی کے مترادف بھی ہے۔
جسٹس بوبڈے نے کسان احتجاج میں شریک خواتین اور بزرگوں سے متعلق ایک اہانت آمیز اور تعصب پر مبنی بیان دیا کہ سڑکوں پر ان کو کیوں ’رکھا گیا ہے‘؟ حالانکہ ملک کے معروف زرعی امور کے ماہر صحافی پی سائی ناتھ بتاتے ہیں کہ بھارت کی 73.5 فی صد دیہی خواتین کاشت کاری سے متعق تمام کاموں میں شریک ہوتی ہیں بلکہ زرعی شعبے کے کاموں میں 60 فی صد کام عورتیں ہی انجام دیتی ہیں۔ ان حالات میں ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا نظریہ معاشرے کی ذہنیت کا غماز ہی کہا جائے گا۔ خود وزیر اعظم مودی نے ملک سے معافی تو مانگی کہ وہ کسانوں کے ایک حصے کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے لیکن کیا بہتر نہ ہوتا کہ وہ کسانوں اور مہلوک احتجاجیوں کے اہل خاندان سے بھی معافی طلب کر کے اپنے بڑے دل کا ثبوت پیش کرتے؟ آخر دنیا کو پتہ تو چلے کہ انہوں نے کس طبقے کو ان کالے قوانین کی افادیت کا قائل بنا دیا تھا؟ چھ سے سات سو شہید کسانوں کے خاندانوں کی بازآبادکاری اور احتجاجیوں پر درج مقدمات کی واپسی پر ایک لفظ نہ بولنا اور مملکتی وزیر اَجے کمار مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی گاڑی تلےلکھیم پور کھیری میں کسانوں کو روندنے کے باوجود ان کو کرسیِ وزارت پر برقرار رکھ کر مودی جی کسانوں کے زخم کیوں کر مندمل کر پائیں گے؟ سخت گرما، انتہائی کڑاکے کی سردی اور لبِ سڑک کھلے آسمان کے نیچے ڈیرہ ڈالے کسانوں پر پانی کی بوچھاریں، کانٹے دار کیلے اور فرضی مقدمات سے لے کر میڈیا کو استعمال کر کے ان کی بدنامی کا مکمل انتظام کرنے والی حکومت پر کیا کسان اتنی جلد اعتماد کر لیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ متحدہ حکمت عملی اور مستقبل کے لائحہ عمل کو مرتب کرنے کی باتیں ’سنیوکت کسان مورچہ‘ کی جانب سے کہی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے اس مثبت اعلان کا خیر مقدم کرنے کے باوجود کسانوں نے ان پر اعتماد ظاہر نہیں کیا ہے اور وہ باضابطہ پارلیمانی کارروائی کے تحت تینوں کالے قوانین کو رد قرار دینے تک اپنے طے شدہ تمام احتجاجی پروگراموں کو جاری رکھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ حد تو یہ کہ کچھ میڈیا نے جب دکھایا کہ کسان مٹھائی تقسیم کر کے مودی جی کے اعلان کا خیر مقدم کر رہے ہیں تو ان کسانوں نے صفائی دی کہ یہ خوشی اور مٹھائی ان کی مذہبی روایات کی پاسداری میں بانٹی جا رہی ہے نہ کہ مودی جی کے اعلان کی خوشی میں؟ یہ حکومت کی فضیحت نہیں تو اور کیا ہے کہ مودی جی کے قوانین واپس لینے کا ارادہ ظاہر کرنے اور کسانوں کو گرو پورب کا حوالہ دے کر گھروں کو واپس لوٹ جانے کی اپیل کرنے کے باوجود وہ اب بھی اپنے مقام پر ڈٹے ہویے ہیں۔
پی ایم کو جواب دیتے ہوئے کسان تحریک کے قائدین نے واضح کر دیا ہے کہ ’اقل ترین امدادی قیمت‘ یعنی ایم ایس پی (MSP) عام کسان کا مطالبہ ہے اور اس کو یقینی بنانے کے لیے قانون بنائے بغیر ان کی تحریک کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ ساتھ ہی اگلے احتجاج پر غور جاری ہے جس کی نوعیت ملک گیر تحریک کی ہوگی۔ 26 نومبر کو برسی والے پروگرام حسب منصوبہ جاری رہیں گے بلکہ ان کو وسعت دی جائے گی۔
ایک اہم پہلو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاملہ سرمایہ داری اور فاشزم کے اشتراک کا ہے جس کو کسانوں کی بالغ نظر اور جامع قیادت نے ایک بڑا چیلینج پیش کر دیا ہے۔ اس سے قبل مڈل کلاس کو ساتھ لینے کے لیے فرینڈز آف فارمرس بنائے گیے اور عوامی بیداری اور کسان تحریک کو گھر گھر تک پہنچانے کے لیے مستقل سرگرم عمل رہنے اور متحدہ جد وجہد جاری رکھنے پر کام کیا جا رہا ہے جس میں حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں پر فوکس کیا گیا ہے۔ تحریک کے قائدین بتا چکے ہیں کہ اس اعلان کے ذریعے حزب اختلاف کا موضوع چھین لینے کے بات غلط ہے کیونکہ کسان مورچہ بنیادی طور پر ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم رہا ہے اور یہی پہلو اس کی کامیابی کا ضامن بھی بنا۔
