حکومت اتر پردیش احتجاج پر قابو پانے کے نام پر انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے اور اس کے ذریعے ظلم و ناانصافی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبا دینا چاہتی ہے۔ گزشتہ دنوں شہر پریاگ راج (الٰہ آباد) میں اسی طرح کی ایک کارروائی کرتے ہوئے مشہور سماجی کارکن جاوید محمد اور ان کے اہل خانہ کو گرفتار کر کے ان کا گھر منہدم کر دیا گیا۔ اتر پردیش حکومت کا یہ اقدام آئین و قانون اور عدالتی احکامات کا کھلا مذاق اور انتقامی سیاست کی ایک بدترین مثال ہے۔ انگریزی نیوز پورٹل مکتوب انڈیا کے مطابق جاوید محمد کی دختر آفرین فاطمہ نے نیشنل وومن کمیشن کو تحریر کردہ شکایت میں کہا ہے کہ پہلے تو بغیر کسی وارنٹ کے ان کے والد کو گرفتار کیا گیا اور پھر رات بارہ بجے ان کی والدہ اور بہن کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ جب کہ پولیس کی یہ کارروائی ضابطہ فوجداری کی دفعہ 46 (4) کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس دفعہ کے مطابق غروب آفتاب کے بعد سے طلوع آفتاب تک کسی خاتون کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ فرسٹ کلاس مجسٹریٹ سے اس کی تحریری اجازت نہ لی جائے۔ لیکن اس معاملے میں پولیس نے قانون کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ اس کے بعد پریاگ راج پولیس کی جانب سے سنیچر کی رات گیارہ بجے جاوید محمد کے گھر پر انہدام کی ایک نوٹس چسپاں کی گئی۔ پچھلی تاریخ کو جاوید محمد کے نام پر جاری کردہ یہ نوٹس جھوٹ کا پلندہ اور حق و انصاف کی آواز اٹھانے والوں سے حکومت کی دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔ پولیس نے انہدامی کارروائی کی یہ نوٹس جاوید محمد کے نام پر جاری کی ہے، اس نے دشمنی میں یہ تک نہیں دیکھا کہ مذکورہ مکان جاوید محمد نے نام پر نہیں بلکہ ان کی اہلیہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ اس نوٹس میں اس سے قبل دس مئی کو بھی ایک نوٹس ارسال کرنے، 24 مئی کو ایک سنوائی ہونے اور 25 مئی کو احکام جاری کرنے کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ نوٹس میں نہ تو ان کی کوئی تفصیل موجود ہے اور نہ اہل خانہ ہی ان کارروائیوں سے واقف ہیں۔ حکومت کا غیر قانونی قبضوں کو ہٹانے یا سرکاری املاک کو خالی کروانے جیسے کاموں کا ایک طریقہ کار ہے جس میں ہر فریق کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس کی پابندی کسی بھی ذمہ دار حکومت کا فرض ہے اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ اس کو احتجاجیوں کے لیے بطور سزا استعمال کرنا عوام دشمنی، لاقانونیت اور جمہوری آزادیوں کو ختم کرنے کے عزائم کا واضح ثبوت ہے۔
2019 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد موجودہ حکومت کی ان کارروائیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اور حکومت ان تمام آوازوں کو خاموش کرنے کے کام میں مصروف ہو گئی ہے جو اس کے غلط اقدامات پر اٹھتے ہیں، ان لوگوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے میں لگی ہوئی ہے جو حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور لوگوں کے حقوق کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کے بارے میں زبانی طور پر فکر مندی کا اظہار کرتی ہے۔ 2019 کے دوران اس نے لوک سبھا میں انسانی حقوق ترمیمی بل منظور کیا، مودی حکومت نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ یہ بل ملک میں انسانی حقوق کو استحکام عطا کرے گا لیکن عملاً صورت حال اس کے برعکس ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل حقوق انسانی اور سماجی انصاف کے لیے لڑنے والے، حکومت پر تنقید کرنے والے اور ہندتو کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے کئی جہد کاروں کو حکومت نے اسی طرح انتقامی سیاست کا نشانہ بنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ہے۔ ایڈووکیٹ سدھا بھاردواج، نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا، آصف اقبال تنہا، صفورا زرگر، عمر خالد اور خالد سیفی جیسی کئی طاقتور آوازوں کو کمزور کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ اہانت رسول کے خلاف ہونے والے احتجاج کو قابو کرنے کے نام پر یو پی، مدھیہ پردیش کی حکومتیں جس طرح کی کارروائیاں کر رہی ہیں انہیں کسی بھی طرح سے فرقہ وارانہ ماحول کو قابو میں کرنے والی کارروائی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ سراسر ایک سیاسی انتقام ہے اور آواز اٹھانے کے جمہوری حق کو ختم کرنے کی واضح کوشش ہے۔
مسلمانوں کو اس موقع پر پوری جرات اور حکمت کے ساتھ تمام مظلوم عوام کے ساتھ مل کر ملک میں بولنے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی آزادی کو باقی رکھنے کی جدوجہد کرنی ہو گی۔ یقیناً ہماری نبی حضرت محمد ﷺ کے متعلق بکا گیا ہذیان ہمارے لیے شدید دکھ اور تکلیف کا باعث ہے اور اس تکلیف کا اظہار اور بد گوئی کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا ہمارا بنیادی آئینی حق ہے لیکن یہ کوشش اور احتجاج اس طرح ہو کہ دشمن اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 جون تا 25 جون 2022