دنیا بھر میں کورونا وبا کی وجہ سے جہاں سولہ لاکھ سے زیادہ اموات درج ہوئیں وہیں معاشی بحران کی وجہ سے کاروبار بند ہوئے اور لاکھوں ملازمتوں کا نقصان ہوا۔ تاہم کرۂ ارض کے امیر ترین لوگوں کے لیے یہ سال برا ثابت ہونا تو دور الٹا منافع کا سبب بنا ہے۔ سنہ 2020 میں دنیا کے ارب پتیوں کی دولت میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ حکومتِ ہند تسلیم کر چکی ہے کہ ملکی معیشت میں 7 اعشاریہ 7 فی صد سُکڑاؤ آیا ہے جبکہ ملک کے کسانوں نے معیشت کو کندھا دیا لیکن ان کو اس کا پھل نہیں ملا اور دوسری طرف بھارت کے ارب پتیوں کی تعداد نیز ان کی دولت میں بے تحاشا اضافہ درج ہوا۔ مہنگائی کے سبب بالخصوص دوا ساز کمپنیوں (فارما سیکٹر) نے بھارت کے نچلے طبقے کی دولت کو اوپر کے معدودے چند ارب پتیوں کے ہاتھوں میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔
جمہوریت میں عددی اکثریت کا بھرم اور مایاجال پھیلایا جاتا ہے جس کے زور پر پانچ سال تک بے لگام گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔ اس گھوڑے کو لگام لگانے کا کام شہریوں اور باشندگانِ ملک کو کرنا ہوتاہے حالانکہ مختلف جمہوری اداروں کا یہی فریضہ ہوتا ہے لیکن فی زمانہ ہماری جمہوریت کے چاروں ستون، بشمول ذرائع ابلاغ چاروں خانے چت کیے جا چکے ہیں یا سر نگوں ہو چکے ہیں تو عوامی جدوجہد اور رائے عامہ کی ہمواری کے ذریعے اس اہم کام کی تلافی کردی گئی ہے۔
ایک پہلو جس پر بات کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ سکھوں کے احتجاج اور مسلمانوں کے احتجاج کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ دونوں نے ایک دوسرے کی کھل کر حمایت کی پھر بھی موجودہ بدلے ہوئے حالات میں دونوں اقوام کے طریقہ احتجاج میں یکسانیت کی توقع حکمت اور زمینی حالات سے ناواقفیت ہی کہی جائے گی۔ سڑکوں پر احتجاج کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے جیسا کہ سکھ یا دیگر اقوام ہو سکتی ہیں۔
ایک دیگر پہلو حکومتوں کا سرمایہ داروں اور عالمی اداروں کے مفادات کے تحفظ میں کام کرنے کا رجحان ہے جس کے خلاف ایک نہایت جامع اور ہمہ گیر تحریک اور عوامی دباؤ کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ جب کبھی کوئی دوسری پارٹی اقتدار میں آئے گی تب بھی وہ ’اسٹرکچرل ریفارم‘ اور قانونی اور دیگر اصلاحات کے نام پر ان ہی خطوط پر کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
موجودہ معاملے پر سائی ناتھ نے ایک ’’کسان کمیشن‘‘ بنانے کی تجویز پیش کی ہے جو دیگر ماہرین سے صلاح مشورہ کر سکتا ہے نہ کہ ماہرین کا کمیشن بنایا جائے جیسا کہ حکومت یا عدالت سوچتی رہی ہے۔ ساتھ ہی پچھلے سولہ برسوں سے التوا میں پڑے ہوئے سوامی ناتھن کمیشن کی تجاویز پر عمل کروانے پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 حکومتوں کا سرمایہ دار اور عالمی اداروں کے مفادات کے تحفظ میں کام کرنے کا رجحان ہے جس کے خلاف ایک نہایت جامع اور ہمہ گیر تحریک اور عوامی دباؤ کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جب کبھی کوئی دوسری پارٹی اقتدار میں آئے گی تب بھی وہ ’اسٹرکچرل ریفارم‘ اور قانونی اور دیگر اصلاحات کے نام پر ان ہی خطوط پر کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021